صدر اسکندر مرزا منتخب صدر نہیں تھے بیورو کریٹ تھے جو اپنے سے پہلے کے بیورو کریٹ صدر غلام محمد کی جگہ صدر بنے تھے اور ان دونوں صدور نے ملک میں کسی سیاسی وزیر اعظم کو چلنے نہیں دیا تھا اور آئے دن وزرائے اعظم ہٹا دیے جاتے تھے، جس سے ملک میں سیاسی استحکام ختم ہو چکا تھا اور منتخب وزرائے اعظم غیر منتخب صدور کی جی حضوری کے باوجود برطرف کر دیے جاتے تھے۔
اس وقت ملک میں 1956 کا آئین نافذ تھا جو جنرل ایوب نے مارشل لا لگا کر منسوخ کر دیا تھا اور 27 اکتوبر کو انھوں نے صدر اسکندر مرزا کو برطرف کر کے لندن بھیج دیا تھا اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر اقتدار پر قابض ہو گئے تھے جس کے بعد انھوں نے بی ڈی ممبروں کے ذریعے خود کو صدر منتخب کرایا اور بعد میں خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے دیا تھا۔
یہ راقم کے بچپن کا زمانہ تھا جب جنرل ایوب خان نے ملک میں صفائی مہم شروع کرائی تو ملک بھر کی دکانوں پر مالکان نے رنگ و روغن کرایا تھا اور بازاروں و سڑکوں پر خصوصی طور پر صفائی کرائی جاتی تھی اور ملک میں پہلے مارشل لا حکام کی ہدایت پر ملاوٹ کے خلاف مہم کا اعلان ہوا تو ملاوٹی اشیا فروخت کرنے والوں نے سزا کے خوف سے کھانے پینے کی تمام ملاوٹ شدہ اشیا خوردنی مختلف جگہوں پر تلف کر دی تھیں اور مہنگی اشیا سستی ہو گئی تھیں اور بدامنی کے خوف سے راقم کے آبائی شہر شکار پور میں ایک مجرم کو سرعام پھانسی بھی دی گئی تھی۔ اس پھانسی کے بعد جرائم میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی۔
عوامی سطح پر امن و امان تھا، ملاوٹی اشیا کی فروخت ختم، مہنگائی معمول کے مطابق اور تعلیم و صحت کے معاملات میں بہت بہتری آئی تھی۔ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر ایبڈو کے تحت پابندی لگا دی تھی۔
سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی تھی۔ ملک میں صنعتی و مواصلاتی ترقی قابل دید تھی۔ ملک میں سیاستدانوں کو سیاسی بے چینی تھی مگر ملک کے عوام مطمئن و خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔
جنرل ایوب نے بھی سیاست میں قدم رکھنے کے لیے اپنی نئی کنونشن مسلم لیگ بنائی تھی، جس کے سیکریٹری جنرل ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، جن کے لیے مشہور ہے کہ انھوں نے ایوب خان کو تجویز دی تھی کہ ملک کے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو کنونشن لیگ کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا جائے مگر ایوب خان نے یہ تجویز مسترد کر دی تھی۔
جنرل ایوب نے سرکاری مشینری کے استعمال اور مبینہ دھاندلی سے محترمہ فاطمہ جناح کو ہروا کر صدارتی انتخاب جیتا تھا اور ان کی سربراہی میں بھارت سے 6 ستمبر 1965 کی جنگ بھی ہوئی تھی جس کے بعد اپنے وزیر خارجہ بھٹو سے جنگ کے بعد تاشقند معاہدے پر اختلاف ہوا تو بھٹو مستعفیٰ ہو گئے تھے اور انھوں نے اسی معاہدے کو بنیاد بنا کر جنرل ایوب کی آمریت کے خلاف 1967 میں پیپلز پارٹی بنائی کہ معاہدہ تاشقند کے تھیلے سے بلی باہر نکالوں گا جو کبھی ان کے اقتدار میں بھی نہیں نکلی۔
ایوب خان کے دور میں ملک میں ترقی بھی ہوئی اور پاکستان دوسرے ملکوں کو قرضے دیتا تھا اور دنیا میں اسے اہم اور باعزت مقام حاصل تھا ۔ آج 67 سال بعد ملک پھر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے جس کا ذمے دار دو سال سے قید بانی پی ٹی آئی کو ملک کی اکثر پارٹیاں قرار دیتی ہیں اور ملک کی دو بڑی پارٹیاں اقتدار میں ہیں جن کی حکومت کو پی ٹی آئی تسلیم کرتی ہے، نہ مذاکرات کرتی ہے اور صرف فوجی قیادت کے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے۔
2008سے ملک میں جمہوری منتخب حکومتیں کام کر رہی ہیں ۔ جنرل ایوب کا انقلاب ان کی حکومت کے ساتھ رخصت ہو گیا تھا مگر بانی پی ٹی آئی جیل میں بیٹھ کر پھر انقلاب کی توقع لگائے بیٹھے ہیں اور نہ جانے اب کون سی تبدیلی کے منتظر ہیں مگر اب ملک میں اب مزید کسی انقلاب کے آثار نہیں نہ عوام غیر آئینی اقدام چاہتے ہیں۔