عشق کی منزل تھکنے کے باوجود نہ ختم ہوتی ہے اور نہ ہی عشق میں منزل کو سرکرنے کی جستجو و لگن ہار مانتی ہے، ہماری حیات وکائنات کو جب میرا شاہو اور باقی سب کے لیے سندھی ترقی پسند ادب کا کوی/ شاعر شاہ محمد پیرزادو عشق کے دائرے یا احساس بھرے رشتوں کو ایک عاشق کی نظر سے دیکھتا ہے تو نہ وہ اردگرد کی پرواہ کرتا ہے اور نہ اسے اپنے عشق کرنے کے جرم میں کسی کی تہمتوں کی پرواہ ہوتی ہے۔
یہ عشق کی وہ منزل ہوتی ہے جس میں گم ہونے کا احساس زندگی کے نئے زاویے اور نئے مفاہیم پیدا کرتا ہے۔
سندھی ادب کے ترقی پسند فکرکے شاعر شاہ محمد پیر زادو کی حسیاتی کیفیت اور تخلیق کی نئی کتاب’’ عشق تی سو تھمتوں‘‘ میں آپ ’’شاہو‘‘ کے دھرتی، فکری آدرش، تہذیب اور احساسات سے عشق کے رشتے کو بآسانی تلاش کر لیں گے۔
شاہ محمد اپنے شاعری کے خیالات میں بھی ایک ایسا فرد نظر آئے گا جو بہت کچھ کہنے کی تڑپ رکھتے ہوئے بھی مروتوں کا ایک ایسا شرمیلا بالک لگے جو اپنی معصوم خواہش کا صرف اس وجہ سے کھل کر اظہار نہیں کر پاتا کہ کہیں اس کے کسی لفظ یا استعارے سے اس کا انسانی عشق دھندلا نہ جائے۔
وہ چاہتا ہے تو ٹوٹ کر اور فریفتہ ہوتا ہے تو سب کچھ وارنے پر تیار رہتا ہے اور خود تنہا رہ کر اپنے عشق کی اٹھکیلیوں کا مزا لیتا رہتا ہے، یقین نہ آئے تو دیکھیے کہ شاہ محمد پیرزادو کتنی خوبصورتی اور تہذیب کے دائرے میں اپنے عشق کو یاد کر رہا ہے کہ…
یاد میری
کسی کی آنکھیں
جو نم کردے۔
بات میری
جو پرانی
گر سبب ہو
کسی کے مسکرانے کا
کوئی پریشانی
ہو کسی کی
لے کر مرے پاس آئے
عیب کرکے بھی
گر معافی ملے
پھر بھلا اور کیا چاہیے
اس زندگی میں…
محبوب کے پاس جانے کے حیلے بہانے تراشتا ہو شاہ محمد پیرزادو جہاں مضبوط ہے وہیں دوسری طرف اس کے گداز احساسات چیخ چیخ کر اس کو ماضی میں لے جاکر خوش کرنا چاہتے ہیں، اسے مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔
مگر شاید شاہ محمد پیرزادو اپنے نامکمل ہونے ہی کو عشق کی تکمیل کی راہ گردانتا ہے، وہ اپنے عشق کی کسی بھی لمحے تکمیل نہیں چاہتا اور یہی کسی بھی شاعر و ادیب کے احساس و تخلیق کا وہ نکتہ حاصل ہے جس پر عشق عمومی طور پر امر ہو کر سر خرو ہوتے ہیں۔
شاہ محمد پیرزادو ایسے عاشق کا جنم سیاسی فکری اور سندھو کے پہلو سے لگی’’ بلھڑیجی‘‘ کی اس زرخیز زمیں پر ہوا ہے، جس کے ہرگھر میں صبح کی خنکی میں شاہ لطیف کی کافی کے سر پھوٹتے ہیں تو شام ڈھلے شاہ لطیف کے سر سامونڈی اور سر کلیان ’’ بلہڑیجی‘‘ کی فضاؤں میں پھیل کرگاؤں کی کچہری میں ہر فرد کے چہرے اور چلِم کو تر و تازہ کیے رکھتے ہیں۔
کمیونسٹ آدرشوں سے عشق کرنے والے ’’ بلہڑیجی‘‘ کے فرزندوں نے ہمیشہ کمیونسٹ شعورکے دیے جلائے اور پیروں کے زادوں کی اس سر زمین پر ہمیشہ امید، لکھنے پڑھنے اور ترقی پسند سیاست سے عشق کیا۔
شاہ محمد پیرزادو نے عملی طور پرکمیونسٹ سیاست میں اپنے خوبصورت احساس کے ساتھ حصہ لیا، بھرپور طور پر سیاسی و فکری بحثوں میں تہذیب سے علم و شعور اور دلیل کی بنیاد پر اپنا نکتہ نظر رکھا۔
سیاست سے عشق نے جب شاہ محمد پیرزادو کے ذہن کے دریچے وا کیے تو شاہ محمد پیرزادو نے اپنے نظریاتی ساتھیوں کے ساتھ اس وقت کمیونسٹ سیاست کی جب کراچی میں لسانی نفرتیں اپنے عروج پر توپ و تفنگ کے رکھوالوں کی تقسیم کرنے والی سیاست کی بنیاد ڈال رہی تھیں۔
یہ وہ دور تھا جب شاہ محمد پیرزادو اپنے سوچنے والے دوستوں انور ابڑو، رؤف نظامانی، جان خاصخیلی، چندرکیسوانی، ف۔م۔ لاشاری اور عطیہ داؤد کے ساتھ سندھی ادبی سنگت کے ترقی پسند خیالات اور فکر کو کراچی میں پھیلا رہے تھے اور یہ سب دوست ہر ہر لمحے انجمن ترقی پسند مصنفین کے ہم رکاب و ہمراہی تھے۔
شاہ محمد پیرزادو کے یہ وہ ساتھی تھے جن میں سماج کو ترقی پسند اور روشن خیال کرنے کی فکرکا عشق موجود تھا، مارا ماری کے لسانی دور میں یہ سیاسی و فکری شعور کے وہ دوست تھے جوکراچی میں گولیوں، ہڑتالوں، شٹر بند ہڑتالوں کے خوف سے بے پرواہ سندھی ادبی سنگت اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے پلیٹ فارم سے امن، محبت روا داری اور برداشت کا دیپ جلا رہے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب شاہ محمد پیرزادو سمیت تمام دوست کمیونسٹ فکرکے عشق میں ہر انسان سے عشق کرنے کے گیت گنگنانے کی کوشش میں کبھی شاہد بھٹو،حنیف لاشاری، زلف پیرزادو، بیدل مسرورکی سنگت میں ’’ وائسزگروپ‘‘ کے ذریعے فیض اور شیخ ایاز کے امن پرور ترانے گوا رہے تھے توکہیں یہ سب نظریاتی دوست منصور سعید اور اسلم اظہرکے ساتھ ’’ دستک گروپ‘‘ کے ذریعے عوامی شعورکی آگاہی کے لیے اسٹریٹ تھیٹرکر رہے تھے۔
یہ سب وہ دوست ساتھی سنگی اور نظریاتی عشق کے دھتی لوگ تھے جن کو سنوارنے نکھارنے اور ان میں انسانی محبت کا عشق پیدا کرنے میں کمیونسٹ قیادت کا ہاتھ تھا، یہی وہ وجہ تھی کہ شاہ محمد پیرزادو ذہنی بالغ پن کے تحت تنظیمی جڑاؤ کے وہ عشق پردار ٹہرے جن کے۔
ارد گرد امن پرستوں اور محبت تقسیم کرنے والے جمع ہوئے اور اپنی تحاریر، صحافت، شاعری، افسانے اور اپنے نظریاتی آدرش سے عشق کیا، امن کے پرتو بنے اور اس شہرکراچی میں انتہائی نامساعد حالات میں شاہ لطیف کی لاٹ کی روشنی پھیلائی اور اپنے سماجی عشق کی شاعری سے انسانوں میں امید کے چراغ جلائے۔
اس سے قبل شاہ محمد پیرزادوکی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’ سونھن جی سو صورتوں‘‘ 2003 میں چھپ کر منظر عام پرآچکا ہے جس میں میرا ’’شاہو‘‘ حسن کی سو صورتیں تلاش کرتا کرتا آخرکار 2025 میں حسن و عشق کے مابین اب تک تہمتوں تک ہی پہنچا ہے۔
گویا شاہ محمد پیرزادو اب بھی حسن و عشق کے مختلف زاویوں کی تلاش میں کبھی دیس اورکبھی بدیس بنجارے کی طرح گھومتا پھرتا رہتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ حسن و عشق کا یہ ملنگ اپنے جنون کے اس نکتے پر ضرور پہنچے گا جو شاید اس کے حسن و عشق کی پیوند کاری کا خزانہ ہوں اور شاہ محمد کے عشق کا وہ اطمینان ہوں۔
شاہ محمد پیرزادو اپنی نظریاتی تڑپ اورکمیونسٹ نظریے کی گم ہوتی ہوئی سچائی پر بھی اپنی شاعری میں ایک محروم عاشق کی اس چیخ کا اظہارکرتا ہوا نظر آئے گا جو نظریے کے گم گشتہ فلسفے میں نہایت تکلیف میں بے بسی کی تصویر نہیں بلکہ وہ کمیونسٹ عشق کے آخری انسان کی خوشحالی کا متمنی ہوگا۔
شاہ محمد پیرزادوکو نجانے کیوں یقین ہے کہ اس کے نظریاتی آدرش اور اس کے عشق پر تہمتیں لگانے والے علم و شعورکی ترقی پسند سوچ اور ادراک کی روشنی میں ایک روز ضرور اس کی سوچ کی ہمراہی ہوجائیں گے، بس یہی وہ مقام ہوگا جب ہم سب دوست شاہ محمد پیرزادو کی شاعری کے عشق کے ساتھاری ہونگے اور سب مل کر امن، رواداری اور پیار کے گیت گائیں گے۔