چونکہ یہ اِس (امر) کے لیے اوّلین شرط ہے ، اس لیے جتنی جلد ہم ’ہندوستانیت‘ سے چھُٹکارا حاصل کرلیں، اُتنا ہی ہم سب کے لیے اور اِسلام کے لیے بہتر ہوگا‘‘۔ {چودھری رحمت علی، بانی بزمِ شبلی، طالب علم اسلامیہ کالج، لاہور کے تاسیسی اجلاس سے تاریخی خطاب سے اقتباس}
تاریخِ عالم میں ایسی نامور شخصیات کی تعداد اچھی خاصی ہے جنھوں نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ، لوگوں کے دل جیت لیے، مگر اُن کی شخصیت ، نجی زندگی اور عوامی سطح پر کیے جانے والے کاموں کے بارے میں منفی نوعیت کے انکشافات سامنے آئے۔ آج کل بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بڑا ہونے کے لیے مشہور ہونا اور مشہور ہونے کے لیے متنازعہ فِیہ ہونا ضروری یا اچھا ہوتا ہے۔ سُوئے اتفاق کہ اس فہرست میں ایسے نیک نام بھی شامل ہوجاتے ہیں جن کی نجی وعوامی زندگی بالکل بے داغ اور ہر خاص وعام کے لیے مفید ،کارآمد اور کرم فرما ہوتی ہے۔
ایسا ہی ایک نام ہے چودھری رحمت علی کا جنھوں نے خطۂ ہند میں فقط ایک نہیں،کئی ایک الگ آزاد، خودمختار وخوش حال ریاستوں کی تشکیل کا منصوبہ پیش کیا، اس خطّے کو برِّصغیر یا برّعظیم کی بجائے ’دِینیا‘ کا نام دیا اور قرار دیا کہ یہ خطّہ بجائے خود، پورا ایک برّاعظم ہے نہ کہ مُلک۔ ایسا نابغہ اپنے ہی ملک اور قوم میں متنازعہ فِیہ کیسے ہوسکتا ہے؟ چودھری رحمت علی کے ساتھ یہی ہوا کہ بقول شاعر:
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی، سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل ِ چمن ، یہ چمن ہے ہمارا، تمھارا نہیں
(قمرؔجلالوی)
1915ء میں اسلامیہ کالج، لاہور (ریلوے روڈ) میں طُلَبہ نے علامہ شبلی نعمانی کی یاد میں ایک انجمن قائم کی جس کا نام رکھا ’بز مِ شبلی‘۔ شبلی کی وفات پچھلے ہی سال ہوئی تھی اور علمی وسیاسی حلقوں میں اس سانحہ ارتحال کی گونج باقی تھی۔ ایسے میں بارہویں جماعت کے طالب علم چودھری رحمت علی نے یہ کام کیا جس سے شبلی جیسے نابغہ کی یاد میں ایک مشعل روشن ہوئی۔ اس بزم کے تأسیسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بانی نے شمال مغربی ہند میں ایک الگ آزاد ، خودمختار مسلم ریاست کا تصوّر پیش کیا جسے 1933ء میں ’پاکستان‘ جیسا منفرد نام بھی دیا۔
{چودھری رحمت علی سے متعلق یا وَہ گوئی کرنے والے یہ بے تُکی بات بھی کرتے ہیں کہ پاکستان نام کا ایک ملک تو پہلے ہی موجود تھا اور پھر اُس کی نشان دہی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ، بقول دروغ گو رَاوی، چودھری صاحب نے طلبہ کے ایک وفد سے ملاقات کی جو تُرکستان یعنی وسطِ ایشیا کے اُسی ملک سے آیا تھا، تبھی انھوں نے ایک آسان راہ سوچی اور اپنے خاکے میں آزاد مسلم ملک کا نام پاکستان رکھ دیا۔ کئی بار وضاحت کرنے کے بعد، آج پھر اس مضمون میں دُہراتا ہوں کہ قرہ قلپاق قوم کے وطن کا نام قرہ قلپاقستان [Karakalpakstan] ہے جو موجودہ اُزبکستان کا حصہ ہے اور اِسے آزاد جمہوریہ کی حیثیت حاصل ہے۔
(خاکسارکے آنلائن دستیاب مضمون بعنوان ’’الف سے اپنا، بے سے بہتر، پے سے پاکستان‘‘ بہ سلسلہ سخن شناسی، روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین، مؤرخہ 13اگست 2017ء میں بھی یہ وضاحت شامل ہے: https://www.express.pk/story/903290/ alf-se-apna-be-se-bhtr-pe-se-pakstan-903290)۔اس جھوٹے پرچار کو تقویت دینے والے تھے، لسانی تحقیق کے مشہور کالم نگار، معروف صحافی خالد احمد، جنھوں نے رُوس کے ایک مصنف کی کسی کتاب میں یہ نام لکھا ہوا دیکھا تو اَپنی فہم کے مطابق، اِس کے ہجّے ’قل۔پاکستان‘ لکھ دیے۔ (وہیں سے لوگ لے اُڑے کہ جناب جب ایک لسانی محقق لکھ رہا ہے تو صحیح ہی ہوگا ;ایک صاحب نے خالد صاحب کی بات کی تائید کرتے ہوئے یہ بھی ہانکی کہ دیکھا جائے تو پنجابی کے حساب سے یہ ’پاکستان‘ ہی پڑھا جائے گا)۔ کچھ بعید نہیں کہ خالد صاحب نے ایسا اس لیے کیا ہو کہ اُن کے اپنے رہنما، پاکستان کے دوسرے وزیرخارجہ سَر ظفراللّہ قادیانی، چودھری رحمت علی کی ’پاکستان اسکیم‘ کے مخالف تھے۔ آج جب چودھری رحمت علی کے یوم ولادت (16نومبر) کی مناسبت سے یہ مضمون تحریرکررہا ہوں تو مزید تفصیل بھی لکھ دوں تاکہ نئے سرے سے، سوشل میڈیا پر بے پَر کی اُڑانے والے اپنے’’ چچا گُوگل‘‘ ہی سے تصدیق کرکے اپنے جھوٹے پرچار سے توبہ کرلیں۔ قرہ قلپاقستان، ازبکستان کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ یہ جمہوریہ ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار چھَے سو مربع کلومیٹر (km² 166,600) پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا صدرمقام نُکُوس (Nukus) ہے جس کا تلفظ مختلف زبانوں میں مختلف ہے۔ یہاں قرہ قلپاق (Karakalpak) نامی تُرکی الاصل زبان بولی جاتی ہے، اس کے علاوہ اُزبک ، قزاق اور تُرکمان قومیں بھی موجود ہیں جو اَپنی اَپنی زبانیں بولتی ہیں۔ مشرق میں، اس جمہوریہ نے صحرائے قِزِل قُم (Kyzylkum Desert)کا مغربی حصہ گھیرا ہوا ہے}۔
آج پاکستان میں ایسے لوگ بے شمار ہیں جو اَپنے اس عظیم محسن کا فقط نام ہی جانتے ہیں اور بہت ہوا تو یہ کہ انھوں نے اس ملک کا نام رکھا تھا۔ کتنے ہی بے خبر لوگ ایسے ہیں کہ اپنے منفرد قائد، مدبر اور اِنتہائی غیرمعمولی بصیرت کے حامل سیاسی رہنما کے تحریک ِ پاکستان میں کلیدی کردار سے ناواقف ہیں۔
اس کے برعکس 2011ء میں ایک مخالفانہ مہم کا آغاز ہوا جس کے پرچارِک بظاہر ایک تجربہ کار محقق تھے، مگر پس پردہ ایک ہی نکتہ کارفرما تھا کہ پاکستان کی تحریک و قیام ودیگر متعلق موضوعات کے سرنامہ پر کسی اور (غیرمعروف) شخص کا نام کندہ کرکے لوگوں کو بتایا جائے کہ چودھری رحمت علی کا کوئی کارنامہ نہیں۔ اس مہم کا جواب بھی بالتحقیق دیا گیا، اوّل اوّل راقم سہیل احمد صدیقی نے اپنے مضمون بعنوان ’’لفظِ پاکستان کا خالق کون؟ …………چند معروضات‘‘، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ 5جون 2011ء (مطابق 2رجب المرجب 1432ھ) سے اس کا رَدّ کیا، پھر دیگر محققین بشمول پروفیسر زید بن عمر و پروفیسر جمیل احمد کھٹانہ نے مضامین لکھے اور شُدہ شُدہ یہ سلسلہ چل نکلا، (انتہائی دل چسپ اور لائق تحسین بات یہ ہے کہ پروفیسر جمیل احمد کھٹانہ نے اپنی تحقیق جاری رکھتے ہوئے علامہ غلام حسن کاظمی کے ایک جگری دوست جناب مخلص ؔ وجدانی سے انٹرویو کیا جس میں موصوف نے واضح طور پر کہا کہ ہم نے کبھی کاظمی صاحب کے مُنھ سے کوئی ایسی بات سُنی نہ دعویٰ۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ کم ازکم ہمیں ضرور بتاتے۔
اُن کی وفات کے طویل عرصے کے بعد، اُن کے ایک بیٹے نے مہم چلائی تو (متعلق لوگوں کی بے حسی اور عدم توجہ کے سبب)، نوبت بہ ایں جا رسیدکہ، فقط ایک ہی مضمون کی بنیاد پر، پہلے ایک صاحب کو، اسی موضوع پر ایک سرکاری جامعہ سے ایم۔فِل کروایاگیا اور پھر اُسے بنیاد بناکر، ریاست آزاد جمّوں و کشمیر کے تعلیمی نصاب سے چودھری رحمت علی کا نام نکال دیا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ’محقق‘ موصوف نے انہی’ فرزند‘ کے دیے ہوئے مواد کو کافی سمجھتے ہوئے ’انکشاف ‘ فرمادیا اور آج چودہ برس سے زائد کا عرصہ گزرا، خاکسار کے مضمون کا جواب نہ لکھ سکے۔ کسی بھی معاملے میں، خصوصاً تاریخ میں بغیر تحقیق کوئی چلتی ہوئی بات لے اُچکنا اور اُسے تحقیق کا ٹھپّہ لگاکر پیش کردینا ہرگز مستحسن نہیں!
چودھری رحمت علی کے بارے میں مخالفانہ مہم کے باقاعدہ آغاز سے قبل بھی لوگ اِدھر اُدھر سے کوئی نہ کوئی نکتہ نکال کر اُنھیں بُرا بھلا کہتے رہے اور اُن میں کسی نے کبھی تحقیق کی زحمت نہیں اُٹھائی کہ تحریک ِ پاکستان کے دور لکھی گئی کتب وجرائد سے استفادہ کرکے یہ دیکھتے کہ فُلاں الزام کتنا صحیح ہے اور فُلاں کتنا۔ آج کے مضمون میں ایسے چند الزامات کا سرسری جائزہ پیش کیا جائے گا:
کیا یہ بات ثابت ہے کہ بزمِ شبلی کے تأسیسی اجلاس سے چودھری رحمت علی نے خطاب کیا اور اپنا منصوبہ پیش کیا؟
اس تاریخی تقریب اور چودھری موصوف کے خطاب کی کئی حاضرین نے گواہی دی اور یہ گواہی متعدد جگہ نقل کی گئی۔ ماقبل میرے مضامین میں اس بابت ذکر آچکا ہے ; مزید برآں، میاں غلام قادر (والدِ میاں شجاع الرحمن، سابق میئر لاہور) خود حاضر اور سامع تھے۔ اُن کا بیان ’’یارانِ مکتب از بیدار ملِک‘‘ نامی کتاب میں شامل ایک انٹرویو کا حصہ ہے۔ اسی کتاب میں غلام رسول مہر، مدیرروزنامہ انقلاب، لاہور کی شُنیدہ روایت شامل ہے۔ اغلب امکان ہے کہ جنگ عظیم اوّل میں حکومت کی طرف سے سخت پابندیوں کے باعث، چودھری رحمت علی کی ایسی کسی ’حرکت‘ کی اخبارات وجرائد میں اشاعت روک دی گئی ہوگی۔
چودھری رحمت علی کے ایک ساتھی فضل کریم خان دُرّانی نے اُن کے زمانہ طالب علمی میں ایسی انقلابی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی تصدیق کی تھی۔ علاوہ اَزِیں ایک انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز، لاہور میں مؤرخہ 3مئی 1964ء کو شایع ہونے والے ریاض اے قریشی کے بیان سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ 1923ء میں لاکالج، لاہور میں اُن کے ہم جماعت چودھری رحمت علی مسلم، سکھ اور دَراوڑ اقلّیتوں کے الگ وطن کا نظریہ پیش کرکے نمایاں اور ہندوؤں کے نزدیک خطرناک ہوچکے تھے ، لہٰذا کچھ ہندو طُلَبہ نے کالج کے ہندو پرنسپل، چٹر جی سے شکایت بھی کی تھی کہ رحمت علی مسلمانوں کے الگ وطن کی باتیں کرتا ہے۔ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ یہ تنظیم ایک خفیہ تنظیم تھی (Underground کا بھونڈا ترجمہ ہمارے بعض بڑے بھی ’زیرِزمین‘ کرتے ہیں) جس سے خود، بانی کا الگ ہونا منقول ہے کیونکہ دیگر مذاہب کے لوگ مسلمانوں کے لیے جُداگانہ ریاست کے تصور میں بالکل بھی دل چسپی نہیں لیتے تھے۔ کالج کے ایک طالب علم کا اس قدر بلوغت ِ سیاسی کا ثبوت دینا بھی کوئی معمولی بات نہ تھی۔
علاوہ اَزیں، چودھری رحمت علی پر فاشسٹ اور اِنگریز سرکار کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا جس کا کوئی ثبوت کہیں سے نہیں ملتا،یہ شوشہ بھی چھوڑا گیا کہ چودھری رحمت علی کا پمفلٹ Now or Never(اب یا کبھی نہیں) اقبالؔ نے لکھوایا تھا، حالانکہ اقبال ؔ کے خطبہ الہ آباد میں آزاد مسلم ریاست کا مطالبہ شامل نہیں تھا، چہ جائیکہ وہ ایسی کسی تحریک کا حصہ بنتے۔ یہ بھونڈا الزام بھی لگادیا گیا کہ اُن کا تصورِ برّاعظم دِینیا، متحدہ ہندوستان کی تائید کرتا ہے، حالانکہ حقیقت برعکس ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ چودھری رحمت علی اپنے تصوّرِ اسلامی نشاۃ ثانیہ سے دستبردار ہوگئے تھے، جبکہ اُن کی پوری زندگی ہی اس مشن کے لیے وقف تھی۔
چودھری رحمت علی نہ صرف پاکستان، خطّہ ہند، بلکہ پوری اُمّت مسلمہ کے دُوراَندیش، دُوربِین قائد اور محسن ِملک و ملّت تھے۔ اُن کے کارناموں کو اُجاگر کرنے کے لیے سب سے زیادہ اور مسلسل کا م پروفیسر زید بن عمر نے کیا۔ اُن کی تازہ کتاب ’’چودھری رحمت علی: اعتراضات کا جائزہ‘‘ اسی سلسلے کی بہت مضبوط کڑی ہے۔ محنتِ شاقّہ اور دل سوزی سے تحقیق، ترجمہ، ترتیب وتالیف کا کام ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہم اس شاندار تحقیق پر محقق موصوف کو خراج ِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
نوٹ: چودھری رحمت علی کے سوانح ، افکار اور اُن کی خدمات ِ عالیہ کے موضوع پر خاکسار کے علاوہ پروفیسر زید بن عمر، پروفیسر جمیل احمدکھٹانہ اور متعدد دیگر محققین کی اردو اور انگریزی میں نگارشات اخبارات اور آنلائن اَوراق کی زینت بن چکے ہیں، مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آج کل فوری شہرت ودولت حاصل کرنے کے خواہاں افراد، تحقیق اور تنقید کی بجائے نقل درنقل سے اپنا عَلَم بَلند کرنا پسند کرتے ہیں۔
تازہ اطلاع یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر دستیاب، چودھری رحمت علی سے متعلق اکثر تحریریں میرے مضامین سے( حرف بہ حرف ۔یا۔کہیں اکثر حصہ) نقل کرکے، مرتب کی جارہی ہیں اور اُن میںنقّال افراد، اپنے تُکّے شامل کررہے ہیں۔ تحقیق ویسے بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں، لوگ یہ کرتے ہیں کہ کوئی کارآمد مواد ہاتھ لگا تو جھٹ سے مصنف کا نام اور حوالہ اشاعت حذف کرکے، اپنے نام سے اور اپنی ویب سائٹ یا ویب پیچ پر لگادیا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور نقّال کو خوب پیسے ملیں۔