’’میں سچ لکھتا ہوں، اور سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔‘‘”ادب فحش نہیں ہوتا، فحش وہ نظر ہے جو گندگی تلاش کرتی ہے۔‘‘
’’مجھے فحش نگار کہا گیا، حالاںکہ میں وہ لکھتا ہوں جو معاشرہ کرتا ہے۔‘‘
’’میرے کردار گناہ گار نہیں، بلکہ معاشرے کے گناہوں کے عکس ہیں۔‘‘
’’میں نے آج تک کوئی کہانی اپنی مرضی سے نہیں لکھی، حالات نے لکھوائی ہے۔‘‘
میانی صاحب کے قریب ہی رنجیت سنگھ کی دوسری بیوی گل بیگم کا مقبرہ بھی ہے۔
کسی راجا یا مہاراجا کا ایک عام لڑکی یا کسی بھی طوائف پر دل آ جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ ہماری تاریخ ایسے بہت سے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب کسی راجا کا کسی عام سے لڑکی پر دل آ گیا اور اس نے اس کے آرام و سکون کے لیے بہت سے جتن بھی کیے۔
قصہ گُل بیگم کا پیشِ خدمت ہے جو ایک مشہور رقاصہ تھی اور یقیناً ایک ماہر رقاصہ بھی تھی تبھی تو مہاراجا رنجیت سنگھ اس پر فدا ہوگیا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ آج جو رقاصہ یا طوائف کا لفظ رائج ہے، اس کے معنی بالکل اور ہیں اور بہت پہلے جو طوائف یا رقاصہ ہوتی تھی، اس کا مطلب مکمل طور پر کچھ اور لیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر ذرا پہلے افسانوں یا ناولوں میں آپ کو بیٹے یا بیٹی کے لیے لفظ لونڈا یا لونڈیا ہی ملے گا مگر آج لونڈے کا مفہوم بدل چکا ہے۔ پہلے پہل لُور لُور پھرنے والے یعنی سیاح کو کنجر بھی کہا جاتا تھا مگر آج کنجر کے معنی کچھ اور ہیں۔
خدائے سخن میر تقی میر کا اک شعر دیکھیں کہ میر نے بھی اپنے آپ کو کنجر لکھا ہے۔
میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں
اس طرح اپنی میراث کو سنبھال کر رکھنے والا میراثی کہلواتا تھا مگر آج میراثی کے معانی مختلف ہیں۔ تو گُل بیگم طوائف تو تھی مگر دھندے والی ہرگز ہرگز نہ تھی ورنہ رنجیت سنگھ اس کے قریب بھی نہ جاتا۔ گل بیگم کا تعلق تو ایسے خوب صورت اور اعلیٰ خاندان سے تھا جو موسیقی اور رقصسے اچھا خاصا لگاؤ رکھتا تھا۔ گل بیگم نے بھی فنِ موسیقی اور رقص کی ابتدائی تعلیم اپنے ہی گھر سے حاصل کی اور رقص و سرور کی محافل سجا کر رزقِ حلال کمانے لگی۔ کیا آپ کے خیال میں رقص کرنا کوئی عام بات ہے؟ اچھا خاصا محنت طلب کام ہے صاحب اور جس کام میں محنت لگے، اس کی کمائی حرام کیوں کر ہوسکتی ہے۔
گل بیگم کا تعلق امرت سر سے تھا۔ فنِ گفتگو ایسا تھا کہ زبان سے الفاظ کی بجائے پھول جھڑتے تھے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے کسی شام میں گل بیگم کو رقص کرتے ہوئے دیکھا تو بس اس کے اس فن پر عاشق ہوگئے اور ایک دو ملاقاتوں میں ہی گل بیگم مہاراجا رنجیت سنگھ کے دل میں اترگئی۔ تاریخ میں یہ بات بھی درج ہے کہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے گل بیگم سے باقاعدہ شادی کی تھی۔ غالباً یہ 1831 کی بات ہے جب مہاراجہ رنجیت سنگھ گل بیگم کو بیاہنے خود امرت سر گئے۔
مہاراجا رنجیت سنگھ نے عام روایات کے مطابق ہاتھوں میں مہندی لگائی، زیورات پہنے اور گل بیگم کو بیاہ کر امرت سر سے لاہور لے آئے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کو گل بیگم سے اس قدر محبت تھی کہ مہاراجا نے گل بیگم کو مسلمان ہی رہنے دیا۔ یہاں تاریخ کا دل چسپ پہلو بھی ہے مہاراجا نے جب ایک مسلمان سے شادی کرلی تو اپنی مذہبی روایات کے مطابق انہیں گولڈن ٹیمپل جا کر نہ صرف معافی مانگنا تھی بلکہ روایات کے مطابق اپنے جسم پر کوڑے بھی کھانا تھے مگر یہ کس کی مجال کہ پنجاب میں سکھوں کی حکومت قائم کرنے والے اول مہاراجا کو کوئی کوڑے لگائے۔ اس کا حل کچھ یوں نکالا گیا کہ ایک ریشم کا کوڑا تیار کیا گیا اور اس طرح مہاراجا کی یہ سزا پوری ہوئی۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف رنجیت سنگھ ہی گل بیگم کی محبت میں گرفتار تھا، بلکہ ہمیں مختلف کتابوں سے یہ واضح ثبوت بھی ملتے ہیں کہ گل بیگم بھی مہاراجا رنجیت سنگھ سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔ رنجیت سنگھ جب بھی بیمار ہوتا تو رانی خود اس کی تیمارداری کرتی۔
یہ بھی لکھا گیا ہے کہ جب رنجیت سنگھ کی وفات ہوئی تو رانی گل بیگم سَتی ہونا چاہتی تھی مگر یہ اعتراض کیا گیا کہ وہ مسلمان ہیں اور اسلام میں ایسی کسی بھی رسم کا کوئی وجود نہیں۔ گل بیگم نے اپنی ہی زندگی میں ایک باغیچہ اور مقبرہ اپنے لیے بنوایا تھا۔ یہ مکان نہایت مکلف پختہ سنگین تھا۔
گل بیگم کی ایک کالے پتھر کے چبوترے پر قبر ہے۔ قبر پر سنگ مرمر لگا ہوا ہے۔ رانی 1282 ہجری میں مرگئی تھی اور اسی مقبرے میں مدفون ہوئی۔ اس کے بعد اس کا لے پالک بیٹا سردار خان بھی مر گیا۔ اس کی قبر بھی تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔
مقبرے کے اندر دیواروں اور چھت پر موجود فریسکو مقبرہ بند ہونے کی وجہ سے بہتر حالت میں موجود ہے۔ یہ مقبرہ اب بند ہے البتہ آپ باغیچے اور اس کے بیٹے کی قبر کو دیکھ سکتے ہیں۔ مقبرے کے بالکل ساتھ ہی ایک گھر میں مقبرے کی چابیاں موجود ہیں۔ اہل مکان اچھے ہیں جو فقط باغیچہ دیکھنے کے لیے چابیاں عنایت کر دیتے ہیں مگر اصل قبر تک جانے کی اجازت کسی کو اجازت نہیں۔ یہ لوگ کون ہیں اور انہی کے پاس اس باغیچے کی چابیاں کیوں ہیں، اس بارے کم از کم میں تو مکمل طور پر لاعلم ہوں۔ یہ مقبرہ لاہور میں میانی صاحب قبرستان کے پاس ہی ہے۔
مقبرہ زیب النساء
کنہیا لال کی تاریخِ لاہور میں ہے کہ زیب النساء فارسی کی ایک عمدہ شاعرہ تھی۔ زیب النساء اصل میں اورنگزیب عالمگیر کی بہن تھی یا بیٹی، اس بارے میں کوئی مستند حوالہ موجود نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ اسے عمارات کا بہت شوق تھا۔ اس نے لاہور اور دلی میں بہت سی عمارات بنوائیں۔ لاہور کی دو مشہور عمارتوں میں سے ایک تو اس کا وہ باغ تھا جس کی اب صرف چوبرجی باقی ہے۔ دوسرا وہ باغ تھا جس کے اندر اس نے اپنا مقبرہ بھی بنوایا۔ شاندار چار دیواری، دیدہ زیب جالیاں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس باغ میں شہزادی زیب النساء نے اپنے لیے مقبرہ بنوایا تھا، یہ مقبرہ عین اس باغ کے وسط میں تھا مگر آج اگر آپ زیب النساء کا مقبرہ جا کر دیکھیں تو آپ کو مقبرے کے اطراف میں صرف عمارتیں ہی عمارتیں نظر آئیں گی۔ اس باغ کی سڑکیں سب سنگِ سرخ کی تھیں۔ حوض اور بارہ دریاں سنگ مرمر کی۔ مقبرے کے نیچے سے اوپر تک سنگ مرمر تھا۔ زیب النساء بیگم 1080 ہجری میں فوت ہوکر اسی مقبرے میں مدفن ہوئی جس کو اس نے اپنے دلی شوق سے بنوایا تھا۔ جب سلطنت اسلامیہ جاتی رہی اور سکھ شاہی تاریکی نے زمانے کو گھیر لیا اور لاہور میں تین حاکم ایک شہر میں مقرر ہوئے تو یہ باغ محکم دین کے ماتحت آگیا۔ اس نے باغ کو بنا اجازت آباد کیا اور نام اس کا نیا کوٹ رکھا۔ غربی دیواریں اس نے گرا کر مکانات بنوا لیے، سنگ مرمر کے فوارے اور خیابان سب اکھاڑ ڈالے۔ حوضوں کو نکلوا دیا اور پتھر فروخت کردیے مگر مقبرہ بدستور کھڑا رہا۔ آخر کار جب مہاراجا رنجیت سنگھ اسی محکمم دین کی سازش سے لاہور پر دخیل ہوگیا تو مہاراجا نے اس کو بہت عزت دی۔ شہر کے دروازوں کی کنجیاں اسی کے سپرد رہیں۔ تمام شہر اور بیرونی دیہات پر اسی کی حکومت رہی۔ چند سال تو یہ حال رہا۔ بعد جب مہاراجا رنجیت سنگھ کی موراں طوائف سے ہوگئی اور اس کے اختیارات اس قدر بڑھ گئے کہ روپے پیسے پر برابر ضرب موراں مائی کی لگنے لگی تو محکم دین کو حسد پیدا ہوا۔ ایک روز مہاراجا کے روبرو دونوں کی تکرار ہو پڑی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ موراں نے اس کو کہا کہ میں موراں تب ہوئی جب تجھ کو سر پر ساگ یعنی سبزی کا ٹوکرا رکھوا کر گلی گلی پھراؤں۔ محکم دین نے کہا کہ میں محکم دین تب ہوں کہ تجھ سے ٹکے ٹکے کا پیشہ کرواؤں۔ مہاراجا کو یہ بات بہت بری لگی اور یک قلم اس سے پھر گیا۔ دوسرے روز حکم ہوا کہ محکم دین نیا کوٹ سے موقوف ہوا اور گھر بار ضبط کرلیا گیا۔
شہزادی زیب النساء مغل شہنشاہ اورنگزیب عالم گیر کی کی سب سے بڑی بیٹی تھی جس کی پیدائش 1638 میں دولت آباد دکن میں ہوئی وہ حافظ قرآن اور شاعرہ تھی۔ اس مقبرے کی عام شہرت مقبرہ زیب النساء کے نام سے ہے روایت بیان کی جاتی ہے کہ زیب النساء نے یہ مقبرہ 1629 میں ایک باغ جو کہ اب معدوم ہوچکا ہے کہ وسط میں تعمیر کروایا تھا۔ تاہم مستند تاریخی حوالہ جات اس بات کا واضح ثبوت پیش کرتے ہیں کہ زیب النساء نے اپنی زندگی کے آخری دو عشرے اسیردہلی کے قلعہ سلیم گڑھ میں بسر کیے اور 1702 میں وہیں ان کی رحلت ہوئی۔ ان کا مقبرہ بیرونی کابلی دروازہ 30 ہزاری باغ میں تعمیر کیا گیا تھا جسے 1878 میں دہلی ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے برطانوی ہند کی حکومت نے مسمار کردیا۔ بعض مورٹ کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ مقبرہ شاہ جہاں کے عہد حکومت میں لاہور میں فائز ایک اعلیٰ عہدے دار افسر افضل خان علائی کا ہے۔ ایک روایت اسے میاں بائی فخر النساء سے منسوب کرتی ہے جسے جب چوبرجی عطا ہوئی تھی۔ حقیقت میں یہ مقبرہ کس کا ہے، بتانا ممکن نہیں۔ رنجیت سنگھ کے عہد حکومت میں اس مقبرے کی رہائش کا تمام پتھر حضوری باغ بارہ دری کی تعمیر کے لیے اتار لیا گیا تھا۔
چوبرجی
تاریخ لاہور (کنہیا لال) میں ہے کہ شہزادی زیب النساء دختر نیک اختر شاہ عالمگیر بادشاہ نے لاہور میں ایک نہایت ہی عمدہ باغ بنوایا اور شالا مار باغ کی طرح لاکھوں روپے کی عمارات اس میں بنائی گئیں۔ جب یہ باغ بن کر تیار ہوچکا تو اس نے میا (مینا) بائی اپنی دایا کو بخش دیا۔ من بعد یہ دریائے راوی شہر کے نزدیک آ گیا تو ہزاروں عمارتیں عالی شان تباہ ہوگئیں اور یہ باغ بھی دریا کے منہ میں لقمہ ہوگیا۔
جس باغ کا میں ذکرِخیر کرنا چاہ رہا ہوں، آج اس باغ کا صرف دروازہ محفوظ ہے جسے عوام چوبرجی کے نام سے جانتی ہے۔ تاریخِ لاہور پڑھتے ہوئے مجھے سب سے پہلا خیال یہی آیا کہ اس دور میں راوی کیا اس قدر پھیلا ہوا تھا کہ چوبرجی تک آن پہنچا تھا۔ اگرچہ کہ سکھ دور میں اس باغ کی کچھ دیواریں یا علامات باقی تھیں مگر اب ماسوائے اس دروازے کے کچھ بھی باقی نہیں۔ چوبرجی کے مینار ہشت پہلو مقطع ہیں جن پر کانسی کا کام ہے۔ کانسی کا کام اندر عمارت میں بھی نظر آتا ہے۔
چوبرجی لاہور کی ایک تاریخی عمارت ہے جو ملکہ زبیدہ بیگم (مغل شہزادہ دارا شکوہ کی بیوی) کی نسبت سے بھی مشہور ہے۔ یہ عمارت شاہراہِ ملتان (آج کا ملتان روڈ، لاہور) پر واقع ہے۔ چوبرجی کا مطلب ہے ’’چار بُرج‘‘ کیوںکہ اس کی عمارت کے چاروں کونوں پر بلند و بالا مینار (برج) بنے ہوئے تھے۔ یہ مغلیہ طرزِتعمیر کا ایک شان دار نمونہ ہے۔ یہ ایک باغ (چار باغ) کے دروازے کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا جس کا نام ’’زاویہ زبیدہ بیگم باغ‘‘ تھا۔
تعمیر کا زمانہ 1646ء کے قریب کا ہے۔ اصل میں یہ لاہور کے گردونواح میں بنائے گئے ایک وسیع باغ کا داخلی دروازہ تھا۔ اب یہاں سے آپ اندازہ کریں کہ وہ باغ کیسا ہوگا جس کا فقط ایک داخلی دروازہ چوبرجی تھا۔ آج اس کے صرف ایک ہی حصہ (گیٹ وے) باقی ہے، جب کہ باغ اور دیگر عمارتیں وقت کے ساتھ ختم ہوگئیں۔ اس پر فارسی کتبہ بھی نصب ہے جس میں زبیدہ بیگم کا ذکر ہے۔ چوبرجی مغلیہ فنِ تعمیر کا نمایاں نمونہ ہے۔ یہ لاہور کی پہچان اور ایک تاریخی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔
کچھ روایات یہ ہیں کہ شہزادی زیب النساء نے یہ باغ اپنی دائی میا (مینا) بائی کو تحفے میں دے دیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ باغ اصل میں بنوایا ہی میا بائی نے تھا۔ چند کتب میں یہ بھی ہے کہ یہ باغ شاہ جہان اور ملکہ ممتاز کی بیٹی شہزادی جہاں آراء نے بنوایا تھا۔ لاہور کی اور بھی بہت سی تاریخی عمارات کا سہرا جہاں آراء کے سر ہے۔
یہ باغ جس کسی نے بھی بنوایا ہو، میں تو بس یہ سوچتا ہوں کہ جس باغ کا فقط دروازہ (چوبرجی) اتنا خوب صورت ہے، وہ باغ کا قدر خوب صورت ہوگا۔
ڈیوڑھی باغ نواں کوٹ (چھوٹی چوبرجی)
آپ لاہوری ہوں یا غیرلاہوری، آپ نے چوبرجی بارے تو سنا ہی ہوگا۔ چوبرجی مطلب چار برجوں والی عمارت۔ بات ہوجائے چھوٹی چوبرجی کی جس کے بارے شاید آپ لا علم ہوں۔
چھوٹی چوبرجی لاہور کی ایک قدیم مگر کم معروف تاریخی عمارت ہے۔ عام طور پر جب ’’چوبرجی‘‘ کہا جائے تو لوگ مشہور چوبرجی لاہور (جو ملتان روڈ پر واقع ہے اور اورنگزیب کے عہد کی یادگار ہے) کو سمجھتے ہیں، لیکن ’’چھوٹی چوبرجی‘‘ نسبتاً کم جانی پہچانی ہے۔ چھوٹی چوبرجی لاہور کے قدیم باغات اور مغل دور کی تعمیرات سے جڑی ہوئی ایک چھوٹی مگر خوب صورت عمارت تھی۔ اس کی بناوٹ بڑی چوبرجی (ملتان روڈ والی) کی طرح چار میناروں پر مشتمل تھی لیکن یہ سائز میں چھوٹی تھی، اس لیے اسے ’’چھوٹی چوبرجی‘‘ کہا جانے لگا۔ بعض محققین کے مطابق یہ بھی کسی مغل باغ کے دروازے یا یادگار کا حصہ تھی۔
آج یہ اپنی اصل حالت میں محفوظ نہیں ہے۔ وقت اور آبادی کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ عمارت تقریباً ختم ہوگئی ہے یا اس کے صرف آثار باقی ہیں۔
لاہور کی چھوٹی چوبرجی کے بارے میں تاریخی ماخذ بہت کم ملتے ہیں، لیکن جو تحقیق دست یاب ہے اس کے مطابق یہ بھی مغل دور کی یادگار تھی اور غالباً کسی مغل شہزادی یا کسی اعلیٰ مغل خاتون نے اسے تعمیر کروایا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے بڑی چوبرجی (ملتان روڈ والی) بیگم زیب النسا (اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی) یا اس سے منسوب کسی مغل بیگم کے باغ کا حصہ تھی۔
’’چھوٹی چوبرجی‘‘ دراصل ایک چھوٹے باغ یا عمارت کا دروازہ تھی جس کے چار مینار تھے، اور چوںکہ یہ سائز میں بڑی چوبرجی سے چھوٹی تھی اس لیے عوام نے اسے چھوٹی چوبرجی کہنا شروع کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ چھوٹی چوبرجی کے بانی کا نام واضح طور پر تاریخ میں محفوظ نہیں ہوا۔ صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ یہ بھی کسی مغل بیگم یا نواب کی تعمیر تھی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی تفصیل گم ہوگئی۔
پرانی کتابوں میں ’’چھوٹی چوبرجی‘‘ عموماً اسی نام سے نہیں آتی—زیادہ تر اسے‘‘ نواں کوٹ گیٹ وے/نواں کوٹ کا دروازہ’’یا زبدہ/زیب النساء کے باغ کا دروازہ لکھا گیا ہے۔ درجِ ذیل معتبر پرانی ماخذ اس کا ذکر کرتے ہیں براہِ راست’’Chhoti/چھوٹی چوبرجی‘‘ کم اور ’’نواں کوٹ گیٹ‘‘ زیادہ ملتا ہے۔
یہاں لگے معلوماتی بورڈ کے مطابق ’’ڈیوڑھی باغ نواں کوٹ‘‘ ایک باغ کا مشرقی حصہ ہے جسے ممکنہ طور پر شاہ جہان کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اسے کس نے تعمیر کروایا تھا مگر اسے اورنگزیب عالمگیر کی بڑی بیٹی شہزادی زیب النساء سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ خودساختہ اسیری میں یہیں بسر کر دیا۔ وہ باغ کے ایک حصے میں لنگرخانی چلاتی تھیں اور غریبوں میں ہر وقت کھانا تقسیم کرتی رہتی تھیں۔
ڈیوڑھی کی بیرونی کاشی گری بہت حد تک خراب ہوچکی ہے مگر اب اس کی مرمت کا کام جاری ہے۔ چھت کے اوپر والے کونوں میں بارہ دری والی چھوٹی چھوٹی چھتریاں بنائی گئی ہیں، جو اپنی ساخت میں دائی انگہ کے مقبرے پر بنی چھتریاں سے مماثلت رکھتی ہیں۔ یہ باغ تقریباً 188 میٹر چوڑا اور 186 میٹر لمبا ہے۔
ٹولنٹن مارکیٹ
انگریز جب ہندوستان میں قدم جماچکے، زیادہ تر مزاحمتوں کو کچل چکے تو انھوں نے برصغیر کی تعمیر و ترقی پر توجہ دینا شروع کردی۔ اگرچہ کہ انگریز بہادر نے ہندوستان کو لوٹا اور بہت لوٹا مگر یہ سچ ہے کہ انگریز ہمیں بہت کچھ دیر کر بھی گئے، جس کی دو بڑی مثالیں ہمارا ریلوے کا نظام اور تقریباً ہر شہر میں موجود پرانی عمارات ہیں۔ لاہور تو ایسی عمارات سے بھرا پڑا ہے۔ آج جس عمارت کا قصہ بیان ہے وہ لاہور ہی کی ٹولنٹن مارکیٹ ہے۔
ٹولنٹن مارکیٹ (Tollinton Market) لاہور کی ایک تاریخی عمارت ہے جو مال روڈ پر واقع ہے۔ یہ 1864ء میں بنائی گئی تھی اور اس کا نام اُس وقت کے برطانوی اہلکار ٹولنٹن کے نام پر رکھا گیا۔ اس عمارت کو خاص طور پر 1864 کی لاہور نمائش کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
یہ لاہور کی چند قدیم کالونیل دور کی عمارتوں میں سے ہے۔
اس کا ڈیزائن انگریزی طرزِتعمیر پر تھا لیکن اس میں مقام اثرات بھی شامل تھے۔ نمائش کے بعد یہ جگہ لاہور کی سب سے پہلی مارکیٹ کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ یہاں پر اس وقت کے نایاب اور قیمتی سامان، کرافٹس، دست کاری اور مختلف اشیاء فروخت ہوتی تھیں۔ بعد میں یہ جگہ ایک عرصے تک جانوروں کی منڈی اور گوشت و سبزی کی مارکیٹ بھی بنی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی عمارت خستہ حالی کا شکار ہوئی، مگر یہ لاہور کی تاریخی شناخت میں شمار ہوتی ہے۔ آج بھی جب مال روڈ پر نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) کے قریب سے گزرا جائے تو ٹولنٹن مارکیٹ کی عمارت دکھائی دیتی ہے۔
یہ عمارت اس وقت تعمیر ہوئی جب سرکار نے پہلے پہل عجائبات خطہ پنجاب کی نمائش منظور کی تھی اور اس اہم کام کے اہتمام میں ہزار ہا روپیہ سرکار کا صرف ہوا تھا۔ بڑی بڑی ریاستوں، پنجاب کے امیروں، سرداروں، جاگیر داروں سے طرح طرح کی عجیب چیزیں قسم قسم کے زیورات قیمتی، مرصع ملبوسات و فروش پشمینہ و قالین و مصنوعات قسم کی ساخت کشمیر جنت نظیر ہر خطہ ہر اقلیم جمع کیے گئے پرانے، خوشں نویسیوں کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتابیں اور زمانہ حال کے خوش نویسیوں کے ہاتھ کی کتابیں یہاں رکھی گی تھیں۔ آج کل یہ عمارت این سی اے کے ’’زیرقبضہ‘‘ ہے۔
مسجدِ شب بھر
روایت ہے کہ انار کلی کے پاس اس علاقے میں ہر طرف ہندو ہی ہندوآباد تھے۔ اگرچہ کہ چند ایک مسلمان بھی تھے مگر اکثریت تو ہندوؤں کی ہی تھی۔ نہ صرف یہ کہ علاقے میں مسلمانوں کی کوئی مسجد نہ تھی بلکہ مسلمان یوں سرِعام نماز بھی ادا نہ کرتے تھے۔
ایک دن کسی مسافر کا یہاں سے گزر ہوا تو اس نے یہیں چوراہے پر نماز پڑھ لی۔ بات بگڑی تو ہندؤوں نے یہاں مندر بنانے کا اعلان کر دیا۔ مسلمان بھی ضد میں آ گئے کہ ہم یہاں اب مسجد ہی بنائیں گے۔ معاملہ عدالت تک پہنچا۔ جج نے فیصلہ کچھ یوں سنایا کہ اگلی صبح وہ بہ ذاتِ خود اس جگہ کا معائنہ کریں گے۔ اگر مسلمان ایک ہی رات میں یہاں مسجد بنا سکیں تو مسجد برقرار رکھی جائے گی ورنہ یہ جگہوں ہندوؤں کو مندر بنانے کے لیے دے دی جائے گی۔
مزید ایک اور حکایت بھی ہے کہ اسی وقت گاما پہلوان کی زیرنگرانی کام شروع ہوا اور مسجد ایک ہی رات میں تیار ہو گئی۔ صبح جج صاحب تشریف لائے اور مسجد برقرار رکھنے کا فیصلہ سنا دیا۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پُرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
علامہ محمد اقبالؒ
یہ قصہ مستند نہیں مگر مشہور ضرور ہے اور مسجد کا نام ’’مسجدِشب بھر‘‘ ہی ہے۔
مقبرہ قطب الدین ایبک
1150 ترکستان میں پیدا ہونے والا بچہ مختلف ہاتھوں میں بطور غلام فروخت ہوتے ہوتے بالآخر 1206 میں بادشاہ سلامت بن گیا اور اس نے برصغیر میں مسلمان حکومت قائم کی جو دہلی سلطنت کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ میری مراد تاریخ کے ابواب میں گم شدہ گم نام قطب الدین ایبک سے ہے۔
قطب الدین ایبک ترک النسل تھے اور موجودہ ازبکستان و قازقستان کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔
شاہ پور کے غلام بازار میں سب سے پہلے بطور غلام فروخت ہونے والا قطب الدین ایبک کو قاضی فخر الدین عبدالعزیز کوفی نے خریدا اور پھر اسے اپنے گھر جا کر اپنے بچوں کی طرح پالا۔ اسے دینی تعلیم دی، گھڑ سواری بھی اس کو سکھائی حتیٰ کہ نیزہ بازی کی بھی ایسی مہارت اس کو دی کہ قطب الدین بہت جلد گھڑسوار اور نیزہ بازی کے طور پر جانا اور پہچانے لگا۔ جب قاضی فخر الدین کے بیٹے نے قطب الدین ایبک کو ایک تاجر کے ہاتھ فروخت کردیا، اس تاجر نے بھاری معاوضے کے عوض سلطان شہاب الدین غوری کو فروخت کردیا اور اس طرح قطب الدین ایبک سلطان شہاب الدین کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔
قطب الدین ایبک سلطان شہاب الدین غوری کے گھرانے کے غلاموں میں شامل ہوگیا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث سلطان کی نظروں میں آ گیا۔ ایک دن سلطان غوری اپنے گھرانے کے غلاموں میں تحائف تقسیم کر رہے تھے تو قطب الدین ایبک کو بھی تحفہ دیا گیا۔ قطب الدین ایبک نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حصے کا تحفہ ایک دوسرے غلام کو دے دیا۔ سلطان کو یہ عطا بہت پسند آئی۔ قطب الدین ایبک کی خداداد صلاحیتوں کے باعث سلطان محمود غوری نے قطب الدین ایبک کو مختلف انتظامی ذمہ داریاں دینا شروع کردی۔ برصغیر کے مختلف حصوں کا اس کو انتظامی سربراہ بنا دیا۔ وہ کئی جگہوں پر گورنر بھی رہے۔
پھر 1206 کا زمانہ آتا ہے اور 1206 میں جہلم کے مقام پر گھکھروں اور غوریوں کے درمیان زبردست جنگ ہوتی ہے اور اس جنگ میں سلطان غوری ہلاک ہوجاتے ہیں۔ سلطان شہاب الدین غوری کی ہلاکت کے ساتھ ہی 1206 میں قطب الدین ایبک اپنی حکم رانی کا اعلان کردیا اور یوں دہلی سلطنت کا آغاز ہوا۔ انہیں سلطان قطب الدین ایبک کہا گیا لیکن عوام میں وہ ’’لکھ بخش‘‘ (یعنی بخشش کرنے والا) کے نام سے مشہور تھے، کیوںکہ وہ بہت فیاض اور سخی تھے۔ دہلی میں قطب مینار کی تعمیر کا آغاز انھوں نے کیا جو بعد میں ان کے جانشین شمس الدین التمش نے مکمل کیا۔ کئی مساجد اور عمارتیں بنوائیں، جن میں قطب مسجد (قطب مینار کے ساتھ) اور قوۃ الاسلام مسجد شامل ہیں۔ انہوں نے دہلی کو ایک مستقل دارالحکومت کی حیثیت دی۔
پھر چار سال مسلم حکومت کی قیادت کرتے ہوئے 1210 میں وہ پولو کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر گئے اور جاں بحق ہوگئے۔ قطب الدین ایبک کو لاہور کے انارکلی بازار سے ملحقہ ایبک روڈ پر سپردِخاک کردیا گیا۔ ان کی قبر ایک سادہ مٹی کی تھی جسے بعد میں مختلف ادوار میں حکم رانوں نے پختہ کروایا۔ مغل دور اور سکھ دور میں بھی اس کی مرمت ہوئی۔ آج ان کا مزار ایک چھوٹے سے کمرے میں ہے، جہاں ان کی قبر موجود ہے۔ مزار کے گرد عام سا صحن ہے اور لوگ زیارت کے لیے آتے ہیں۔
میرے خیال میں قطب الدین ایبک کا ذکر کرتے ہوئے اگر اس کے داماد شمس الدین التمش کی بیٹی رضیہ سلطان کا ذکر نہ کیا جائے تو زیارتی ہوگی۔ رضیہ سلطان برصغیر کی تاریخ کی وہ منفرد شخصیت ہیں جو دہلی سلطنت کی پہلی اور واحد خاتون حکم راں بنیں۔ ان کی حکم رانی کا دور 1236ء – 1240ء تک تھا۔ شمس الدین التمش کے بعد ان کے بیٹے کم زور اور نااہل ثابت ہوئے۔ علماء اور امراء کی مخالفت کے باوجود التمش نے اپنی بیٹی رضیہ کو اپنا جانشین بنایا۔ یوں وہ دہلی کے تخت پر بیٹھنے والی پہلی اور واحد عورت بنیں۔
رضیہ سلطان نہایت ذہین، نڈر اور انصاف پسند حکم راں تھیں۔ انہوں نے دربار میں عورتوں کے پردے کی روایت کو توڑتے ہوئے عملی طور پر امورِسلطنت میں حصہ لیا۔ رعایا کے مسائل سنتیں اور حل کرتیں۔ وہ ہمیشہ ہی ہر سلطان کی طرح فوجی مہمات میں خود شریک ہوتیں۔ گھڑسواری اور تیراندازی میں ماہر تھیں۔ بغاوتوں کو دبانے کے لیے کئی مرتبہ خود فوج کی قیادت کی۔ بہت سے مدارس اور مساجد کی تعمیر کی۔ علما اور دانشوروں کی سرپرستی کی۔ رعایا کو عدل و انصاف فراہم کرنے کی کوشش کی۔
ترک امراء (چہلگانی گروہ) رضیہ کے خلاف تھے، کیوںکہ وہ عورت کو حکمران ماننے پر تیار نہ تھے۔ انہوں نے اس کے خلاف بغاوت کردی۔
1240ء میں تخت سے محروم ہوئیں اور بعدازآں قتل کردی گئیں۔ ان کا مزار دہلی (انڈیا) میں ہے۔
بلاشبہہ رضیہ سلطان تاریخ میں ایک نڈر، ذہین اور غیرروایتی حکم راں کے طور پر یاد کی جاتی ہیں، جنہوں نے مردوں کے غلبے والے معاشرے میں حکومت کر کے ایک نئی مثال قائم کی۔
رضیہ سلطان فلم تو آپ سب نے دیکھ ہی رکھی ہو گی اور اگر نہ بھی دیکھی ہو تو اس کا مشہورِزمانہ گانا ’’اے دلِ ناداں‘‘ کے آپ ضرور مداح ہوں گے۔
ہاں ہمارا دن ختم ہوگیا بلکہ میری زندگی کے ایک خوب صورت باب کا خاتمہ ہو گیا۔ کھانے کے بعد شجاعت نے مجھے قریبی اورینج لائن کے اسٹیشن پر اتارا اور چلاگیا۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر رہا تھا کہ سوچا ایک بار پیچھے مڑ دیکھو۔ میں مڑا تو شجاعت ابھی تک وہیں کھڑا تھا۔ ہم دونوں نے مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کی جناب دیکھا اور ایکسلیریٹر اوپر چلا گیا۔ یہ آخری بار تھا جب میں نے شجاعت کو دیکھا۔ میں جو پچھلے تین برسوں سے شجاعت کے پاس لاہور بھاگ جاتا تھا، مجھے لگتا ہے یہ سلسلہ اب مجھے ختم ہو جانا چاہیے۔
شاید مجھے اس برس بھی نہیں جانا چاہیے تھا۔ مجھے شجاعت سے کوئی شکایت نہیں۔ شجاعت میرے ساتھ بالکل ایسے ہوتا ہے جیسے کوئی عربی شہزادہ لاہور آیا ہو، بس ایک لال قالین کی کمی ہوتی ہے۔ مجھے قطعاً امید نہیں تھی میں لاہور سے واپسی پر اس قدر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاؤں گا۔ پچھلی بار بھی مجھے کچھ مسائل ہوئے تھے مگر وہ اتنے سنجیدہ نہ تھے۔ مجھے گمان تھا کہ اس بار ایسا کچھ نہیں ہو گا مگر اس بار میری اس قدر برتر حالت ہوئی کہ خدا کی پناہ۔ میں اپنے نفسیاتی مسائل کسی دوسرے کے سر نہیں تھوپ سکتا اور نہ ہی کسی دوسرے کو اس کا ذمہ دار قرار دے سکتا ہوں۔ عین ممکن ہے کہیں اجنبی راہوں پر میں شجاعت سے ٹکرا جاؤں مگر جان بوجھ کر ایسا بالکل نہیں ہوگا۔ باقی رابطہ تو رہے گا ہی۔ کبھی کبھی جان بوجھ کر بنا کسی ضرورت کے رابطہ کر کے خوش ہو جانے میں حرج ہی کیا.