زباں فہمی266 ؛ پھروہی رام اللہ، حَماس ، غَزّہ اور فِلَسطین

0 minutes, 22 seconds Read
ہمارے معاشرے کے خواندہ، نیم خواندہ اور ناخواندہ طبقات میں بعض مسائل کے اپنی جگہ اَٹل ہونے پر گویا قدرتی طور پر اِتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی لفظ یا نام غلط مشہور ہوگیا تو آپ لاکھ تصحیح کریں، وہ غلط ہی لکھا، پڑھا اور بولا۔ یا ۔پُکارا جائے گا ، حتیٰ کہ کچھ ’علامہ‘ یہ کہیں گے کہ بھئی جب سبھی کہہ رہے ہیں تو اِسے ’رِواجِ عام‘ یا ’قبولِ عام‘ کا درجہ مل گیا ہے، لہٰذا آپ تصحیح سے اجتناب کریں اور چلنے دیں، جیسا چل رہا ہے;کون مانے گا ۔یا۔کونسا فرق پڑے گا؟

 اس رَوِش سے بھی خاکسار کے اس مٔوقف کی تائید ہوتی ہے کہ ہم ایک نیم خواندہ (یا ناخواندہ) معاشرے میں بستے ہیں جہاں علم اُٹھ گیا، تعلیم عام ہوگئی۔ ایسے بے شمار الفاظ، اسمائے معرفہ ونکرہ میں عربی ناموں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لوگ فقط اندازے، اٹکل پِچّو اور قیاس یا شُنِید سے ہر بات نقل کرنے کی سعی نامشکور کرتے ہیں۔

انہی اسمائے معرفہ میں رام اللّہ بھی شامل ہے جسے لوگوں نے زبردستی رَملہ بنا دیا، حالانکہ رَملہ، رام اللہ سے جُدا ایک دوسرا شہر ہے۔ یار سمجھے کہ اس نام میں ’رام ‘ وہی ہندومت کی مذہبی شخصیت رام چندر جی ہیں اور اُن کے نام کے ساتھ، اسم اللّہ نہیں آنا چاہیے، اس لیے وہ ’’رام اللّہ ‘‘ کو رَملہ لکھ دیتے ہیں اور پڑھ بھی دیتے ہیں جبکہ ذرایع ابلاغ پر بیٹھے ہوئے ننانوے فیصد ’باخبر لوگ‘ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ راقم نے سلسلہ زباں فہمی، سلسلہ سخن شناسی، سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر شذرات اور متفرق مضامین میں ایسے تمام اسماء خصوصاً اسمائے معرفہ کی صحت کے متعلق بارہا لکھا ہے اور جہاں جہاں ممکن ہوا اپنی تقریرمیں بھی یہی تصحیحات دُہراتا رہا ہوں، مگر افسوس! اس قوم کے پاس خُرافات میں وقت کا بڑا حصہ ضایع کرنے کے بعد بچتا ہی کہاں ہے کہ اس باب میں کچھ جستجو کریں۔

پہلے تو ناواقفین یہ جان لیں کہ رَملہ یعنی عربی میں الّرَملہ، بیت المقدس سے تقریباً 38 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع، مقبوضہ فِلَسطِین کا ایک تاریخی شہر ہے جسے  634 ء میں عظیم فاتح حضرت خالد بن ولید رضی اللّہ عنہ نے فتح کیا، پھر 715ء میں رملہ کے نئے شہر کی بنیاد اُموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے رکھی اور اسے دارالخلافہ بنایا تو اِس کی ہمہ جہت ترقی کا باب روشن ہوا۔

اسے ریتِلی زمین کی نسبت سے یہ نام ملا کیونکہ عربی میں رَملہ سے مُراد ہے، ریت کا ذرّہ اور ریتِلی زمین۔ ویسے اس نام کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہوا کہ یہ اُمّ المؤمنین سیّدہ اُمّ حبیبہ رضی اللّہ عنہا کا اصل نام اور چند دیگر صحابیات کا نام تھا۔ اُموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے۔ اُموی خلافت کے سقوط کے بعد رملہ، عباسی خلافت کا حصہ بنا، مابعد یہاں تُرک نژاد طولونی ( Tulunids ) ، قرمطی (یعنی اسلام دشمن فرقے قرامطہ سے تعلق رکھنے والے) اور فاطمی برسراقتدار آئے۔ اس شہر کے تاریخی مقامات و آثار میں نبی حضرت صالح علیہ السلام کا مزار، صحابی ابن صحابی حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ ‘ کا مزار، خلیفہ سلیمان کے محل کے آثار (جنگ عظیم اوّل تک برقرار)، جامع کبیر، عنزیہ تالاب، جامع سفید اور بعض دیگر مقامات شامل ہیں۔

شہر رملہ ایک طویل مدت تک اسلامی اقتدار کے بعد، صلیبی جنگوں کے نتیجے میں 1099ء میں عیسائیوں کے قبضے میں چلاگیا، پھر 1102ء میں مسلمان دوبارہ قابض ہوئے، کچھ عرصے کے بعد صلیبی مسیحیوں نے ایک مرتبہ پھر قبضہ کیا۔ 1187ء کی جنگِ حطین کے بعد، سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں رملہ، مسلم سلطنت کا حصہ بنا تو 1204ء میں صلیبی مسیحیوں نے تیسری مرتبہ چڑھائی کرتے ہوئے اپنا سکّہ جمالیا۔ آخرش 1261ء میں ایک مسلمان حکمراں، المَلِک الظّاہر رُکن الدین بِیبرَس (اوّل) نے رَملہ پر حملہ کرکے عیسائی تسلط کا خاتمہ کیا۔ یہ مصر کے مشہور مملُوک (غلام) خاندان کا چوتھا بادشاہ تھا جسے اُس کی شجاعت، معاملہ فہمی، پابندی شریعت اور حُسنِ انتظام کے سبب، شہرت ملی۔

1547ء میں اس شہر پر تُرک عثمانی سلطان، سلیمان ’عالی شان‘ کا قبضہ ہوگیا اور پھر 2 مارچ1799ء کو فرینچ جرنیل نپولین بوناپارٹ نے کچھ عرصے کے لیے اس پر تسلط قائم کیا۔ جب جنگ عظیم اوّل میں عثمانی شکست سے دوچار ہوئے اور عثمانی سلطنت کو زوال ہو ا تو یہ شہر بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتا رہا، اسے برطانیہ کے انتداب کے ماتحت کردیا گیا۔ جب 1948ء میں وہ بُری گھڑی آئی کہ اسرائیل جیسی غاصب ریاست کا قیام عمل میں آیا تو اِسے اسرائیل میں شامل کرلیا گیا اور اس کے اکثر باشندوں کو شہر سے نکال دیا گیا۔ یہ شہر زمانہ امن میں ایک بڑے تجارتی مرکز اور زمانہ جنگ میں تزویراتی اہمیت کی حامل گزرگاہ کے طور پر مشہور ہے جو ساحلی علاقے، یافا (انگریزی میںJaffa) کو پہاڑی علاقے، بیت المقدس سے ملانے کے کام آتی ہے، نیز ساحلی میدان کے شمال اور جنوب کے درمیان اسی سے رابطہ ممکن ہے۔

اب بات کرتے ہیں رام اللّہ کی جو فلسطین کے مغربی کنارے (West Bank, Palestine)کے مرکز میں واقع ہے اور بہ یک وقت صوبہ (Governorate) رام اللّہ اور البِیرِہ کا صدرمقام اور ریاست فلسطین کا انتظامی اعتبار سے دارالحکومت ہے۔ رام اللّہ میں متعدد ممالک کے سفارت خانے یا کونسلیٹ موجود ہیں۔ یروشلم سے دس کلومیٹر دُور ایک پہاڑی جبلِ یہودا عُرف جبال الخلیل یا کوہِ ہیبرون (Judaean Mountains, or Judaean Hills : Harei Yehuda or the Hebron Hills ) پر واقع یہ شہر، روایت کے مطابق قدیم عرب عیسائیوں نے آباد کیا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بائبل میں مذکور ، سلطنت یہودا (Kingdom of Judah: 930–586 BCE) کے عہد میں بنی اسرائیل کے قبیلے بنو یہودا کوبسنے کے لیے دیا گیا تھا۔ شہر کی اہم عمارتوں میں مسجد جمال عبدالناصر اور مختلف عیسائی فرقوں کے گرجا شامل ہیں۔ یہ شہر دنیا کے دس مختلف ممالک کے شہروں کا جُڑواں شہر بھی قراردیا جاچکا ہے جن کے نام انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔

اس کے بعد دیگر اَسمائے معرفہ کی بابت نئے سرے سے کچھ لکھنے کی بجائے اپنے پُرانے مضمون یعنی ’’زباں فہمی نمبر200: صَہْیوُن، غَزّہ، حَماس اور فِلَسطین‘‘ سے اقتباسات نقل کرنا کافی سمجھتا ہوں:

’’زباں فہمی نمبر200: صَہْیوُن، غَزّہ، حَماس اور فِلَسطین‘‘۔ تحریر: سہیل احمدصدیقی مشمولہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، (آنلائن) مؤرخہ07 جنوری  2024: گزشتہ چند ماہ سے مندرجہ بالا نام ہماری سماعت سے مسلسل، تقریباً چوبیس گھنٹے ٹکرا رہے ہیں اور آفرین ہے ہمارے ذرایع ابلاغ (بشمول اخبارات، رسائل وٹیلیوژن، ریڈیو) پر کہ ہم ایسے ’’مفت ‘‘ اصلاح کرنے والوں کی سعی پیہم کے باوجود، متواتر غلط (صیہون، غَزہ، حَمّاس اور فَلسطین) ہی بول اور لکھ رہے ہیں۔

وہ اپنی ڈگر پر قائم ہیں اور غلط دَرغلط ہی بول رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، کیوں؟ کیونکہ اُنھیں غلط بولنے اور لکھنے کے پیسے ملتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کو کوئی غیرقانونی، ناجائز اور غلط کام کرنے کا معاوضہ دیا گیا ہو اور وہ کسی مُصلح ۔ یا۔ مُصلحیِن کی لاکھ کوشش کے باوجود، صحیح یا نیک کام کرنے پر محض اس لیے آمادہ نہ ہوکہ بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟

صحیح لفظ صَہیون ہے نہ کہ صیہون۔ اور یہ انگریزی Zion۔یا ۔ عبرانی کے سیّون [Siyyon]۔یا ۔ سی اون [Sion] کا عربی مترادف ہے۔ یہ نام مختلف معانی میں مستعمل رہا ہے اور زیادہ مشہور یہ ہے کہ صَہْیوُن، بیت المقدس یا یروشلم کا دوسرا نام ہے۔ اسی نسبت سے اس شہر کے قریب واقع ایک پہاڑ کا نام بھی جبل ِ صَہْیوُن [Mount Zion] ہے۔

عمومی معنیٰ میں پوری سرزمین اسرائیل (یعنی اصل میں فلسطین) کے لیے بھی مستعمل رہا۔ اس سرزمین کا قدیم نام سرزمین ِ کنعان [Land of Canaanites] تھا جہاں آج شام، لُبنان (یہ لَبنان نہیں)، اُردَن (اُردُن نہیں) اور فلسطین آباد ہیں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی معلومہ تاریخ کے مطابق، اولین (یا یکے از اولین) قانون ساز، حمورَبی [HAMMURABI] (دورِ حکومت:1792 ق م تا1750 ق م) نے اپنی سلطنت میں توسیع کرتے ہوئے اس سرزمین پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ وہ دَرحقیقت، عراق کے قدیم شہر بابِل [Babylon] کا بادشاہ تھا جو بعض روایات کی رُو سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معاصر تھا اور بعض کے قیاس کے مطابق شاید وہی نمرود تھا۔ اُس کے قوانین سے بنی اسرائیل نے بھی بہت اکتساب کیا اور اِن کا ترجمہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ہوا۔

اردو کے نامور اَدیب، مالک رام نے مولوی عبدالحق کے ایماء پر ترجمے کے ساتھ ساتھ ان قوانین کا جائزہ لیتے ہوئے کتاب تحریر کی: ’’حمورَبی اور بابِلی تہذیب وتمدن‘‘۔ اس کتاب کا بھرپور تعارف ہمارے بزرگ معاصر ڈاکٹر اَحمد سہیل (مقیم امریکا) نے 22 نومبر 2018ء کو فیس بک پر پیش کیا تھا۔ حمورَبی کے قانون نامے اور عہدنامہ قدیم کے قوانین کا تقابلی جائزہ کے عنوان سے ایک مضمون یا مختصر مقالہ، جامعہ ہری پور، خیبرپختون خوا کے چند طلبہ نے تحریر کرکے اَپلوڈ کیا ہے جو https://irjrs.com پر موجود ہے۔

(یہاں ایک وَضاحت: ہمارے یہاں اکثر لوگ بشمول اہل قلم بابِل[Babil] کو بابُل [Babul] یعنی باپ بولتے ہیں، حالانکہ یہ بالکل الگ لفظ ہے۔ ایک بزرگ شاعرہ نے جب علامہ اقبال سے متعلق ایک سیمینار میں مقالہ پڑھتے ہوئے ایک سے زائد بار، بابُل کہا تو خاکسار کو ہنسی ضبط کرنا محال ہوگیا۔ میرے برابر، بزرگ معاصر حمایت علی شاعر ؔ مرحوم تشریف فرما تھے۔ میں نے انھیں بھی متوجہ کیا ، وہ مسکرا دیے)۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں تو اُردومیں دائرۃ المعارف (Encyclopaedia) کی سطح پر بھی بجائے صَہْیوُن کے صیہون لکھا ہوا ملتا ہے۔ اردو جامع انسائیکلوپیڈیا اور شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا میں ایسا ہی ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے پیش رَو پیغمبر، حضرت سموئیل یا اشموعیل علیہ السلام سے منسوب صحیفے میں اس شہر کا ذکر یوں آیا ہے:’’تو بھی داؔؤد نے صِیوّؔن کا قلعہ لے لیا۔ وُہی داؔؤد کا شہر ہے‘‘۔

[Nevertheless David took the stronghold of Zion, which is now the city of David(2 Samuel 5:7):

https://bible.oremus.org/?passage=2% 20Samuel5:7&version=nrsv]

{ان مقدس نبی کا نام درحقیقت، عربی نام اسمٰعیل کا عبرانی رُوپ ہے: س ا ص)۔ حضرت اشموعیل سے بھی پہلے، حضرت یوشع علیہ السلام [Joshua] کے صحیفے میں مذکور، یَبوسی یا یِبوسی قبیلے کے قلعے کا نام صہیون ہی اس لفظ کا ماخذ ہے جس کے معانی اس کے مادّہ اشتقاق کی بحث کے بعد، قلعہ یا خشک زمین /صحرا بتائے گئے ہیں۔ اسی صہیون سے نسبت دیتے ہوئے یہودی انتہاپسند تحریک صہیونیت [Zionism] کا آغاز کیا گیا۔ یہ اصطلاح آسٹریا کے یہودی صحافی و ادیب ناثن برن بَوم (Nathan Birnbaum) نے1890ء میں وضع کی۔1897ء میں اسے باقاعدہ یہودی وطن پرست، قوم پرست تحریک کی شکل دی گئی۔

بظاہر یہ تحریک یہودیوں کی سرزمینِِ موعود ’’اسرائیل‘‘ کے قیام کے لیے (یعنی جس کے لیے اُن سے خُدا نے وعدہ کیا تھا) شروع کی گئی تھی، مگر درپردہ اس کا مقصد پوری دنیا کے تمام نظام ہائے معیشت ومعاشرت پر قبضہ کرنا تھا۔ تحریک کی ابتداء میں مغربی استعمار نے مسلمانوں کی وحدت کی آخری نشانی خلافت ِ عثمانیہ کو سازش کے ذریعے یوں ختم کیا کہ ایک طرف عربوں کو تُرکوں کے خلاف، اُکساتے ہوئے، لارنس آف عربیہ جیسے جاسوس کی مدد سے عرب قومیت کی تحریک شروع کی اور اِنھیں ہتھیار اور سرپرستی فراہم کرکے الگ عرب وطن کا خوا ب دکھایا، تو دوسری طرف ترکی میں خلافت کے خلاف چلنے والی خفیہ صہیونی تحریک اور اس کے اثرات سے جنم لینے والی تُرک قومیت کی تحریک کو بڑھاوا دیا جو بظاہر جدید نظام جمہوریت کی تشکیل کے لیے شروع ہوئی تھی۔ سامراج نے عظیم عثمانی سلطنت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے ہوئے کئی ممالک قائم کردیے اور ’’سرزمینِ انبیاء‘‘ فِلَسطین پر یہودیوں کو بڑے پیمانے پر لاکر آباد کرنے کے بعد، اسرائیل کی غیرقانونی ریاست قائم کردی}۔

زیرنظر موضوع کا دوسرا اہم نام ہے، غَزّہ جسے سہواً۔ یا ۔ انگریزی Gaza پر محمول کرتے ہوئے بلاتشدید غَزہ یا غازہ کہا جارہا ہے (ویسے برگر لوگ گازا بھی کہہ دیتے ہیں)۔ غازہ عربی میں Face powderکو کہتے ہیں۔ اس علاقے کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں آبادکاری کوئی چار ہزارسال قبل شروع ہوئی تھی۔ یہ شہر حضر ت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) کے عہد میں خلافت ِاسلامیہ کا حصہ بنا۔ یہاں ہمارے پیارے رسول (ﷺ) کے پردادا جناب ہاشم کی قبر ہے اور فقہ کے چار اَئمہ میں شامل امام شافعی رحمۃ اللّہ علیہ بھی یہاں پیدا ہوئے تھے۔

اس شہر نے تاریخ کے زرّیں اَدوار دیکھے اور ہوتے ہوتے یہ حَماس کا مرکز بن گیا۔ ہمارے ٹی وی چینلز بڑے شدّومدّ سے حماس کو ’’حم۔ماس‘‘ مع تشدید کہہ رہے ہیں جو غلط ہے۔ یہ نام ’’حرکۃ المقاومۃ الاسلامی‘‘ کا مخفف ہے۔ سب سے آخر میں یہ بات بھی بتانی ضروری ہے کہ فِلَسطین کو فَلَسطین کہنا رائج ومروج کے اصول کے تحت، درست مان لیا گیا ہے، مگر درست تلفظ وہی ہے جو ابتداء میں بیا ن کیاگیا۔

مکمل مضمون اس ربط پر دستیاب ہے:

https://www.express.pk/story/2587627/ zban-fhmy-nmbr200shywn-ghzh-hmas-awr -flstyn-2587627

Similar Posts