عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کے وزیرِ خزانہ اور دائیں بازو کی مذہبی جماعت ریلیجیس صہیونزم پارٹی کے سربراہ بیتزالیل اسموٹریچ نے سعودی عرب سے تعلقات کی بحالی کے امکان کو سخت الفاظ میں رد کردیا۔
انھوں نے کہا کہ اگر سعودی عرب سے سفارتی تعلقات بحال کرنے کے بدلے میں ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا پڑے گا تو وہ اس معاہدے کو قبول نہیں کریں گے۔
اسرائیلی وزیر نے توہین آمیز انداز میں کہا کہ اگر سعودی عرب کہتا ہے کہ فلسطینی ریاست کے بدلے تعلقات معمول پر لائیں۔۔ تو نہیں، شکریہ۔ وہ سعودی عرب کے صحرا میں اونٹ پر سواری جاری رکھیں اور ہم اپنی معیشت، معاشرے اور ریاست کو ترقی دیتے رہیں گے۔
یہ بیان انہوں نے جمعرات کو یروشلم میں منعقدہ ایک کانفرنس میں دیا، جس کا اہتمام زومیٹ انسٹیٹیوٹ اور مکور ریشون اخبار نے کیا تھا۔
وزیر خزانہ کے اس بیان کو اسرائیل کے اپوزیشن رہنماؤں نے جہالت، سفارتی نقصان اور قوم کی بدنامی قرار دیا۔
قائد حزبِ اختلاف یائیر لپید نے ایک پوسٹ میں کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت مشرقِ وسطیٰ میں تبدیلی لانے کے بجائے سوشل میڈیا کے نچلے درجے کے صارفین کی طرح زبان استعمال کر رہی ہے۔ یہ ملک کی رہنمائی نہیں، تباہی ہے۔
انھوں نے عربی زبان میں کی گئی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ اپنے سعودی اور مشرقِ وسطیٰ کے دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وزیر خزانہ اسموٹریچ پورے اسرائیل کی نمائندگی نہیں کرتے۔
دوسری جانب یائیر گولان (ڈیموکریٹس پارٹی) نے وزیر خزانہ کے بیان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ وہی سوچ ہے جس نے 7 اکتوبر 2023 کے واقعے کو جنم دیا تھا۔
سعودی عرب سے تعلقات مسترد کرنا دراصل حماس کو انعام دینے کے مترادف ہے تاکہ وہ غزہ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے۔
بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے سربراہ بینی گینٹز نے کہا کہ یہ بیان لاعلمی اور حکومتی ذمہ داری کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کو ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو شدت پسندی سے آزاد ہو اور مستقبل کے بارے میں سنجیدہ ہو، نہ کہ لائکس کی سیاست کرے۔
عوامی اور سیاسی دباؤ کے بعد اسرائیلی وزیر خزانہ نے بعد ازاں اپنے بیان پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ بعد ازاں اسموٹریچ کی معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میری سعودی عرب سے متعلق بات بالکل نامناسب تھی، اور میں اس سے پہنچنے والی تکلیف پر معذرت خواہ ہوں۔
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں یہ بھی توقع کرتا ہوں کہ سعودی عرب ہماری تاریخ، وراثت اور یہودی عوام کے اپنے تاریخی وطن پر حق کو تسلیم کرے اور ہمارے ساتھ حقیقی امن قائم کرے۔
یاد رہے کہ اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ نے ایک بل کی ابتدائی منظوری دی ہے جس کے تحت مغربی کنارے کے یہودی بستیوں کو اسرائیل میں ضم کرلیا جائے گا۔
اس بل کی وزیرِاعظم نیتن یاہو اور ان کی لیکود پارٹی نے مخالفت کی تھی تاہم حکومت کے دائیں بازو کے اتحادی اس کے حامی ہیں۔
خیال رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی اجازت نہیں دیں گے۔
امریکی صدر نومبر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کرنے والے ہیں، جہاں اسرائیل-سعودی تعلقات کی بحالی اہم ایجنڈا ہوگی۔