ستائیسویں ترمیم کا غلغلہ

دوحہ کے بعد اب استنبول میں بھی پاک افغان امن مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں ۔ دوحہ اور ترکیہ نے اسلامی اور برادرانہ اخلاص کے ساتھ، ثالثی کے فرائض انجام دیتے ہُوئے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کروائے، اِس مستحسن نیت کے ساتھ کہ افغانستان اور پاکستان میں مزید کوئی بڑا تصادم جنم نہ لے سکے۔

افغان مُلّا حکمران طالبان کی ضد اور ہٹ دھرمی کے کارن یہ مذاکرات پہلے دوحہ میں ناکام ہُوئے اور اب استنبول میں ۔ یعنی قطر اور ترکیئے کی میزبانیوں کے نتائج صفر نکلے ۔ ذمے دار افغان حکمران طالبان ہیں۔ شاید اس لیے بھی یہ مذاکرات ناکامی پر منتج ہُوئے ہیں کہ مبینہ طور پر افغان طالبان کی ڈوریاں بھارت سے ہلائی جا رہی تھیں ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیز فائر اب بھی موجود تو ہے ، لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ فائر بندی کب ٹوٹ جائے ۔

افغان طالبان (بذریعہ دہشت گرد ٹی ٹی پی) پہلے بھی دوحہ معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہُوئے پاکستان پر بار بار حملہ آور ہوتے رہے ہیں، اس لیے پاکستان کا افغان طالبان پر اعتبار کرنا ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے مترادف تھا۔ پھر بھی پاکستان نے افغانستان کو اپنا محترم اور برادر ہمسایہ سمجھتے ہُوئے افغان طالبان کو دو مواقع اور دیے ، مگر افغان طالبان نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا محترم ہمسایہ سمجھتے ہیں نہ برادر ملک۔ واقعہ یہ ہے کہ افغان طالبان معاہدہ شکن اور محسن کش ثابت ہُوئے ہیں ۔ افغانستان کی بُز کشی تو مشہور تھی ہی ، اب افغان طالبان کی برادر کشی اور محسن کشی بھی اقوامِ عالم میں حقیقتِ ثابتہ بن گئی ہے ۔

چاہیے تو یہ تھا کہ شہباز حکومت اور اُن کے طاقتور پُشت پناہ اِن حساس لمحات میں دوحہ اور استنبول میں افغان طالبان کی ہٹ دھرمی کے کارن وطنِ عزیز کو درپیش نئے اور ممکنہ خطرات سے آگاہ کررہے ہوتے ، مگر حکومت اور ہر قسم کے مستقل حکمرانوں کو آئین میں 27ویں ترمیم کی منظوری دل اور دماغ کے زیادہ قریب محسوس ہو رہی ہے ۔ ہر طرف ہلچل سی مچی ہے ۔

ایک غلغلہ ہے۔ حکومت کسی شدید ایمرجنسی میں محصور نظر آ رہی ہے ۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم، جناب شہباز شریف، کو آذربائیجان میں ہوتے ہُوئے ،مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ایمرجنسی میں، زُوم پر وفاقی وزرا کی میٹنگ میں شریک ہونا پڑا۔ اپنے اتحادیوں کو راضی رکھنے اور انھیں منانے کے لیے حکومت کی بھاگ دوڑ قابلِ دید ہے ۔ مخالفت کرنے اور تحفظات رکھنے والوں کو بھی قابو کرنے کی کوششیں بروئے کار ہیں ۔

مجوزہ ستائیسویں ترمیم کی منظوری سے قبل، پیپلز پارٹی موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہُوئے، زیادہ سے زیادہ مفادات سمیٹنے کی کوشش میں ہے ۔ اور پی ٹی آئی ، حسبِ سابق، مرکزِ گریز عمل کا شکار ہے ۔ وہ اب بھی اِسی کوشش میں ہے کہ اِسی ایمرجنسی کے موقع پر شاید بانی پی ٹی آئی سے اُس کی تفصیلی اور حسبِ دلخوا ملاقات ہو جائے ۔ ملاقات کے لیے جیل کا پھاٹک شاید پھر بھی نہ کھل سکے۔

یہ سطور اتوار کی صبح ،بتاریخ 9نومبر، لکھی جارہی ہیں اور ابھی تک مجوزہ27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ کسی کے پاس ہے نہ اِسے منصہ شہود پر لایا گیا ہے، اس لیے سبھی باتیں ، تبصرے اور تجزیئے قیافوں اور قیاسوں کی بنیاد پر کیے جارہے ہیں۔ اگرچہ بعض اخبارات اورالیکٹرانک میڈیا نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کا بِل انھیں موصول ہو گیا ہے۔ اِس دعوے کے مطابق: اِس مجوزہ بِل کے ڈرافٹ کی48شقیں ہیں اور یہ 25صفحات پر مشتمل ہے۔ اِن شقوں کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ مجوزہ ترمیم زیادہ تر ججوں، جرنیلوں ، عدالتوںکے نئے اختیارات کے ارد گرد گھوم رہی ہے ۔

اِس مبینہ دعوے کے باوصف حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ مین اسٹریم میڈیا پر پیش کیے جانے والے سبھی مباحث بھی ’’مبینہ‘‘ سے منسلک ہیں۔مجوزہ اور مذکورہ ترمیم میں ’’ مبینہ طور پر‘‘ نئے عہدے تخلیق کیے جانے کی باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے اور کچھ پرانے عہدے تحلیل بھی کیے جانے کی شنید ہے۔کچھ آئینی عہدوں کو ’’تاحیاتی‘‘ کے درجے پر فائز کیا جارہا ہے اور کچھ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ تادمِ مرگ کوئی اُن پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا۔ یہ سب کچھ ’’مبینہ طور پر‘‘ ہی ہے۔ اِس ساری مارا ماری اور دوڑ دھوپ میں عوامی مفادات کا تحفظ کہاں ہے اور کون عوامی دکھوں کا احساس کررہا ہے، اِس کا جواب نفی میں ہے۔ اس لیے غریب عوام بھی مجوزہ ترمیم سے لاتعلق ہیں ۔عوام اِس ترمیم میں بھی منہا ہیں ۔

آئین میں ترمیمات کرنا کوئی بدعت نہیں ہے۔دُنیا کے کئی ممالک میں درجنوں بار آئینی ترمیمات کی گئی ہیں۔ اصل بات مگر یہ ہے کہ آئین کی حرمت اور تقدیس کہاں تک اور کتنی کی جاتی ہے؟ مثال کے طور پر: ریاستہائے متحدہ امریکا میں پچھلے 236برسوں میں 27بار آئینی ترمیمات کی گئی ہیں ، مگر آئین کو کبھی معطل نہیں کیا گیا۔ بھارت میں پچھلے 75برسوں میں 106 آئینی ترمیمیں کی گئی ہیں ، مگر بھارت میں کبھی ایک بار بھی آئین معطل ہُوا نہ توڑا گیا۔پاکستان میں پچھلے 52برسوں کے دوران 26بار آئینی ترمیمات کی گئیں ، مگر بد قسمتی سے وطنِ عزیز میں کتنی بار آئین معطّل (Suspend)اور منسوخ( Abrogate)ہُوا ، یہ ہم سب جانتے ہیں۔

جنرل ایوب خان ، جنرل یحییٰ خان ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے آئین کے ساتھ جو سلوک اور کھلواڑ کیا، وہ ہمارے سامنے ہے ۔ موجودہ آئین 52سال قبل پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ، جناب زیڈ اے بھٹو، نے قوم کو تحفے میں پیش کیا تھا، مگر بھٹو سے جو سلوک کیا گیا ، وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ایک سال قبل موجودہ حکومت ہی نے26ویں آئینی ترمیم کی تھی اور اب 27ویں ترمیم کی منظوری کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔

ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ہنوز دیکھ رہے ہیں کہ اِن ترمیمات کے لیے حکمرانوں کو کتنی جان جوکھوں میں ڈالنی پڑ رہی ہے ؛ چنانچہ ہم تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں کہ زیڈ اے بھٹو اور اُن کی مقتدر پیپلز پارٹی کو،باون برس قبل، 1973میں پاکستان کا پہلا آئین تشکیل دینے، مرتّب کرنے اور اسے منظور کروانے کے لیے کتنی جان لڑانا پڑی ہوگی۔اُس وقت کی پارلیمنٹ میں کتنے بڑے بڑے، بزرگ اور جیّد سیاستدان بھٹو کے مخالف تھے، مگر متفقہ آئین کے لیے اُن سب کو رام کرنا کسقدر دشوار ہوگا ؟بھٹو صاحب نے مگر یہ سب کر دکھایا۔ بعد ازاں مگر 73ء کے آئین کی حرمت کو جس طرح جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے پامال کیا، کیا اِسے فراموش کر دیا جائے؟

آئین میں ترمیم کو ’’اجتہادی اقدام‘‘ سے موسوم اور معنون کیا جا سکتا ہے ۔ اِسے ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ جس ذہین اور عبقری شخص نے پاکستان اور اپنے عوام کو پہلا متفقہ آئین دیا، اُسی نے ’’اجتہادی اقدام‘‘ کرتے ہُوئے 73ء کے اپنے ساختہ آئین میں 7ترمیمات کر ڈالیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی آمرانہ طاقت سے آٹھویں ترمیم منظور کروائی تھی۔ اِس کے تحت پاکستان میں نظامِ حکومت پارلیمانی کے بجائے نیم صدارتی نظام میں تبدیل کیا گیا۔ یوں جنرل ضیاء الحق کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا تھا۔ پاکستانی آئین میں آج تک جتنی بھی ترمیمات کی گئی ہیں، اِن میں عام اور غریب پاکستانی کے مفادات کا تحفظ ملتا ہے نہ غریب پاکستانی کو درپیش مسائل و مصائب کا کوئی شافی علاج ؛ چنانچہ شاید یہ کہنا بجا ہوگا کہ جملہ آئینی ترمیمات محض مقتدر طبقات اور اشرافیہ کے تحفظات کا ایک کھیل ہے ۔ اور بس۔ 27ویں مجوزہ ترمیم کا ’’ کھیل‘‘ بھی اِسی ایک نکتے کے گرد گھومتا نظر آتا ہے ۔

اِسی لیے رکنِ قومی اسمبلی ، سید علی موسیٰ گیلانی، نے8نومبر2025کو اپنی ایک ٹویٹ میں یوں لکھا: ’’پاکستان کی95فیصد آبادی آئین میں کسی بھی ترمیم سے لاتعلق رہتی ہے کہ ترمیمات اُن کی نجی زندگیوں پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں کرتیں۔ وہ تو بیچارے ساری زندگی مہنگائی سے لڑتے اور روزگار و انصاف کے حصول میں گزار دیتے ہیں۔‘‘ کاش، 27ویںمجوزہ آئینی ترمیم پاکستان کے خاکبازوں ، ناداروں اور درماندوں کے لیے کسی ریلیف کا باعث بن سکے۔ کاش!  

Similar Posts