ماہ اکتوبر کے پانچ دنوں میں اسلام آباد اور لاہور میں زندگی معطل رہی۔ کراچی سمیت مختلف شہروں میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مذہبی تنظیم کے رہنماؤں اور سیکڑوں کارکنوں کی مبینہ ہلاکتوں کی افواہوں نے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیے رکھا۔ ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہرکراچی میں ایسی افواہوں کی بنا پر سوشل میڈیا سے کئی تعلیمی اداروں میں تعطیل رہی۔مصدقہ ذرایع سے ایسی مبینہ ہلاکتوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی، بعد میں پنجاب پولیس نے اپنے ایک پریس نوٹ میں اس گروہ کے ہاتھوں ایک ایس ایچ او کے جاں بحق ہونے، 50 سے زائد پولیس والوں کے زخمی ہونے اور تین مظاہرین اور ایک راہگیر کی ہلاکت کا ذکر کیا ۔
پنجاب حکومت نے اس تنظیم کے قائدین کی اپنے کنٹینر سے فرار ہو کر کسی خفیہ مقام کی طرف جانے کی وڈیو وائرل کی۔ اس کے ساتھ اس تنظیم کے دفتر سے کروڑوں روپے کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی اور لاکھوں روپے کے زیورات برآمد ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔
اب حکومت نے سوشل میڈیا پر افواہیں وائرل کرنے والے عناصر کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اب سائبر کرائم کی وفاقی ایجنسی چند افراد کو گرفتار کرے گی جنھوں نے افواہوں کو وائرل کیا تھا مگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے منفی استعمال کا مسئلہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔
عام لوگوں کا یہ مفروضہ ہوتا ہے کہ عموماً اس طرح کے احتجاج کے بارے میں صحیح حالات سامنے نہیں آتے۔اس بناء پر عام آدمی کا سوشل میڈیا پر انحصار زیادہ ہوگیا ہے، گزشتہ صدی کے آخری عشروں سے انفارمیشن ٹیکنالوجی عام ہونے سے اطلاعات جغرافیائی حدوں کی پابند نہیں رہیں۔
پہلے کبھی اخبارات کے علاوہ سرکاری شعبے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹیشن قائم تھے۔ اب نجی شعبے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹیشن قائم ہیں۔ غیر ملکی ٹیلی وژن پاکستان میں رونما ہونے والے اہم واقعات کو مکمل طور پر کور کرتے ہیں۔لیکن سوشل میڈیا تو ہر قسم کے کنٹرول سے آزاد ہے لہٰذا یہاں غیرمصدقہ اطلاعات کی بھرمار ہے۔ اسی بناء پر اب کسی اہم واقعے سے متعلق افواہوں کا روکنا ممکن نہیں ہے۔ ذرایع ابلاغ کے طالب علم افواہوں کے پھیلنے کو دوسرے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
ایک زمانے میں اخبارات ہوتے تھے۔ برصغیر میں اخبارکے ادارے قائم ہوئے۔ ڈھائی سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اخبار میں سب سے اہم فرد ایڈیٹر ہوتا ہے۔ ایڈیٹر کی ذمے داری اخبارکی پالیسی بنانا اور اس پالیسی پر عملدرآمد کرانا ہوتا ہے۔ ایڈیٹر کی اور ذمے داریوں میں یہ ذمے داری بھی ہوتی ہے کہ اخبار میں شایع ہونے والی ایک خبر معروضیت کے اصولوں پر پوری اترتی ہو۔ اس کے ساتھ اداریہ، آرٹیکلز اور کالمز میں حقائق بیان کیے جائیں۔
ایک اچھے ایڈیٹرکی یہ بھی ذمے داری ہوتی ہے کہ کسی اشتہار میں حقائق کو مسخ نہ کیا جائے اور اشتہار میں ایسا مواد موجود نہ ہو جس سے معاشرے میں افراتفری پھیل سکتی ہو، ایسا مواد موجود ہونے کی صورت میں خطیر رقم ملنے کے باوجود ایسا اشتہار شایع نہیں کیا جاتا۔ ایڈیٹر کے بہت سے معاونین شایع ہونے والے مواد کی معروضیت اور اس مواد میں استعمال ہونے والی زبان کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اپنی بھرپور صلاحیتیں استعمال کرتے ہیں۔ ہر اخبار کا اداریہ، آرٹیکلز اورکالمز قارئین کو زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اخبار میں رپورٹر اور خبررساں ایجنسی کی خبریں مختلف فلٹرز سے گزرکر اشاعت پذیر ہوتی ہیں۔
صحافت کی تاریخ میں ایسے کئی اخبارات شایع ہوئے جن میں معروضیت کے اصولوں کو مقدم نہیں رکھا جاتا تھا، وہ کچھ عرصے بعد تاریخ کے کوڑے دان میں کھوگئے۔ الیکٹرونک میڈیا میں ڈائریکٹر نیوز چینل کی پالیسی کے مطابق خبروں کی معروضیات کے اصول کو یقینی بنانے کا پابند ہے۔رپورٹر کی خبر آڈیو اور وڈیو مواد کا معروضیت کے اصولوں پر اترنا ضروری ہے۔ الیکٹرونک میڈیا پر نشرکردہ مواد معاشرہ میں فوری اثر پذیری کا موجب بنتا ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ حقائق ہی نشرکیے جائیں۔
دنیا کے سب سے بڑے ریڈیو اور ٹیلی وژن نیٹ ورک بی بی سی کے اہم واقعات کو دو Sources سے تصدیق کرنے کی روایت کی بناء پر بی بی سی کو دنیا کا سب سے بڑا ذرایع ابلاغ کا مؤثر ادارہ بنا دیا تھا۔ بھارت کے معروف ٹیلی وژن ادارہ جامعہ ملیہ دہلی، شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق صدر اور بی بی سی کی اردو سروس کے صحافی پروفیسر عبید صدیقی مرحوم نے وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے زیرِ انتظام ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اپنے مقالے میں بتایا تھا کہ بی بی سی نے بھارت کی سابق وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے قتل کی خبر فوراً ملنے کے باوجود اس بناء پر نشر نہیں کی تھی کہ دوسرے آزاد ذریعے سے فوری طور پر اس خبرکی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایڈیٹرکا ادارہ موجود نہیں ہے، ہر شخص اطلاعات کے پھیلاؤ کے اثرات کی اہمیت سے واقف نہیں ہے۔ ایسا مواد وائرل کردیا جاتا ہے جس میں اچھا‘ برا یا جھوٹ سب شامل ہو۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر ایڈیٹرکا ادارہ کیسے قائم ہو یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے ۔
ابلاغیات کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیزکا بیانیہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کے تیز رفتار پھیلاؤ نے خبر اور افواہ کے درمیان فرق کو دھندلا دیا ہے۔
اس صورتحال میں فیکٹ چیکنگ کے مؤثر نظام اور الگورتھم میں شفاف تبدیلیاں ناگزیر ہوگئی ہیں، تاکہ غیر مصدقہ یا گمراہ کن مواد کی پہنچ محدود کی جا سکے۔ موجودہ ڈیجیٹل فضا میں چند سیکنڈ میں لاکھوں صارفین تک غلط معلومات پہنچ جاتی ہیں، جو عوامی رائے، سماجی رویوں اور حتیٰ کہ معاشی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں، لہٰذا، ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں اپنی تکنیکی اور اخلاقی ذمے داری نبھاتے ہوئے ایسے نظام وضع کریں جو سچائی کو ترجیح دیں، جب کہ صارفین میں بھی خبرکی تصدیق کا شعور پیدا کیا جائے، یہی ذمے دار ڈیجیٹل معاشرے کی بنیاد ہے، مگر کئی سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومتوں کی عدم توجہ کی بناء پر اخبار کا ادارہ ختم ہو رہا ہے۔ عام آدمی اخبار اورکتب بینی سے دور ہوگیا ہے۔
عام آدمی کے رویہ کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مہنگائی ہے، مگر ہر شہر میں کھانے کے آؤٹ لیٹ پر لوگوں کے بڑھتے ہوئے شعور سے مہنگائی کا مفروضہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ اصولی طور پر ریاست کو اخبارکی صنعت کی ترقی کے لیے بنیادی اقدامات کرنے ہونگے۔ اخبارات نیوز پرنٹ کے علاوہ بجلی کے بلوں میں رعایت ملنی چاہیے۔
اشاعت کے لیے قرضے ملنے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ہی اخبارات کو مکمل آزاد ہونا چاہیے تاکہ عوام کا اخبارات پر اعتماد مضبوط ہوسکے۔ اس کے ساتھ ہی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اخبار بینی کی عادت کو مؤثر بنانے کے لیے کانفرنس اور سیمینار منعقد ہونے چاہئیں۔ روایتی میڈیا کو مضبوط کر کے ہی سوشل میڈیا کے اثر کوکم کیا جاسکتا ہے۔