’’ان کہی‘‘ کی مصنفہ غزالہ خالد

میرے ہاتھ میں غزالہ خالد کی کتاب ہے ، سوچا تھا ایک دو مضامین اور چند پیراگراف پڑھ لوں گی چونکہ اس کتاب کی ضخامت 284 صفحات پر مشتمل ہے لیکن جب پڑھنے بیٹھی تو یقین کیجیے پڑھتی ہی چلی گئی۔

چونکہ غزالہ کی تحریروں میں اپنے آپ کو پڑھوانے کی کشش اور توانائی بدرجہ اتم موجود تھی، تو پھر یوں ہوا کہ ایک ہی نشست میں کئی مضامین میرے مطالعہ میں رہے۔

غزالہ کی تحریروں میں ان کے مزاج کی طرح شائستگی اور شگفتگی پنہاں ہے۔ جس طرح ان کا اپنا لہجہ دھیما اور محبت بھرا ہے ’’ ان کہی‘‘ کے مضامین بھی موسم بہار کا پتا دیتے ہیں، ایک ایک سطر سچائی کی آمیزش سے روشن نظر آتی ہے۔

یہ تحریریں ان کی یاد داشتیں بھی ہیں اور وہ واقعات بھی جن کا وہ حصہ رہی ہیں۔ بڑی دلجمعی اور خلوص کے ساتھ اپنے بیتے دنوں کا ذکر اور یادوں کے چراغ روشن کیے ہیں۔

بہت سے قلم کار اپنی کتاب کو اپنے والدین کے نام منسوب کرتے ہیں، غزالہ نے بھی انتساب اپنے والدین کے نام لکھا ہے، ان کا انداز جداگانہ ہے۔ محبت و عقیدت کی خوشبو نے چاروں سطورکو مہکا دیا ہے۔

’’تعارف اور کچھ ان کہی سی باتیں ‘‘ کے ضمن میں مصنفہ نے اپنا اور اپنے آبا و اجداد کا تذکرہ اور ان کی شعر و شاعری سے محبت، علمیت و قابلیت، شہرت اور نیک نامی کو بیان کیا ہے۔

غزالہ کے دادا کا نام ہدایت علی خان تھا جب کہ ناظر ٹونکی کے تخلص سے شاعری کیا کرتے تھے،کراچی و حیدرآباد میں اپنے مزاحیہ کلام کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے۔ پھوپھا واجد سعیدی اور چچا پروفیسر عنایت علی خان نے شاعری میں خوب نام کمایا۔

غزالہ نے جب لکھنا شروع کیا اور ان کے مضامین شایع ہونے لگے تب خاندان کے خاص رشتوں نے حوصلہ افزائی کی۔ میگزین ایڈیٹر رضیہ فرید احمد نے بھی مزید لکھنے کی لگن پیدا کی اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ غزالہ کا کہنا ہے کہ آج وہ اگر صاحب کتاب ہیں تو میگزین ایڈیٹر رضیہ فرید کی وجہ سے۔

مصنفہ نے حج کا سفرنامہ تحریر کرتے وقت اپنی خوشی اور خوش بختی کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ قاری کے لیے بہت سی معلومات کے در وا ہو جاتے ہیں۔

65 صفحات پر یہ مختصر سفرنامہ مکہ و مدینہ کی زیارت، منیٰ، عرفات اور مزدلفہ، طواف زیارت، سعی حج کے دنوں کی مسحورکن باتوں اور یادوں نے ہر ورق معطر کر دیا ہے جس قدر انھوں نے عبادت کرتے ہوئے لطف اٹھایا ہے اور قلب بے چین کو چین و سکون سے آباد کردیا، سفرنامے کا قاری بھی عبادات کی لذت اور مقامات مقدسہ کی زیارت سے محروم نہیں رہتا ہے۔

ان کی تحریروں کی سادگی اور روانی نے مضامین کو موثر بنا دیا ہے۔ دوران حج کی تربیتی کلاسوں کے دوران ان کی دوستی ایک انجانی مسافر ثمرین اور ان کی والدہ سے ہوئی۔

ابھی دوستی محبت میں بدلی بھی نہ تھی کہ اسی دوران ان کی والدہ سات ذی الحجہ کو منیٰ میں انتقال کرگئیں اور ان کی وہیں پر تدفین ہوئی۔ کس قدر نیک اور نصیبوں والی تھیں، ایسی مبارک موت کا تو ہر مسلمان متمنی ہوتا ہے، جو انھیں نصیب ہوئی۔

ان کا ایک مضمون بعنوان ’’ ہمارا (ان دیکھا) ٹونک‘‘ مذکورہ مضمون کو پڑھتے ہوئے اس بات کا احساس شدت سے ہو رہا ہے کہ مصنفہ کو اپنے آبائی وطن کو نہ دیکھنے کی محرومی اس وجہ سے زیادہ ہے کہ بھرے پرے خاندان میں پرورش پائی۔

انھوں نے اپنے بزرگوں کو ٹونک کی محبت اور یادوں میں گرفتار دیکھا تو غزالہ بھی جانے انجانے میں ان خوابوں کی دنیا میں کھوگئیں جہاں پرسکون خطہ ٹونک تھا، وہاں اس کے مکین آباد تھے ایسے میں انھیں اختر شیرانی کے اشعار یاد آگئے۔

برسات کے موسم اب بھی وہاں

ایسے ہی سہانے ہوتے ہیں

کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں

جھولے اورگانے ہوتے ہیں

اسی مضمون سے ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے۔

اے کاش کوئی پوچھے ظہیر اہلِ سفر سے

آساں نہیں ہوتا در و دیوار سے ہجرت

ٹونک کی محبت میں ڈوب کر انھوں نے حصہ دوم بھی لکھ دیا ہے، اس کی وجہ انھیں بے حد پذیرائی ملی اور قدر دانوں کی فرمائش بھی تھی۔ہیرآباد کی مزید یادیں ’’ کرو گے یاد، تو ہر بات یاد آئے گی‘‘ یہ مضمون بھی غزالہ نے ماضی کی یادوں سے باریک اور صاف و شفاف چلمن کو ہٹاتے ہوئے لکھا ہے۔

ان کی یادوں میں بہت سی چیزوں نے بسیرا کر لیا ہے۔ ہیرآباد جوکہ ان کا گھر ہے اس سے وابستہ بے شمار باتیں، راستے، گلیاں، چوراہا اورگورنمنٹ گرلزکالج المعروف زبیدہ کالج اور اپنا ڈیڑھ سو گزکا گھر اور خونی رشتے انھیں بے کل کر دیتے ہیں۔

ان کی پرورش علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی، ان کے گھر کا ماحول تہذیب و تمدن اور اسلامی تعلیمات سے مزین تھا۔ مہمان نوازی، رکھ رکھاؤ اور رشتوں کا احترام، چھوٹے پیشوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جن میں چوڑی بیچنے، خشک میوہ جات اور دوسری اشیا فروخت کرنے والیاں گھر میں رونق کا باعث بنتیں۔

غرض ان کی ہر تحریرگزرے دنوں کی یادوں سے روشن ہے۔’’ ایک کہانی میری زبانی‘‘ اب یہ کہانی ہے، مضمون ہے یا آپ بیتی ہے غزالہ کا لاکٹ گم ہو جانا اور پھر اٹھارہ سال بعد مل جانا، بے شک اللہ کا کرم ہے اسی حوالے سے ان کے یہ اشعار قابل توجہ ہیں۔

وہ عطا کرے تو کمال اس کا

وہ نہ دے تو کوئی ملال نہیں

میرے رب کے فیصلے کمال ہیں

ان فیصلوں میں زوال نہیں

گزشتہ دنوں ’’چاک فورم‘‘ جس کی روح رواں ممتاز افسانہ نگار صائمہ صمیم ہیں، صائمہ نے ایک خوبصورت اور یادگار تقریب کا اہتمام فریئر ہال کی لائبریری میں کیا، صدارت راقم السطورکی تھی، اس نشست میں کئی افسانے سننے کو ملے۔

ایک مضمون ’’ تمدن کی بجھتی شمعیں اوئی اللہ والی مستورات‘‘ بھی ہماری سماعتوں سے گزرا، گزارنے والی غزالہ خالد تھیں۔ یہ نثر پارہ ایک ’’شاہکار‘‘ مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔

مضمون محاوروں اور ان کی معنویت پر مبنی ہے چند محاورے آپ بھی سنیں، لکھتی ہیں کہ’’ آج کل اردو زبان کا مستقبل انگریزی کی وجہ سے سخت خطرے میں ہے، جہاں اردو کے مشکل الفاظ عام بول چال سے غائب ہو رہے ہیں، وہیں محاوروں کا استعمال بھی برائے نام رہ گیا ہے،کیونکہ اگر انگلش میڈیم کے بچوں کے سامنے یہ محاورے بولیں کہ اپنا رکھ، پرایا چکھ، بدن پر نہ لتہ پان کھائیں، البتہ یا جہاں دیکھی تری وہیں بجھائی دری۔

میں غزالہ خالد کو اس دعا کے ساتھ مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ ان کا قلم یوں ہی علم و ادب کے موتی صفحہ قرطاس پر بکھیرتا رہے۔ (آمین)

Similar Posts