موسموں میں غیر معمولی تبدیلی گرمی کی شدید لہریں، مون سون کے موسم پر اثرات اور طوفان قحط زدہ علاقے ان تمام تباہ کن عوامل کے پسِ پشت جو دشمن کار فرما ہے وہ گلوبل وارمنگ ہے، حالانکہ دنیا میں گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ گزشتہ صدی میں ماحول کی آلودگی کو اس نہج تک پہنچانے میں امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا بڑا ہاتھ ہے۔
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ گرین ہاؤس گیسزکا اخراج جو کرہ ارض پر ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ بن رہا ہے، اس میں وطنِ عزیز کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس کی قیمت پاکستان کو چکانا پڑ رہی ہے۔ اس وقت موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ کے لیے پاکستان کو مؤثر اور منصفانہ کلائمیٹ فنانسنگ کی اشد ضرورت ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد صرف پاکستان میں بحالی اور تعمیر نو کے لیے 16.3 بلین ڈالر درکار تھے، تاہم وعدہ کردہ 8.5 بلین ڈالر کی امداد بھی مکمل طور پر موصول نہ ہو سکی۔
2005 میں زلزلہ، 2010میں تباہ کن سیلاب آیا۔ عالمی برادری نے پاکستان کی کھل کر مدد کی، مگر بدقسمتی سے ان میں سے اکثر امدادی رقوم مبینہ طور پر خورد برد ہوگئیں، جس کے باعث دنیا نے بعد میں پاکستان کی مدد سے گریزکیا۔ ترقی یافتہ ممالک کو سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کے اپنے وعدے کا احترام کرنا ہوگا اور پاکستان جیسے متاثرہ ممالک کو براہ راست،گرانٹ پر مبنی، اضافی وسائل کی فراہمی یقینی بنانی ہوگی۔
ایک رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے ہر سال 15سال سے کم عمر کے تقریباً 6 لاکھ بچے مر جاتے ہیں۔ نزلہ، کھانسی،گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو اسموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثرکرتی ہیں، جب کہ اسموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ عالمی ادارہ صحت کی مذکورہ رپورٹ عام دنوں کے حوالے سے ہے اور اس امرکی شاہد ہے کہ ہماری فضا اس قدر زہریلی ہوچکی کہ اس میں سانس لینا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
عالمی ادارے خبردارکر چکے ہیں کہ پاکستان میں 2040تک مکمل خشک سالی کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ ان خدشات سے نمٹنے کے لیے تاحال خاطر خواہ اقدامات ہوتے نظر نہیں آئے۔ حالیہ دنوں میں سیلاب آیا تو چند دنوں کے لیے تھا لیکن زندگی بھر کے داغ دے کر چلا گیا ہے۔ لوگوں کی عمر بھرکی جمع پونجی سیلاب کی نذر ہوگئی۔
سیلاب انفرادی، اجتماعی اور معاشی طور پر ایسے کچوکے لگا چکا ہے جس کی فوری تلافی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ سیلاب سے زراعت تباہ ہوئی، صنعتوں کے علاوہ تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہوا، پنجاب میں بدترین سیلابی صورتِ حال کی وجہ سے 7 لاکھ سے زائد بچوں کا تعلیمی سلسلہ عارضی طور پر رک گیا ہے، صوبے کے 2 ہزار 900 سے زائد اسکول بند کرنا پڑے ہیں۔ ایک ہزار 150 اسکولوں میں سیلاب کا پانی آیا، 850 سے زائد کی عمارتیں جزوی متاثر ہوئیں، 45 اسکول مکمل طور پر گِرگئے۔
گجرات، حافظ آباد، مظفرگڑھ، نارووال اور ملتان کے اسکول سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پنجاب حکومت نے 40 ارب روپے کے فنڈز متاثرہ اسکولوں کی بحالی پر لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہزاروں دیہات میں زیر آب کھیتوں، بے گھر خاندانوں، تباہ شدہ مکانات اور مُردہ مویشیوں کی تصویریں تباہی کی سنگینی کو واضح کرتی ہیں اور تباہی کے باعث ملک میں غذائی بحران سر اٹھا سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گندم اور چاول کی فصل کا بیشتر حصہ تباہ ہوچکا ہے۔ پاکستان کے سیلاب پر عالمی برادری کو بھی تشویش ہے۔ پاکستان بین الاقوامی برادری کو بھی بارہا یہ بتا چکا ہے کہ بھارت کا ایسا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔
پچھلے 30 سالوں میں ہمارے ملک میں آنے والے صرف سیلابوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی کا تجزیہ کر لیا جائے تو اس نظام کا کھوکھلا پن واضح ہوجائے گا۔ ہر آنے والے مون سون کے سیزن میں ہماری حکومتوں کی پھرتیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں،کبھی حکومتی عسکری اداروں سے امدادی سرگرمیوں میں تعاون کی اپیل کی جاتی ہے تو کبھی پرائیویٹ رفاہی اداروں کی خدمات کا سہارا لیا جاتا ہے جس سے اس فرسودہ نظام کا اصل مکروہ چہرہ عارضی طور پر چھپ جاتا ہے۔ ظاہر ہے، ان سوالات پر سوچنا اور ان کا پائیدار حل تلاش کرنا،ان انسانوں پر زیادہ بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے جو نظاموں اور حکومتوں کو سنبھال کر دنیا کے فیصلے کرتے ہیں۔
غلامی جب طبیعتوں میں رچ بس جائے تو پھر مذہبی معاشروں میں ہر مسئلہ کو قسمت، تقدیر، مقدر اور خدا کے ساتھ نتھی کر کے صحیح رخ پر مسائل کو دیکھنا اور ان کو حل کرنے کا ہنر ناپید ہو جاتا ہے۔ پھر نہ ظالم کا احتساب ہوسکتا ہے اور نہ ہی مظلوم کی داد رسی کی جا سکتی ہے، اگر ہلکی سی بارش ہو جائے تو پاکستان کے چند بڑے شہر پشاور، لاہور،کراچی، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور اسلام آباد کی سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرتی ہیں، باقی ملکی صورتِ حال پر تو کوئی بحث ہی نہیں ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی الگ سے وزارت بھی قائم ہے مگر حالیہ کانفرنس میں پاکستان کا کردار حوصلہ افزا نہ تھا، دیگر اقوام نے جس فورم پہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تفصیلی منصوبہ جات پیش کیے پاکستانی وفد عالمی دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرانے میں ناکام رہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے سنگین نتائج بھگت رہا ہے جس کے نقصان کے ازالے اور مستقبل میںخدانخواستہ ایسے ہولناک عوامل سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کی معاونت کی ضرورت ہے اور دوسری جانب سولر پاور پروجیکٹ اور اس جیسے دیگر ماحول دوست توانائی کے منصوبوں کے لیے اور وسیع پیمانے پہ شجر کاری کے لیے خطیر رقم درکار ہے۔
عالمی فورم پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک کو بار بار تنبیہ کر رہے ہیں کہ اپنے اندرونی مافیاز کو ختم کریں خاص کر جو جنگلات کی کٹائی کر رہے ہیں، اِس سلسلے میں ہماری صوبوں کی حکومتیں نہ صرف مافیاز کو روکنے میں بری طرح ناکام ہیں بلکہ اس جرم میں برابر کی شریک بھی ہیں۔ گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں نئے جنگلات نہیں اُگائے گئے جو کہ نہایت ضروری ہیں کہ اُگائے جائیں۔
پاکستان میں موسم کی خلاف توقع تبدیلیوں نے انسانی زندگی کو بری طرح متاثرکیا ہے، موسم بہار میں ہی گرمی انتہا پر پہنچی اور مارچ میں ہیٹ ویو شروع ہوگئی۔ ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جلد موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ نمٹا گیا تو پاکستان میں واٹر اور فوڈ سیکیورٹی کا خطرہ شدت اختیار کر جائے گا۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی تسلسل سے یہ موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں تو جانداروں کی زندگی خطرے میں پڑجائے گی۔ دنیا کے وہ ترقی یافتہ ممالک جو موسمیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے لیے گرین ٹرانزیشن کرچکے ہیں، ان میں سرفہرست ڈنمارک پاکستان سے اشتراک کے لیے کوشاں ہے۔
ڈنمارک نے موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے انفرادی اور قومی سطح پر سخت قانون سازی کی، اس پر عملدرآمد کرایا اور اب گرین ٹرانزیشن کی طرف گامزن ہے۔ اس حوالے سے ڈنمارک کے ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم سے موافقت اختیار نہ کی تو پاکستان پانی اور غذائی قلت کا شکار بھی ہوسکتا ہے، سد باب کے لیے پالیسی لیول پر اقدامات ناگزیر ہیں۔
پاکستان ’’اڑان پاکستان پروگرام‘‘ کے تحت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ مساوی کلائمیٹ فنانسنگ کی سرمایہ کاری اس بات کو واضح کرتی ہے کہ دنیا کا اجتماعی مستقبل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔موسمی تغیرات نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے چیلنج بن چکے ہیں پاکستان میں خاص طور پر بالائی علاقے اور گلیشیئر رکھنے والے علاقے بالخصوص خطرات کا شکار ہیں جب کہ شہری علاقوں میں سیلاب سے بھی شہری بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کی روک تھام ممکن ہو نہ ہو کم از کم ان حالات سے نمٹنے کی ابتدائی تیاری تو کرلینی چاہیے جس کا فقدان نظر آتا ہے۔