سوال یہ ہے کہ اس نیک اور پاک تمنا کو حاصل کرنے کے لیے کون سی چیز ضروری ہے اور وہ کون سا عنصر ہے جس کے فقدان کی وجہ سے یہ مطلوبہ ماحول پیدا نہیں ہو رہا۔ جس کی تمنا میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کئی اہم عنصر کی نشان دہی کی جا سکتی ہے لیکن ان تمام عوامل کا تجزیہ کیا جائے تو بنیادی عنصر ’’دیانت‘‘ ہی ثابت ہوگا۔ ہمیں باور کرنا چاہیے اور یقین کہ یہ فرشتوں کا ماحول انسانی بستی میں اس وقت قائم ہو سکتا ہے کہ جب دیانت کی مال داری ہو اور معاشرے کا ہر فرد دیانت کے وصف کی سختی سے پابندی کرتا ہو۔ آپس کے لین دین کے معاملات میں دیانت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر خاص و عام معاملات میں دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی اتنا ہی اہتمام کرے جتنا وہ اپنے حقوق کے حاصل کرنے کی تمنا یا جدوجہد کرتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر تمام انسان دوسروں کے حقوق پورے اہتمام کے ساتھ ادا کریں، یعنی جس کا جس کسی پر جتنا حق پہنچتا ہو اسے پوری امانت اور پوری دیانت کے ساتھ رتی رتی ادا کر دیں تو ہم اسے دیانت کہتے ہیں۔
عربی زبان میں اسی معنی میں امانت کا لفظ بھی ادا ہوتا ہے۔ انسان کے تعلقات دو گونہ ہیں۔ ایک اپنے خالق کے ساتھ اور دوسرے ابنائے جنس کے ساتھ۔ اس میں شک نہیں کہ تیسرے نمبر پر کائنات کی تمام دوسری مخلوقات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اسلام چوں کہ کامل اور ابد تک کے لیے ایک ناقابل تبدیل ضابطۂ حیات ہے، اس لیے اسلام میں ہر وہ چیز اور ہر وہ عنوان موجود کہ جو قابل غور و فکر ہو سکتا ہے اور جس کا تصور کیا جاسکتا ہے مگر جہاں تک دیانت کے وصف اور اس کے اثرات کا تعلق ہے اس کا زیادہ اہتمام خالق ارض و سماء اور ابنائے جنس کے ساتھ تعلقات ہی پر میں سے ہیں۔
اسلام چوں کہ کامل اور مکمل اور ابد تک کے لیے ایک ناقابل تبدیل ضابطۂ حیات ہے اس لیے اسلام میں ہر وہ چیز اور ہر وہ عنوان موجود ہے جو قابل غور و فکر ہو سکتا ہے اور جس کا تصور کیا جا سکتا ہے، مگر جہاں تک دیانت کے وصف اور اس کے اثرات کا تعلق ہے اس کا زیادہ اہتمام خالق ارض و سماء اور ابنائے جنس کے ساتھ تعلقات ہی پر مبنی ہے۔ اﷲ تعالی کے ساتھ دیانت کا مطلب یہ ہے کہ پورے اخلاص اور جاں فشانی کے ساتھ اس کی شریعت پر چلنے اور اسے نافذ کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ جو اس کے سپرد کی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے کہ ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے آگے رکھا تو ان میں سے کوئی اس کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہ ہُوا اور یہ سب اس سے ڈرے، مگر انسان نے یہ بلاتامل یہ بوجھ اٹھا لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری دیانت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اس پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔
رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ جو لوگ بھی نیک اوصاف کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں انھیں سوائے رسول اﷲ ﷺ کے کوئی دوسرا نمونہ اس دنیا میں نظر نہیں آسکتا۔ اس کے علاوہ اگر کچھ ہے تو وہ نامکمل ہے اور نا قابل اعتبار۔ صرف رسول کریم ﷺ کے اخلاق کا ہر وصف مکمل، مفصل اور حد سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔ آں حضرت ﷺ کے بنیادی اوصاف میں دیانت کا وصف ابتداء ہی سے نمایاں رہا۔ چناں چہ جب آپ ﷺ منصب نبوت پر فائز ہوئے تو آپ ﷺ نے بار بار اس وصف کا حوالہ دے کر مخاطبین کو مطمین کرنے کی کوشش کی۔ اکثر پیغمبروںؑ کی صفت میں بھی یہ لفظ قرآن میں آیا ہے کہ انھوں نے اپنی امت سے یہ کہا کہ میں تمہارے لیے امانت دار قاصد ہوں۔ آں حضرت ﷺ میں یہ وصف اس حد تک نمایاں تھا کہ نبوت سے پہلے بھی مکہ والے آپ ﷺ کو امین یعنی دیانت دار بھی کہتے تھے۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص سے کچھ کھجور میں قرض لیں۔ چند روز بعد وہ مخص تقاضے کو آیا۔ آپ ﷺ نے ایک انصاری صحابیؓ کو حکم دیا کہ وہ اس کا قرض ادا کر دیں۔
انھوں نے تعمیل حکم کی لیکن کچھ کھجور ویسی عمدہ نہ تھیں جیسی اس نے دی تھیں۔ اس شخص نے لینے سے انکار کر دیا۔ انصاریؓ نے کہا کہ تم رسول اﷲ ﷺ کی عطا کردہ کھجور میں لینے سے انکار کرتے ہو! وہ بولا: ہاں! رسول اﷲ ﷺ عدل نہ کریں گے تو اور کون کرے گا۔ حضور ﷺ نے یہ مکالمہ سنا تو آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ یعنی رسول کریم ﷺ بلاشبہ عادل، صادق اور دیانت دار تھے اور لوگ اس کی مثال دیا کرتے تھے۔ اپنے خالق و مالک اور اپنے رب کے ساتھ دیانت داری کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کی شریعت پر عمل کریں اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح اپنے ابنائے جنس یعنی دوسرے انسانوں کے ساتھ دیانت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جو حقوق ہم پر عاید ہوتے ہیں انھیں بے کم و کاست پورے کرنے کی کوشش کر ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
’’اﷲ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت داروں تک ان کی امانتیں پہنچا دیا کرو۔‘‘ ( النساء)
ہم پر سب سے بڑا فرض ماں باپ کی خدمت ہے۔ ہر انسان پر واجب ہے کہ وہ ان کے حقوق کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے۔ یہی دیانت کا تقاضا ہے۔ اسی طرح رشتے داروں کے حقوق ہیں۔ مسلمانوں کے حقوق ہیں۔ عام انسانوں کے حقوق ہیں۔ اچھے اور دیانت دار انسان اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ تمام حقوق پوری امانت داری کے ساتھ ادا کریں۔ کسی نے کوئی چیز امانت رکھوائی ہے تو اسے اسی طرح واپس کیا جائے۔ ماتحتوں کے جو حقوق ہیں انھیں پورا پورا ادا کیا جائے۔ ملازمت کی شرائط کے مطابق اپنا فرض ادا کیا جائے۔ تجارت میں خرید و فروخت کے جو اسلامی آداب ہیں انہیں ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اگر قوم کسی کو اپنا قائد چنے تو اسے چاہیے کہ وہ حضرات خلفائے راشدینؓ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔ یہ تمام باتیں دیانت کے تقاضوں میں شامل ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو انسانی معاشرے میں جو بھی افراتفری نظر آتی ہے وہ صرف اس لیے ہے کہ معاشرے کے وہ افراد جن کے کردار کا بہ راہ راست اثر عوام پر پڑتا ہے وہ دیانت کے اصول پر پوری طرح کاربند نہیں ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ دیانت کو اپنائیں اور معاملات میں اسے سنگ بنیاد بنا لیں۔ اگر ایسا ہُوا تو معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا اور مملکت خدا داد پاکستان جنّت بن جائے گی۔