پاکپتن کے شہری کا لاہور کو فضائی آلودگی سے پاک بنانے کا عزم، 10 ہزار پودوں کا تحفہ

پنجاب کے شہر پاکپتن سے تعلق رکھنے  والے ماحول اور شجر دوست شہری نے لاہور میں 10 ہزار پودوں کا تحفہ دیکر  کر عوامی جذبے اور ماحولیاتی ذمے داری کی ایک شاندار مثال پیش کی ہے۔ لاہور میں محکمہ جنگلات کے زیر انتظام کرول جنگل میں 14 ایکڑ رقبے پر مقامی ااسکول کے بچوں ،رضاکاروں اور  محکمہ جنگلات کے عملے نے مل کر پودے لگائے ، شجرکاری کے دوران مقامی انواع کے پودے لگائے گئے ہیں جن میں پیپل، جامن، نیم سمیت دیگر شامل ہیں۔

یہ شجرکاری مہم محکمہ جنگلات کے ’’کمیونٹی انگیجمنٹ فاریسٹری پروگرام‘‘ کے تحت منعقد کی گئی، جو 31 اگست 2025 کو لاہور میں ہونے والی ’’فرینڈز آف فاریسٹ کانفرنس‘‘ کے تسلسل میں ایک عملی قدم ہے۔

غلام رسول نے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا میں پاکپتن کی مٹی میں پلا بڑھا ہوں، جہاں درخت ہر گھر کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ یہ عطیہ میری اس دھرتی اور لوگوں کے لیے عقیدت کا اظہار ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ جنگل دوسروں کو بھی ماحول کے لیے مثبت قدم اٹھانے کی ترغیب دے۔

انہوں نے کہاملک بھر میں شجرکاری انہوں نے اپنی زندگی کا مشن بنالیا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں 50 کروڑ پودے لگانا چاہتے ہیں ۔ ابتک 50 لاکھ پودے لگائے جاچکے ہیں۔ لاہور کے اس کرول جنگل میں لگائے جانے والے 10 ہزار پودے بھی اس تسلسل کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا لاہور پاکستان کا دل ہے، جب لاہور کو آلودہ اور سموگ زدہ دیکھتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے۔ اسی لئے میں لاہور کے شہریوں کے لئے 10 ہزار پودوں کا تحفہ لیکر آیا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ جب میری موت کا وقت آئے تو اس وقت بھی میرے ہاتھوں میں پودا اور زبان پر کلمہ طیبہ کا ورد ہو۔

ڈائریکٹر جنرل فاریسٹ پنجاب اظفر ضیا نے کہایہ اقدام کمیونٹی انگیجمنٹ کی حقیقی روح کی عکاسی کرتا ہے،  جب شہری اور حکومت ایک ساتھ مل کر سرسبز و شاداب پنجاب کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا پنجاب فاریسٹ کے پاس صوبے کے مجموعی رقبے کا صرف تین اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ اگر ہم جنگلات کے 100 فیصد رقبے پر بھی درخت لگادیں تو  گرین کور نہیں بڑھایا جاسکتا۔ گرین کور  بڑھانے کے لئے اس 97 فیصد رقبے پر درخت لگانا ہوں گے جو کسانوں اور نجی شعبے کے پاس ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کرول جنگل میں جو 10 ہزار پودے لگائے گئے ہیں ان کی دیکھ بھال اب محکمہ جنگلات کی ذمہ داری ہوگی۔ پنجاب میں اگرکوئی بھی کسان اپنے رقبے پر درخت لگانا چاہتا ہے تو ہم اسے پودے مہیا کریں گے اور اگر کسی کے پاس پودے ہیں تو ہم اسے جگہ فراہم کرسکتے ہیں۔

شجرکاری کے اس عمل میں مقامی اسکول کے طلبا وطالبات نے بھی حصہ لیا ۔ بچوں کا کہنا تھا لاہور کی فضا میں سانس لینا مشکل ہوچکا ہے۔ یہ پودے ہم اپنے آج اور کل کو محفوظ بنانے کے لئے لگا رہے ہیں۔ ہربچے کے لئے سال میں کم ازکم دو پودے لگانا اور ان کی دیکھ بھال لازمی قرار دی جائے ۔اس سے ہم اپنے شہر اور ملک کو سرسبز وشاداب کرسکتے ہیں اور سموگ کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

پارلیمانی سیکریٹری برائے ماحولیات کنول لیاقت نے بھی شجرکاری کے عمل میں شرکت کی ،انہوں نے کہا شجرکاری صرف درخت لگانے کا نام نہیں، بلکہ انسان اور فطرت کے درمیان ٹوٹے ہوئے رشتے کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش ہے۔

اسکول کے بچوں ،رضاکاروں اور محکمہ جنگلات کے عملے نے 14 ایکڑ رقبے پر پودے لگائے، جو زمین صبح تک ویران نظرآرہی تھی شام کا سورج ڈھلنے تک وہاں پودوں کی بہار نظرآرہی تھی۔ جب آخری  پودا  زمین میں پیوست ہوا تو فضا تالیوں اور گیلی مٹی کی خوشبو سے بھر گئی،  اس یاد دہانی کے ساتھ کہ اصل تبدیلی تب آتی ہے جب لوگ اور ادارے ایک ساتھ بڑھتے ہیں۔

Similar Posts