کالاکلوٹا ایاز

ہماری یہ پاکستانی قوم بھی نا ں… بڑی عجیب وغریب ہے بلکہ غریب وعجیب ہے ، ایک پشتو کہاوت ہے کہ غریب تو تم کو خدا نے بنایا لیکن یہ ’’ عجیب ‘‘ کس نے بنایا ، وہ یوں کہ کسی کی تعریف پر آتی ہے تو ’’ٹرمپ‘‘ کو بھی گوتھ بنا دیتی ہے اوربرائی پر آتی ہے تو خود کو بھی برا بنا لیتی ہے مثلاً علامہ اقبال کو لے لیجیے ہمارے کتنے بڑے محسن ہیں بلکہ ہم ان کے خواب میں رہ رہے ہیں اورکرایہ بھی نہیں دیتے بلکہ یہ بھی ایک بڑی مثال ہے کہ ان کے نام پر کتنے دانا دانشور کھاتے رہے ہیں، کھاتے رہتے ہیں اورکھاتے رہیں گے ، کوئی ان کے فلسفے پر فلسفے چڑھا رہا ہے اورکوئی ان کے خواب میں سے خواب نکال رہا ہے لیکن ان کی باتوں پر بھپتیاں بھی کس رہے ہیں ۔ ایک ہمارے پشاورمیں مرزا محمود سرحدی تھے انھوں نے علامہ کی محبوب ’’خودی ‘‘ پر یوں ناوک اندازی کی ہے کہ

 ہم نے اقبال کاکہا مانا

 اورفاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے

 جھکنے والوں نے رفعتیں دیکھیں

 ہم خودی کو بلند کرتے رہے

حالانکہ ان کو ہم نے دیکھا تھا کہ ایک روزنامہ کی سیڑھیوں کے پاس بیٹھے رہتے اورطفلاں خوش نما پر بھپتیاں کستے رہتے تھے ۔ نہ ان کے آس پاس ہم نے کبھی خودی کو دیکھا نہ اسے بلند کرتے دیکھا، صرف خوش شکل لڑکوں کی ’’خودی‘‘ بلند کرتے رہتے تھے ۔ خیر مرزا صاحب تو مست ملنگ قسم کے آدمی تھے جوکہہ گئے سو کہہ گئے ۔ لیکن آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سارے یونانی حال پاکستانی علامہ کے لتے لے رہے ہیں، خاص طورپر انھوں نے اپنی مشہورنظم شکوہ میں کہا ہے کہ

 آگیا عین لڑائی میں وقت نماز

قبلہ رو ہوکے کھڑی ہوگی یہ قوم حجاز

 ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز

 نہ کوئی بندہ رہا اورنہ کوئی بندہ نواز

محمود وایاز کو لے کریہ لوگ طرح طرح کے قصے بنارہے ہیں ، کئی نے تو باقاعدہ افسانے لکھے ہیں مثلاً ایک مسجد میں نمازکی تیاری ہورہی تھی، لوگ بیٹھے صف بندی کا انتظار کررہے تھے کہ اتنے میں دیوانہ سا آدمی گریبان چاک لباس پر خاک لیے مسجد میں گھس آیا اورلوگوں کو پھلانگ کر آگے بڑھنے لگا ، مسجد کے منتظمین نے اسے پکڑ کر پیچھے دھکا دیا اورکہا کہ پیچھے کی صفوں میں کھڑے ہوجاؤ ۔

اس الول جلول آدمی نے کہا مجھے آگے جانے دو اور پہلی صف میں محمود صاحب کے ساتھ کھڑے ہونے دو۔ محمود صاحب ایک بہت بڑے رئیس اور وزیر تھے، اس لیے منتظمین ایسے مشکوک آدمی کو ان کے قریب کیسے جانے دیتے، وہ اسے پیچھے دھکیلتے رہے اوروہ آگے بڑھنے کے لیے زور لگا رہا تھا، ساتھ ہی چلا بھی رہا تھا کہ مجھے آگے جانے دو اورجناب محمود صاحب کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہونے دو۔تنگ آکر منتظمین نے خود بھی اسے ٹھڈے لگائے اورپھر پولیس کے حوالے کردیا، پولیس والے اسے ڈنڈا ڈولی کرکے تھانے لے گئے اورتفتیش اس پر جاری کردی اس نے کہا میں ایک غریب مزدورہوں ، ایاز میرا نام ہے اورمیں صرف محمود صاحب کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا ہونا چاہتا تھا کہ پولیس والوں نے اس پر اتنا قانون نافذ کیا کہ اس نے اپنی پیدائش سے پہلے اورموت کے بعد ہونے والے جرائم کا بھی اعتراف کرلیا ۔

اب اس قسم کے اور بھی افسانے ڈرامے اورکالم لکھے جانے لگے ہیں جن میں علامہ اقبال کے شعروں پر چوٹیں کی جارہی ہیں ۔ ہم چونکہ سخن فہم بھی ہیں اورعلامہ کے طرف دار بھی کیوں کہ انھوں نے ہم پشتونوں کو بڑا مان سب مان دیا ہے ، ملاحظہ فرمائیے

آسیا بک پیکرآب وگل است

ملت افغاںدرآں پیکر دل است

اورہمیں اپنی محبوب قوم حجاز کے برابررکھا ہوا ہے کہ

 فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی

 اس لیے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کادفاع اورطرف داری کریں۔اچھا ہوا جو منتطمین نے اس احمق شخص کو پولیس اورپولیس نے تفتیش کے حوالے کرکے ملیدہ بنا دیا اور پھر ان اشعار میں ’’قوم حجاز‘‘ کہا گیا ہے اورقوم حجاز محمود وایاز قوم حجاز میں سے نہیں علامہ نے تو محض استعارۃً محمود وایاز کا نام لیا ہے ورنہ محموداورایاز کاتعلق ہی کچھ اورتھا ، محمود نے ایاز کو لڑائی کے لیے رکھا ہی نہیں تھا وہ تو اس کا لاڈلا تھا ، بھلا ایسے لاڈلوں ، نازک انداموں اورقیمتی اثاثوں کو کوئی لڑائیوں میں لے کر جاتا ہے اور بے وقوف اورکیاکچھ کم ہیں مرنے کے لیے ؟ان دونوں کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے علامہ ہی نے کہا ہے ۔

 نہ وہ عشق میں گرمیاں رہیں نہ وہ حسن میں شوخیاں رہیں

 نہ غزلوں میں وہ تڑپ رہی نہ وہ خم رہا زلف ایازمیں

Similar Posts