محنت کی عظمت

اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو بہترین جسمانی قوتوں اور ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ اشرف المخلوقات بنا کر زمین پر خلافت کی نعمت بخشی پھر بنی نوع انسان کے لیے کائنات کو مسخر کر دیا۔

اس کی روزی کے لیے زمین پر انواع و اقسام کی غذائی اجناس پیدا کیں۔ زمین سے غلے اور میوے اگائے پھر نشو و نما کے لیے آسمان سے بارش کا انتظام فرمایا۔ پیداوار کو حرارت اور روشنی بخشنے کے لیے سورج پیدا کیا۔ پھر انسانوں کو حکم دیا کہ حلال رزق کی تلاش میں نکلو اور اﷲ کا فضل تلاش کرو۔ اکلِ حلال اسلامی ضابطۂ حیات کی بنیاد ہے اور اس ضمن میں باقاعدہ اصول و ضوابط مرتب کیے تاکہ معاشرے کو امن و آشتی کا گوارہ بنایا جاسکے۔

اﷲ تبارک و تعالیٰ نے فطری قانون اور خداداد صلاحیت کے مطابق کسی کو مالک تو کسی کو مملوک، کسی کو خادم تو کسی کو مخدوم اور کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم قرار دیا۔ اسی بناء پر باہمی حقوق و فرائض متعین کیے پھر یہ بھی بتا دیا کہ روز قیامت ہر ایک سے اس کے حقوق و فرائض کی بابت پوچھ گچھ ہوگی۔

سرورِ کونین حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے:

’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘

لہٰذا مسلمان ہونے کے ناتے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی ذمے داریوں کو دیانت اور محنت سے ادا کریں یہ دنیا دارالمحنت ہے۔ ’’محنتی اﷲ کا دوست ہے۔‘‘ کون ہے جو اﷲ کا پسندیدہ بننا پسند نہ کرے گا۔ اسی لیے حلال رزق کما کر اپنے آپ کو خود کفیل کرنا عبادت ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ رزق حلال کمانے اور اﷲ کے فضل کو تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سورۃ جمعہ میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم پیش خدمت ہے:

’’جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو زمین میں پھیل جاؤ، اور اﷲ کے فضل کو تلاش کرو۔‘‘

رحمۃ اللعالمین ﷺ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ رزق حلال کمانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

جو لوگ رزقِ حلال کی تلاش میں نکلتے ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ تمام انبیا کرامؑ، صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ نے حصول رزق کے لیے مختلف پیشوں کو اپنایا، مختلف انبیا کرامؑ کے پیشے درج ذیل تھے:

حضرت آدم علیہ السلام بیل جوتتے، حضرت نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے، حضرت ادریسؑ درزی کا کام کرتے، حضرت صالحؑ تجارت کرتے، حضرت داؤدؑ لوہے کی زرہ بناتے تھے، حضرت ابراہیمؑ کھیتی باڑی کرتے، حضرت شعیبؑ و حضرت موسیٰؑ بکریوں کی نگہبانی کرتے، حضرت سلیمانؑ بادشاہ تھے۔ نبی آخر الزماں سرورِ کونین ﷺ مقام اجیاد پر بکریوں کی نگہبانی اور تجارت بھی کرتے تھے۔

صحابہ کرام رضوان اﷲ بھی محنت سے کمانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، چند ایک مثالیں پیش خدمت ہیں:

حضرت حبابؓ بن ارت لوہار تھے، حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ چرواہے کا کام کرتے، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تیر ساز تھے، حضرت زبیر بن عوامؓ درزی تھے، حضرت سلمان فارسیؓ حجام تھے۔

ازواج مطہراتؓ اور صحابیاتؓ بھی محنت کرنے سے نہیں گھبراتی تھیں، وہ گھروں میں اُون کاتتی تھیں، حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ جانوروں کی خدمت کرتیں اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لاتیں۔ کچھ صحابیاتؓ کھانا پکا کر فروخت کرتیں جب کہ کچھ صحابیاتؓ دایہ کا کام کرتیں اور کچھ جانوروں کا دودھ نکال کر فروخت کرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے، حضرت زینب بنت جحشؓ کے بارے میں فرمایا کہ اپنی محنت سے کماتی اور اﷲ کی راہ میں صدقہ کرتی تھیں۔

مندرجہ بالا مثالیں واضح کرتی ہیں کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو جائز طریقے سے خواہ وہ مرد ہو یا عورت کمانے کی ترغیب دیتا ہے بل کہ عزت و احترام بھی دیتا ہے۔ حلال رزق کمانے اور اس کی تلاش میں نکلنے کو عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔

ایک موقع پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں جو آدمی اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتا ہے۔‘‘

ایک صحابیؓ نے آپ ﷺ سے سوال کیا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا:

’’اپنی محنت کی کمائی کا کھانا۔‘‘

حضور اقدس ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے ہمیں مزدور کی عزت و احترام کی لاتعداد مثالیں ملتی ہیں۔ ایک خطبے کے دوران آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسے کام نہیں کرتے جس کو میں خود کرتا ہوں، اﷲ کی قسم! میں تم میں سے زیادہ خوفِ خدا رکھتا ہوں۔ سرورِ کونین، فخر موجودات ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو آخری خطبہ دیا اس میں آپ ﷺ نے غلاموں کے حقوق کے بارے میں فرمایا کہ اپنے غلاموں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو، ان سے بہتر سلوک کرو، جو خود کھاؤ انھیں کھلا، جو خود پہنو انھیں پہناؤ، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرو۔

ہمیں بھی چاہیے کہ مزدوروں، محنت کشوں اور اپنے ملازمین کے حقوق کا خاص خیال کریں، ان کے کام کا وقت متعین کریں اور ان سے کوئی ایسا کام نہ لیں جو ان کی بساط اور طاقت سے زیادہ ہو، یا جس سے ان کی صحت متاثر ہو۔ ماہ رمضان میں ان کے اوقات کار میں کمی کی جائے۔ درج ذیل حدیث مبارکہ سے مزدور کی عزت و احترام اور اچھے سلوک کا اندازہ ہوتا ہے۔

مفہوم: ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔‘‘

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو محنت کرنے اور حلال رزق کی تلاش کی سعادت نصیب فرمائے، قرآن مجید میں غیرت مند مسلمانوں کی تعریف میں کہا گیا ہے، مفہوم: ’’وہ شرم و آبرو کی وجہ سے لوگوں کے سامنے سوال کا ہاتھ نہیں بڑھاتے۔‘‘

سوال کرنا عزت ضایع کرتا ہے، خودی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اپنی ضرورت کو خود پورا کرنا ایسا جذبہ ہے جو انسان کو محنت کرنے پر آمادہ کرتا ہے، کوشش کی راہ کھولتا ہے۔ اﷲ نے انسان کو معزز پیدا کیا ہے لیکن دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے اس کی ساری عزت برباد ہو جاتی ہے۔ جو انسان خود اپنے آپ کو ذلیل کرتا ہے پھر اﷲ تعالیٰ بھی اس پر ذلت مسلط کر دیتا ہے اور اس کے لیے تنگی و افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے جیسا کہ رحمۃ اللعالمین ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

’’جس شخص نے اپنی ذات کے لیے ایک مرتبہ سوال کا دروازہ کھولا، اﷲ اس کے لیے فقر و احتیاج کا دروازہ کھول دیتا ہے۔‘‘

ایک مرتبہ ایک انصاری صحابیؓ نے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اپنی تنگ دستی کا سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا؛ تمہارے پاس کچھ ہے؟ اس نے عرض کیا: صرف ایک کمبل اور ایک پیالا ہے۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا: اس کو کون خریدے گا۔ ایک صحابیؓ نے ایک درہم اس کی قیمت لگائی تو آپؐ نے فرمایا کوئی اس سے زیادہ قیمت دے سکتا ہے؟ تو ایک صحابیؓ نے اس کی دو درہم قیمت لگائی۔

آپ ﷺ نے یہ اشیاء صحابی کے حوالے کیں اور دو درہم صحابی کو دے کر فرمایا: ایک درہم کی کلہاڑی خرید لو اور ایک درہم کا غلہ اور گھر کے لیے سامان لے آؤ۔ صحابیؓ نے حضورؐ کے حکم کی تعمیل کی، حضورؐ نے اپنے دست مبارک سے کلہاڑی میں دستہ لگایا اور فرمایا: جاؤ لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچو اور پندرہ دن بعد میرے پاس آنا۔ جب وہ صحابیؓ پندرہ دن بعد حاضر ہوئے تو آپؐ نے خیریت دریافت فرمائی۔ صحابیؓ نے جواب دیا، میں نے دس درہم کما لیے، جن میں سے چند درہم کے کپڑے اور چند درہم کا غلہ خریدا۔ اس موقع پر آپؐ نے فرمایا کیا بھیک مانگ کر قیامت کے دن ذلت اٹھانے سے یہ بہتر نہیں ہے؟

اﷲ تعالیٰ ہمارے ملک میں بھی لوگوں کو گداگری کی لعنت کو ختم کرنے کی توفیق دے۔ محنت میں عظمت کا شعور اجاگر کر دے۔ حلال رزق کی تلاش کے لیے محنت کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کریں۔ رزق حلال کا سب سے بڑا ثمر آخرت میں ملے گا کہ وہ انبیاء، صدیقین اور شہداء کے گروہ میں اٹھایا جائے گا اور پھر ایسے لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ اپنی رحمت کے خزانے کھول دیتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں محنت کرنے اور وقت کی قدر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

Similar Posts