اسی طرح اردو زبان برصغیر کی مشترکہ روایتی تہذیب و ثقافت کی نمایندہ زبان ہے جس میں فارسی، عربی، ترکی اور ہندی کے الفاظ کی آمیزش کی وجہ سے دنیا کی خوبصورت زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری قوم انگریزی کے سحر میں مبتلا ہوکر اپنی ہی قومی اور مادری زبان کے زوال کا سبب بن رہی ہے۔ یوں سمجھیے کہ انگریزی بولنا ہماری اشرافیہ کی سر بلندی کی علامت بن چکا ہے۔
ایک دور تھا جب پاکستان کی تمام جامعات میں انسانی طرز عمل کے علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ حالات بدلتے چلے گئے اور یوں لوگوں کا رجحان سائنسی علوم کی جانب بڑھنے لگا۔ لسانیات کا باب اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔
البتہ اردو ادب کی ترقی و ترویج کے لیے پاکستان میں اس وقت بھی کچھ ادارے کام کر رہے ہیں۔ اردو ادب میں شعر و سخن، نثر ، نظم، ؔغزل، افسانہ نگاری، مکالمہ جیسی اصناف اردو ادب کی واضح شناخت ہیں۔ شاعری ایک تخلیقی و تحقیقی عمل ہے جو نہایت مختصر الفاظ میں پورے مضمون کی وضاحت کر دیتی ہے۔
اس صنف میں برصغیر پاک و ہند میں بڑے بڑے نامور شعرا گزرے ہیں اور کچھ تو ماشااللہ بقید حیات ہیں۔ انھی شہرہ آفاق شخصیات میں ایک معروف نام ڈاکٹر سید ہلال نقوی کا بھی ہے جنھوں نے اردو ادب کے شعبے میں خدمت کے پچاس برس پورے کر لیے۔
ڈاکٹر صاحب کا آبائی تعلق ہندوستان کے شہر امروہہ سے ہے جو لکھنو کے بعد شعر و سخن اور فنون لطیفہ کا مرکز ہے۔ رئیس امروہوی، جون ایلیا، صادقین اور ساقی امروہوی جیسے عالمی شہرت یافتہ شعرا امروہہ کی زرخیز مٹی کی پیداوار ہیں۔
اردو ادب میں ڈاکٹر ہلال ایک شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے غزلیں بھی لکھی ہیں۔ اردو شاعری میں ان کی پہچان نظم اور مرثیہ ہے۔ دنیائے علم و فن میں انھوں نے تحقیق و تدوین میں بھی بڑی جانفشانی کے ساتھ قابل تعریف و ستائش کام کیا، وہ لگ بھگ 48 سے زائد تصانیف کے مصنف و مدون رہے ہیں۔
رثائی ادب، جوش شناسی اور میراث کے ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔ فن شاعری اور ادبی سفر کے پس منظر میں لندن ، کینیڈا ، ناروے ، سعودی عرب کے شہر جدہ ، دبئی ، مسقط، دوحہ قطر اور ہندوستان کے ادبی حلقوں کے سیمیناروں میں نہ صرف اعلیٰ قسم کے اشعار سنا کر سامعین سے خوب داد سمیٹ چکے ہیں بلکہ اپنے تیار کردہ مقالے بھی پڑھ چکے ہیں جنہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
انجمن سادات امروہہ کے زیر اہتمام معروف شاعر و ادیب، نقاد، نثر نگار ڈاکٹر ہلال نقوی کی اردو ادب میں خدمات پر پچاس سال مکمل ہونے پر کراچی میں جشن زرین کا اہتمام کیا۔
تقریب کی صدارت معروف شاعر پروفیسر سحر انصاری نے کی اور نظامت کے فرائض معروف شاعرہ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے سرانجام دیے۔ مقررین میں ڈاکٹر جعفر احمد، فراست رضوی ، ہادی عسکری اور محمد سبطین شامل تھے، جب کہ جمیل الدین عالی ، علامہ کلب صادق ، رضا علی عابدی اور پروفیسر ڈاکٹر سحر انصاری کی ڈاکٹر ہلال نقوی کی ادبی شخصیت پر تبصرہ پر ریکارڈ آرکائیو ویڈیوز نشر کی گئیں۔
انجمن سادات امروہہ نے ڈاکٹر ہلال نقوی کے تعارفی احوال کا تذکرہ دو صفحات پر مشتمل یادگاری بروشر کی شکل میں شایع کیا ہے جس کے مطابق ڈاکٹر صاحب 18مارچ 1948کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم مسلم اسکول راولپنڈی سے حاصل کرنے کے بعد کراچی تشریف لے آئے جہاں انھوں نے سراج ا لدولہ کالج سے انٹرمیڈیٹ اور پھر گریجویشن کیا۔ 1974میں کراچی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرکیا اور اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔
بنیادی طور پر ان کا اسی شعبہ میں درس و تدریس کا پیشہ تھا اور یوں مختلف تعلیمی اداروں میں بطور پروفیسر اردو ادب کے مضامین پڑھاتے رہے۔ موصوف گورنمنٹ ڈگری کالج،گلستان جوہر،کراچی کے شعبہ اردو کے صدر بھی رہے۔ علاوہ ازیں کراچی یونیورسٹی کے زیر انتظام پاکستان اسٹڈی سینٹر میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر وابستہ رہے۔
شعر و ادب میں جوش ملیح آبادی ، نسیم امروہوی اور پروفیسر مجتبیٰ حسین جیسے نامور شعر ا ان کے اساتذہ رہے۔ مقبول شاعرہ ڈاکٹر عنبرین حسیب کہتی ہیں کہ جشن زرین ایک شخصیت کا جشن نہیں ہے بلکہ یہ ایک عہد سخن کا واضح اعتراف ہے، ایک محنت کی روشن داستان جس کا تسلسل آج ہم اور آپ تک پہنچا ہے۔
آج صرف خوشی ہی کا نہیں بلکہ فخرکا بھی ہے کہ ہم آج اس شخصیت کا جشن منا رہے ہیں جس نے اردو مرثیہ کو عمیق فکر اور احساس کے ساتھ نئی جہتیں عطا کیں۔ ڈاکٹر ہلال صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک عہد کا حوالہ ہے۔
انھوں نے اپنے قلم سے مرثیہ کو غم کی روایت کی حدود سے نکال کر فکری وسعتیں، تنقیدی اور تحقیقی گہرائیوں کے ساتھ مختلف جہتیں عطا کی ہیں ۔صدر انجمن سید ساجد رضا تقوی نے کہا کہ ڈاکٹر ہلال نہ صرف ایک شاعر ہیں بلکہ وہ بلند پایہ نقاد ، نثر نگار اور مرثیہ نگار ہیں۔
انھوں نے جوش کی شاعری پر محنت جانفشانی سے ریسرچ کی۔ جوش نے انہیں اپنا اولین شاگرد قرار دیا جب کہ اردو ادب ، لسانی امور اور مرثیہ کے ممتاز شاعر نسیم امروہوی نے اپنی خود نوشت میں انہیں اپنا ’’ فرزند معنوی‘‘ لکھا ہے جو بلاشبہ بڑے اعزاز کی بات ہے۔
فراست رضوی نے نہایت معلومات پر مبنی ڈاکٹر ہلال کے اردو ادب پر خدمات اور ان کی شخصیت کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ بطور محقق ان کا کام بڑا منفرد ہے۔ امروہہ نے شاید دو ہی بڑے محقق پیدا کیے، ایک افسر امروہوی اور دوسرے ڈاکٹر ہلال نقوی جو یقینا بہت بڑی بات ہے۔
تنقید ی شعور اور زندگی کے ایک بڑے ویژن کے بغیر تحقیق نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے ہاں تحقیق کا معیار یہ ہے کہ تحقیق کو جمع آوری سمجھا جاتا ہے۔ اپنے تبصرے کے اختتام پر انھوں نے کہا کہ یہ ہلا ل نہیں، بلکہ یہ اردو ادب، اردو مرثیہ اور جوش شناسی کا ایک بدرکامل ہیں۔
محمد سبطین نے کہا کہ ڈاکٹر ہلال نقوی کو صنف مرثیہ سے دیوانگی کی حد تک عشق ہے کیونکہ اردو مرثیہ اپنے دیگر اہم لسانی امتیازات کے علاوہ انسانی رشتوں کی سب سے بڑی شاعری ہے۔ وہ مرثیہ کے نہ صرف خالق ہیں بلکہ محقق اور ناقد بھی ہیں، اس اعتبار سے اپنے عہد میں نمایاں مقام رکھتے ہوئے وہ جدید مرثیہ نگاری کے ایک مسلمہ ستون ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سحر انصاری نے اپنے صدارتی تبصرے میں کہا کہ ڈاکٹر ہلال نقوی اپنے بڑوں کی بہت عزت کرتے ہیں بلکہ اپنے چھوٹوں کے ساتھ بھی بڑی محبت سے پیش آتے ہیں، لیکن تین شخصیتوں کو خاص طور پر انھوں نے بہت اہم سمجھا، ان میں ایک جوش ملیح آبادی، دوسرے نسیم امروہوی اور تیسرے پروفیسر مجتبیٰ حسین۔
تینوں کے لیے بڑے اہم کام انھوں نے کیے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا کہ ڈاکٹر ہلال کا قابل ذکر پہلو جو سماجی علوم سے وابستہ کسی بھی طالبعلم کی نظر میں آسکتا ہے وہ یہ کہ انھوں نے رثائی ادب کو صرف ادب کے مروجہ معیارات سے دیکھنے پر اکتفا نہیں کیا۔
وہ خود بھی جدید مرثیہ کے شاعر قرار دیے جاتے ہیں۔ ان کے لیے یہ اعزازکی بات ہے کہ جوش، فیض احمد فیض، پروفیسر ممتاز حسین، سردارجعفری، کیفی اعظمیٰ، پروفیسر مجتبی حسین اور پروفیسر سحر انصاری نے ان کو جدید مرثیہ کے نمایندہ شاعرکی حیثیت میں تسلیم کیا ہے۔
بقول ہادی عسکری میرا تعلق ڈاکٹر ہلال سے چالیس برس سے زائد کا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب خوش نصیب ہیں کہ آ پ کو جوش ملیح آبادی، پروفیسر مجتبیٰ حسین اور ممتاز حسن ملے۔ اے خالق ارض و سما، ڈاکٹر صاحب کو صحت و تندرستی کے ساتھ طویل عمر عطا کرے۔ (آمین)