اس زمانے میں کئی پاکستانی ان کے حامی تھے کیونکہ انھیں سادہ مزاج اور فوری انصاف مہیا کرنے والے حکمران سمجھا گیا۔گو افغان طالبان نے اقتدار میں آ کر جوسخت قوانین نافذ کیے ، سبھی مسلمان ان سے متفق نہ تھے۔ الاقاعدہ کا پیچھا کرتے ہوئے 2001ء میں امریکی افغانستان پہنچے اورطالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ 2021ء میں امریکیوں کی واپسی کے بعد وہ پھر برسراقتدار آ گئے۔ اس بار اُمید تھی کہ وہ پہلے کی طرح انتہاپسندانہ پالیسیاں نہیں بنائیں گے مگر یہ خیال سراب ثابت ہوا۔
عمل و کلام میں تضاد
افغان طالبان خود کو سچا و پکا مسلمان کہتے ہیں، مگر اس ماہ کے اوائل میں انھوں نے سبھی لوگوں کو دکھا دیا کہ وہ بھی اکثر دنیاوی حکمرانوں کی طرح موقع پرست اور منافق ہیں۔ ہوا یہ کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھارت کا دورہ کیا اور وہاں بھارتی حکمران طبقے کے ساتھ دوستی کی پینگیں جھولتے رہے۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لیے انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر بھارت کا حصّہ ہے۔ وہاں وہ اسی پاکستان کو بُرا بھلا کہتے رہے جس نے انھیں تب پناہ اور سہارا دیا تھا جب امیر خان متقی اور ان کے اہل خانہ مشکلات میں گرفتار تھے۔وہ اہل پاکستان کے تمام احسانات وایثار پس پشت ڈال کر پاکستانیوں کے متعلق قابل اعتراض جملے کہتے رہے۔
اہم ترین بات یہ کہ بھارتی حکمرانوں کی چاپلوسی کرتے ہوئے افغان طالبان یہ تلخ سچائی بھول گئے کہ بھارت میں کھلم کھلا مسلمانوں کو اپنا دشمن کہنے والا طبقہ حکمرانی کر رہا ہے۔اس طبقے کا قائد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہے جس کی زیرقیادت پچیس سال قبل انتہا پسند ہندوئوں نے انتہائی بے رحمی سے ریاست گجرات میں ہزارہا مسلمان شہید کر دئیے تھے۔ سیکڑوں مسلم خواتین کی بے حرمتی کی گئی تھی۔ ظالموں اور سفاک قاتلوں نے معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا تھا۔ اسی لیے مودی کو ’’گجرات کا قصائی ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔
یہ شخص دس سال پہلے اقتدار میں آیا اور تب سے عام بھارتی مسلمان کا جینا حرام ہو چکا۔ آج بھارتی مسلمان بھارت میں دوسرے درجے کے شہری بن چکے اور انھیں روزمرہ زندگی میں قدم قدم پر ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر مظالم کے جو پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مگر خود کو حقیقی مسلمان کہنے والے افغان طالبان نے یہ تمام تلخ حقائق فراموش کر دئیے اور بھارتی مسلمانوں پہ ظلم وستم توڑنے والے حکمرانوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے اور ہاتھ ملاتے دکھائی دئیے۔
اس عالم میں ان کے اسلامی اصول کہاں چلے گئے؟وہ جس اتحاد اسلامی کی بات کرتے ہیں، وہ کہاں غائب ہو گیا۔ بلکہ ان کے طرزعمل نے دکھا دیا کہ دنیاوی فوائد حاصل کرنے کی خاطر وہ کچھ بھی سکتے ہیں۔ اپنے تمام اصول وقوانین پیروں تلے کچل سکتے ہیں۔اور ضمیر و غیرت محض کتابی باتیںہیں۔
خوارجی نظریات
دونوں بار جب افغان طالبان نے حکومت سنبھالی تو اہل پاکستان کو یقین تھا کہ اب افغانستان کی جانب سے شرانگیزی کا خاتمہ ہو جائے گا مگر دونوں بار یہ تمنا پوری نہ ہو سکی۔اس دفعہ بھی دوستی کرنے کے بجائے افغان طالبان نے اپنی نظریاتی جڑواں تنظیم ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے زیادہ وفاداری دکھائی کیونکہ دونوں ایک ہی انتہاپسندانہ نظریے کے بندھن میں بندھے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ دور جدید کے خارجیوں کے چوری چھپے اور بزدلانہ حملوں میں پاکستان کے عام شہریوں اور سرحدوں کی حفاظت کرنے والے جوانوں میں سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں شہید ہوئے۔ حال ہی میں جب اس موسمِ گرما میں پاکستان پر بھارت کی جارحیت نئی دہلی کے لیے اچھے نتائج نہیں لائی، تو ہم نے پاکستان کے فوجی اور نیم فوجی اہلکاروں پر دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھا ہے۔
رفتہ رفتہ اتنے زیادہ فوجی، نیم فوجی اہلکار، پولیس والے اور عام شہری بھی تقریباً روزانہ شہید ہونے لگے کہ کوئی کہے یا نہ کہے، پاکستان کے پاس فوجی کارروائیوں بشمول فضائی حملوں کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا کیونکہ خاموش بیٹھے رہنا سیکیورٹی فورسز کے حوصلے کو متاثر کر سکتا ہے۔ شاید کچھ دانشور اور لکھاری اس بڑھتی دہشت گردی کو ملک کے سیاسی عدم استحکام سے جوڑ دیں جب کہ کچھ اسے نمائندہ حکومت کی عدم موجودگی کا نتیجہ قرار دیں ۔ ان آرا میں جزوی سچائی ہو سکتی ہے، مگر بس اتنی ہی ، اس سے زیادہ نہیں۔
ٹی ٹی پی کو دوبارہ ابھرنے کا موقع فراہم کر کے پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی ہے اور 2008 ء سے 2016 ء تک بھرپور فوجی کارروائیوں سے حاصل شدہ زمینی کامیابیاں کھو دیں۔ یہ براہِ راست نتیجہ تھا سابقہ پی ٹی آئی حکومت اور فوجی قیادت کی الجھی پالیسیوں کا جنہوں نے میدانِ جنگ میں پائی کامیابیاں کسی نظریاتی مذاکراتی میز پر قربان کر دیں۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو ان کے ہتھیاروں سمیت واپس آنے کی اجازت دی گئی اور ان پر کوئی شرط عائد نہیں کی گئی۔ رفتہ رفتہ وہ اپنی پرانی تنگ نظر سوچ کی طرف لوٹ گئے اور اب وہ اپنے انتہاپسندانہ عقائد بندوق کے زور پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان پر حملے
پاکستان طویل عرصے سے لہو میں نہا رہا ہے مگر اس کے چند ہی اتحادی پاکستانی قوم کے درد اور مخمصے کی حقیقی قدر کرتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ دہشت گرد اور گھات لگا کر کیے گئے حملوں کے بعد … جو دراصل پاکستان پر حملے کے مترادف تھے ، پاکستانی سیکورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی، تو وہ ممالک بھی جن کے ساتھ اس کے دفاعی معاہدے موجود ہیں، صبر و تحمل کرنے کی تلقین کرنے لگے۔ گویا ایک ملک پر ہونے والے یہ حملے “دونوں پر حملے” نہیں سمجھے گئے۔
پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد حملوں میں حالیہ اضافہ اندرونی خلفشار کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق قندھار میں موجود افغان طالبان کی قیادت اور چند دیگر عناصر بشمول حقانی نیٹ ورک کے درمیان جسے پاکستان نے طویل عرصے تک ایک دوستانہ، حلیف گروہ کے طور پر پناہ دی ، اختلافات پائے جاتے ہیں۔
لیکن پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے متعدد حالیہ حملے، جن کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی، ان علاقوں سے بھی کیے گئے جو حقانی نیٹ ورک کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔اس سے دو میں سے ایک بات ظاہر ہو تی ہے: یا تو حقانی گروہ کی طاقت اور علاقوں پہ اثر و رسوخ کمزور پڑ چکا ، یا وہ دہرا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ماہرین اس بارے میں جو بھی رائے رکھتے ہوں، موجودہ صورتِ حال بہرحال پاکستان کے لیے اچھی علامت نہیں۔
جھوٹا بھرم
افغان طالبان کی حکومت ایک جھوٹے بھرم میں جی رہی ہے۔ مثال کے طور حال ہی میں بھارت کے دورے کے دوران طالبان کے عبوری وزیرِ خارجہ نے یہ دعویٰ کیا کہ افغانستان نے برطانوی، سوویت اور امریکی طاقتوں کو شکست دی ۔ نہیں، ایسا حقیقی طور پر نہیں ہوا تھا۔ اْس وقت کے افغان حکمران دوسری اینگلو-افغان جنگ (1878-1880ء) میں برطانویوں کے ہاتھوں فیصلہ کن طور پر شکست کھا گئے تھے ۔نتیجے میں برطانیہ نے افغانستان کو برصغیر کے برطانوی راج اور روسی سلطنت کے درمیان “گریٹ گیم” کا بفر زون بنا دیا۔
افغان حکمران ، امیر عبدالرحمان خان نے برطانوی ہند کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کو سرحد کے طور پر تسلیم کیا اور بعد کے افغان حکمرانوں نے بھی اس کی توثیق کی۔ جہاں تک سوویت یونین کی بات ہے، انہیں باہر نکالنے اور افغان عوام کو بچانے میں دراصل امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ کی 2001 ء کے بعد افغانستان میں موجودگی کا خاتمہ بھی اس وقت ہوا جب خود امریکی حکومت نے اگست 2021 ء میں وہاں سے انخلا کا فیصلہ کیا ۔کیونکہ امریکی عوام طویل اور دْور دراز جنگوں کے خلاف ہو چکے تھے۔ مذید براں افغان طالبان کو پشتون ہونے کے ناتے پاکستانی پشتون علاقوں میں جو تزویراتی گہرائی (depth strategic ) حاصل تھی، اس نے انہیں سہارا دیا۔
افغان طالبان کی وعدہ خلافی
گزشتہ چار سال سے زائد عرصے سے پاکستان سمیت دنیا والے طالبان سے توقع کر رہے تھے کہ وہ امریکہ کے ساتھ 2020ء کے دوحہ امن معاہدے کے تحت کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کریں گے۔تاہم طالبان نے اپنے تینوں وعدے توڑ دیے ہیں: ایک حقیقی نمائندہ حکومت تشکیل دینا، خواتین کے حقوق کا احترام کرنا اور افغان سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کو کام کرنے سے روکنا۔
پاکستان کے حوالے سے طالبان نے خاص طور پر معاندانہ رویّہ اختیار کر رکھا ہے اور حال ہی میں انہوں نے دو رْخی حکمتِ عملی اپنالی ہے۔
پہلا رخ بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کا ہے … نہ صرف صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) میں بھارتی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کے لیے بلکہ اس غلط فہمی میں پاکستان پر دوہرا دباؤ ڈالنے کے لیے بھی کہ ’’پاکستان کا دشمن ان کا دوست ہے‘‘۔
اُدھر بھارت نے بھی جس نے ماضی میں افغان طالبان پر سخت تنقید کی تھی، اب اپنی پالیسی بدل لی ہے تاکہ طالبان کو پاکستان کے خلاف ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جا سکے ، بالکل ویسے ہی جیسے طالبان بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔بھارت کی امید ہے کہ وہ طالبان کو پاکستان اور حتیٰ کہ چین سے بھی مزید دْور کر سکے گا۔
دوسرا رخ افغان طالبان کی عسکری جارحیت میں حالیہ اضافہ ہے جس کا مقصد پاک۔افغان سرحد کو غیر مستحکم کرنا ہے جبکہ پاکستان کی مسلسل کی جانے والی ان شکایات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ افغان طالبان حکومت تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) اور دیگر پاکستان مخالف عناصر کو پناہ اور حمایت فراہم کر رہی ہے ۔یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے پاکستان میں بچوں اور بے گناہ شہریوں کو قتل کیا ہے۔
فی الحال پاکستان نے حملوں کو پسپا کر دیا ہے اور طالبانی افواج اور ان کے ٹی ٹی پی اتحادیوں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے اس مشورے پر کان نہیں دھریں گے کہ اپنی سرزمین دہشت گردوں کے استعمال سے پاک رکھیں۔اس کے برعکس افغان قیادت ہر کارروائی کی ذمے داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر یہ مؤقف اختیار کرتی ہے کہ ان دہشت گردوں سے نمٹنا پاکستان کا کام ہے۔افغان طالبان کے حامی ذرائع ابلاغ بھی بھارتی میڈیا کی طرز پر گمراہ کن پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں۔
افغان طالبان پاکستان کے دشمن کیوں ؟
یہ سوال اہم ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے اتنے ناشکرے اور دشمن کیوں بن گئے ہیں؟ایسا لگتا ہے کہ وہ ’’قوم پرست‘‘ بننے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ افغان معاشرے کے وسیع تر طبقوں میں حمایت حاصل کر سکیں۔شاید وہ یہ تاثر بھی دینا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے زیرِ اثر نہیں۔وہ ٹی ٹی پی کی میزبانی ممکنہ طور پر پاکستان کے خلاف دباؤ کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر بھی کر رہے ہیں۔مگر یہ بھی سچ ہے، ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی طاقت کا حد سے زیادہ اندازہ لگا رہے ہیں اور ممکن ہے، جلد ہی ایک سخت جھٹکا کھا جائیں۔
افغان طالبان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ اہل پاکستان کے اس عزم کو کم نہ سمجھیں جو اپنی سرحدوں کے دفاع اور طالبانی حکومت کی حمایت یافتہ دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ بھارت سے حالیہ لڑائی کے دوران یہ عزم و دلیری دنیا والوں پر عیاں ہو گئی تھی۔پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ کس طرح نمٹنا چاہیے؟ اس حوالے سے حالیہ مدت میں ذیل کے چند اقدامات پر غور کیا جا سکتا ہے:
}…اول: پاکستان کو اپنی سرحدوں بالخصوص افغانستان اور بھارت کے ساتھ مضبوط دفاعی پوزیشن برقرار رکھنی چاہیے۔ صرف طاقت ہی جارحیت کو روک سکتی ہے۔
}…دوم: پاکستان کو کابل حکومت تک یہ واضح پیغام پہنچانا چاہیے کہ مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں، بشرطیکہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان کی حمایت ختم کرنے کا پختہ عہد کرلیں۔ اگر وہ اس عہد کے لیے تیار نہیں ہوتے تو پھر طاقت کے استعمال کے آپشن کو میز پر رکھا جائے۔
}…سوم: پاکستان کو افغان طالبان پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے سفارتی سطح پر سرگرم رہنا چاہیے ، خاص طور پر سعودی عرب (جو اب مشترکہ دفاعی شراکت دار ہے)، چین، روس، ایران، وسطی ایشیائی ریاستوں، ترکی، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے ساتھ رابطے بڑھانے چاہییں۔
مختصر وطویل مدتی اقدامات
چونکہ طالبان کا ماضی القاعدہ سے منسلک رہا ہے، اس لیے عالمی برادری نہیں چاہے گی کہ افغان طالبان دوبارہ دہشت گرد تنظیموں کو پناہ دیں۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ اقوامِ متحدہ میں اپنی شکایات ’’سلامتی کونسل کی قرارداد 1988 ء (1267) ‘‘کے تحت درج کرائے، جو دہشت گردوں پر پابندیوں سے متعلق ہے۔
’’درمیانی مدت‘‘ میں پاکستان کو قومی سطح پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہیے تاکہ افغانستان سے متعلق اپنی پرانی نرم پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیا جا سکے … جیسے افغان مہاجرین کے قیام، افغان طلبہ کے تعلیمی وظیفے، پاکستانی اسپتالوں میں افغان مریضوں کے لیے خصوصی سہولتیں، پاکستانی بندرگاہوں سے گزرنے والی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر محصولات کی وصولی اور افغان معاشرے تک میڈیا رسائی وغیرہ۔اس مقصد کے لیے ماہرین کو مدعو کیا جا سکتا ہے تاکہ عملی تجاویز پیش کی جا سکیں۔
’’طویل مدت‘‘ میں، پاکستان کو سابقہ فاٹا کے علاقوں میں جو افغانستان سے ملحق ہیں ، ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے مقامی آبادی کے دل جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے۔یہی لوگ افغانستان سے آنے والی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی پہلی دفاعی صف ہیں۔
بھارت کا دورہ
سچ یہ ہے کہ افغان طالبان کا ذکر بھارت میں تلخ یادیں تازہ کر دیتا ہے۔ ان کو 1999 ء میں بھارت کے بدترین طیارہ اغوا واقعے اور 2008 ء میں کابل میں بھارتی سفارت خانے پر حملے میں ملوث سمجھا جاتا ہے، جس میں کئی بھارتی شہری بشمول دو سینئر سفارت کار ہلاک ہوئے تھے۔ انہی اور دیگر وجوہ کی بنا پر افغان طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا حالیہ دورہ دہلی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
متقی کو جو اب بھی اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں، بھارت پہنچنے کے لیے سفری استثنیٰ حاصل کرنا پڑا۔ یہ ایک ہفتے کا دورہ تھا۔ بھارت نے انہیں افغان وزیرِ خارجہ کے طور پر تسلیم کیا۔ انہیں دہلی میں افغان سفارت خانے کے احاطے میں جہاں اب بھی مغربی حمایت یافتہ سابق حکومت کے اہلکار موجود ہیں ، پریس کانفرنس کرنے کی اجازت دی۔ اور اپنے وزیرِ خارجہ ایس۔ جے شنکر کو ان کے ساتھ اسٹیج پر شریک کیا۔ بھارت جلد ہی کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔
لیکن جیسے ہی متقی نے بھارت میں اپنے دورے اور بھارتی حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد (ڈیورنڈ لائن) پر شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ متقی کے دورہ بھارت کے ساتھ اس لڑائی کا میل کھانا بھارت-افغانستان-پاکستان کے پیچیدہ جغرافیائی سیاسی تعلقات اجاگر کرتا ہے۔
بھارت کابل سے کیوں رابطہ بڑھا رہا ؟
چار سال قبل کابل پر قبضے کے بعد سے بھارت نے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم خطے میں ہونے والی ایک سلسلہ وار پیش رفت نے بھارت کی افغان طالبان طالبان پالیسی میں وہ غیر معمولی تبدیلی پیدا کر دی جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ رواں سال بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تصادم، پاکستان کے لیے چین کی فعال اور بڑھتی حمایت، روس کا اس جنگ پر سرد ردِعمل … باوجود اس کے کہ بھارت کے ساتھ اس کے تاریخی دفاعی تعلقات ہیں اور واشنگٹن کا حالیہ پاکستان سے گلے ملنا دہلی میں بے چینی اور گھٹن کا احساس پیدا کر رہا ہے۔
نئی دہلی کے پاس اب برصغیر کے ایک وسیع خطے میں جو گجرات کی سرحد پر رَن آف کَچھ سے لے کر شمال میں کشمیر، شمال مشرق میں چین اور جنوبی ایشیائی ممالک جیسے بنگلہ دیش، میانمار، نیپال اور بھوٹان تک پھیلا ہے، بہت کم دوست یا قابلِ اعتماد شراکت دار باقی بچے ہیں۔ ایسے جغرافیائی تناظر میں افغانستان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور افغان طالبان اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
تاہم افغان طالبان سے بھارت کے بڑھتے تعلقات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پس منظر میں سخت تنقید کا سامنا ہے۔ امیر خان متقی کی ابتدائی پریس کانفرنس، جس میں خواتین صحافیوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، اسی حقیقت کی ایک یاد دہانی تھی۔ اس تنقید کے باوجود نئی دہلی میں ایک بڑھتا ہوا نقطہ نظر یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کو اخلاقی اصولوں کے بجائے عملی مفادات کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
نئی دہلی مسلسل اپنے مفادات کو ترجیح دے رہا ہے۔ میانمار کی فوجی حکومت کے ساتھ تعلقات بڑھانا، یوکرین پر روس کے حملے پر کھلے عام تنقید سے گریزکرنا، ایران اور اسرائیل، دونوں سے تعلقات قائم رکھنا اور افغان طالبان کو افغانستان کی سرکاری حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے قریب پہنچ جانا … یہ سب اسی پالیسی کی مثالیں ہیں۔ دہلی کی نئی سوچ یہ ہے کہ اسے ہر اْس حکومت کے ساتھ کام کرنا چاہیے جو کسی ملک میں اقتدار میں ہو۔ امیر خان متقی کا دہلی میں خیرمقدم اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
دہلی–کابل–اسلام آباد کا توازنِ طاقت
بھارت اور افغان طالبان کے نئے روابط کو زیادہ اہم بنانے والا عنصر ’’پاکستان فیکٹر‘‘ ہے۔ اگر یہ عنصر نہ ہوتا تو دہلی شاید طالبان سے اس قدر جوش و خروش کے ساتھ تعلق نہ بڑھاتا۔ تین دارالحکومتوں… اسلام آباد، کابل، اور دہلی کے اپنے اپنے محرکات ہیں۔ اسلام آباد کو اندیشہ ہے کہ اْس کے دونوں جانب موجود دو غیر دوست ممالک (بھارت اور افغانستان) کے درمیان دفاعی و سلامتی تعاون میں اضافہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
کابل اپنے سابق سرپرست ،اسلام آباد کے ساتھ بگڑتے تعلقات کے پیشِ نظر ایک متبادل سہارا تلاش کر رہا ہے،کیونکہ پاکستان افغان طالبان پر ایک الگ مگر اتحادی گروہ (ٹی ٹی پی) کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے جو پاکستان کے اندر کئی مہلک حملے کر چکا ۔ دوسری جانب دہلی کا مقصد افغانستان کے ساتھ تاریخی روابط تازہ کرنا، وسطی ایشیا تک اقتصادی و تجارتی رسائی حاصل کرنا اور پاکستان کی مغربی سرحد پر ایک دوستانہ موجودگی قائم کرنا ہے جس کے ممکنہ تزویراتی فوائد بھی ہیں۔
ان مختلف محرکات نے تینوں کے لیے الگ الگ حکمتِ عملیاں پیدا کر دی ہیں۔ اسلام آباد کی کوشش ہے کہ دہلی اور کابل کے درمیان دراڑ برقرار رہے، یا کم از کم افغان طالبان پر اس کا اثر و رسوخ قائم رہے۔ کابل ایک ایسے بھارت کے ساتھ تعاون بڑھانا چاہتا ہے جو خود پاکستان سے کشیدہ تعلقات رکھتا ہے اور افغان طالبان کی یہ بھی خواہش ہے کہ اسے افغانستان کی باضابطہ حکومت کے طور پر عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ دہلی کا مقصد افغانستان میں موجود کسی بھی حکومت سے تعلق رکھ کر پاکستان کے اثر کو متوازن کرنا ہے۔
مختصراً دہلی اور کابل کی سوچ یہ ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، جبکہ اسلام آباد اس بات کو اپنے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے کہ اس کے دونوں اطراف موجود ممالک کے درمیان کوئی تزویراتی (اسٹریٹیجک) شراکت داری قائم ہو جائے۔
بڑھتی خلیج
ان پیچیدہ تین طرفہ تعلقات کے پیش نظر دہلی غالباً افغان طالبان حکومت کے ساتھ اپنے روابط کو مزید مضبوط کرے گا۔ نیز افغان طالبان کی پاکستان کے اثر سے زیادہ خودمختاری حاصل کرنے کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔ اس کے برعکس، اگرچہ پاکستان نے ماضی میں افغان طالبان کی بڑی مدد کی تھی اور اسی کے نتیجے میں وہ دوبارہ کابل میں اقتدار میں آئے، لیکن ایک ایسا افغانستان جو بھارت سے روابط قائم کر لے، پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ ایسا منظرنامہ اسلام آباد کے افغان امور پر اثر و رسوخ، بشمول 1600 میل طویل بین الاقوامی سرحد کو جسے وہ دوبارہ کھول دینے کرنے کی امید رکھتا ہے، کمزور کر سکتا ہے۔ حالیہ جھڑپوں کے بعد اتوار کے روز افغانستان اور پاکستان کے درمیان تمام سرحدی گزرگاہیں بند کر دی گئی تھیں۔
اس لحاظ سے امیر خان متقی کی میزبانی کر کے دہلی نے ممکنہ طور پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتی خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے ، وہی خلیج جو حالیہ سرحدی جھڑپوں کے دوران واضح طور پر نظر آئی۔ اسلام آباد اب اس بات کو ایک حقیقی امکان کے طور پر دیکھنے لگا ہے کہ طالبان کے ساتھ دہلی کی بڑھتی قربت پاکستان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے، چاہے دہلی کے اصل ارادے کچھ بھی ہوں۔
تاہم بھارتی عوام میں دہلی اور افغان طالبان کے بڑھتے تعلقات پر تشویش اور حیرت پائی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود دہلی غالباً اپنی پالیسی جاری رکھے گا یعنی عوامی خدشات اور خطے میں پاکستان کا اثر کم کرتے ہوئے نئے علاقائی اتحاد قائم کرنے کی خواہش کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش جاری رہ سکتی ہے۔