اے نیئر؛ خوب صورت آواز اور خوش اخلاق شخصیت کے مالک 

جرمن فلسفی آرتھر شوپنہاور نے کہا تھا کہ ’’موسیقی رُوح کی غذا ہے۔‘‘ اس بات کا تجربہ عام انسانوں کی نسبت فن کار اور گلوکار زیادہ کرتے ہیں۔ بزرگوں کی دُعاؤں کا انجام، قدرت کا اہتمام، فن کار کے ذوق کا انعام جب یکجا ہوکر مل جائیں، تو فن کار اپنے فن کے ساتھ مجسم ہوکر دُنیا میں پیدا ہوتا ہے۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنے فن کی معراج کو چھوتے ہیں، اپنے شعبے میں منفرد اور اعلیٰ مرتبہ حاصل کرتے ہیں، اور اپنی خدمات کے ذریعے دوسروں کے لیے روشن مثال بنتے ہیں۔ ایسے فن کار جن کا فن لازوال، باکمال اور لاجواب ہوتا ہے۔ اگر وہ زندہ معاشروں میں پیدا ہوں، جہاں فن اور فن کار کی قدر گوہرِ نایاب کی طرح کی جاتی ہو، تو وہ فن کار ہیرے بن جاتے ہیں جن کی چمک سے دُنیا کو روشنی ملتی ہے۔

آج کے مضمون میں ہم ایک ایسے درخشاں ستارے اور شان دار فن کار کی زندگی کی داستانِ اور خدمات کو خراجِ تحسین پیش کریں گے، جس نے اپنے فن سے اپنی انڈسٹری میں اپنا لوہا منوایا، اور جس کے گیت آج بھی اس کے چاہنے والوں کے دِلوں میں حرارت، ذہنوں میں خوش گوار یادیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔

میں کافی عرصے سے معروف گلوکار آرتھر نیئر المعروف اے نیئر پر لکھنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن ان کے متعلق انٹرنیٹ پر موجود ناکافی اور نامکمل معلومات کے علاوہ خاندان سے رابطے یا کسی مستند ذرائع کی دست یابی ممکن نہیں ہوپارہی تھی۔ دو سے تین سال کی مسلسل تلاش اور ریاضت کے بعد آخرکار انٹرنیٹ پر ان کی فیملی کا نعیم ہیری کے ساتھ ایک انٹرویو ملا۔ میں دِلی طور پر جناب نعیم ہیری کا شکر گزار ہوں جنہوں نے امریکا سے مجھے اے نیئر کی اہلیہ کا رابطہ نمبر فراہم کیا، جس کی بدولت میری ان سے بات ہوئی اور یوں ان کے میڈیا منیجر، تخلیقی سفر کے ساتھی اور منہ بولے بھائی شاہد حُسین سے رابطہ قائم ہوا، جنہوں نے نہ صرف بے شمار معلومات کی تصحیح کی بلکہ کئی نئی اور مستند معلومات بھی فراہم کیں۔

ابتدائی زندگی

اے نیئر 14 اپریل 1950کو ساہیوال کے ایک نواحی گاؤں چک نمبر 148/9 ایل رینسن آباد (Ransonabad) میں پروٹسٹنٹ مسیحی خاندان میں چوہدری منیرالدین ناصر اور مبارک بیگم کے ہاں پیدا ہوئے۔ آرتھر نیئر چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔

ابتدائی تعلیم اور پرورش عارف والا میں پائی، 1962 میں لاہور تشریف لے گئے جہاں تاریخی درس گاہ سینٹ فرانسس اسکول، انارکلی سے میٹرک کیا۔ ابتدا ء میں چرچ کے کوائر میں سرگرم ہوئے جہاں ان کی آواز نے اپنا جادو جگانا شروع کیا۔ پھر انہوں نے ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا، جہاں سے بی اے، بی ایڈ 1974 میں کیا۔ یہاں وہ اپنی موسیقی کی بدولت کافی معروف ہوئے۔

خاندانی زندگی

1980 میں ان کی شادی اپنے رشتے داروں میں روبینہ نیئر سے ہوئی۔ خُدا نے انہیں تین بیٹیاں، کامنی نیئر، کرن نیئر، مشعل نیئر اور ایک بیٹا جوشوا نیئر عطا کیا۔ ان کی شریکِ حیات روبینہ نیئر کا کہنا ہے کہ وہ ایک بہت اچھے شوہر، خوش مزاج اور خیال رکھنے والے انسان تھے۔ وہ اپنی ماں سے بے حد پیار کرتے تھے، اس لیے ان کی والدہ ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے پسندیدہ فن کاروں میں سلیم رضا، مہدی حسن، کشور کمار شامل تھے۔

انہوں نے موسیقی کو اپنی زندگی بنایا اور قوم و ملک کا نام روشن کیا۔ ایک میوزک اکیڈمی بھی بنائی لیکن وہ چل نہ سکی، کچھ عرصہ نوکری بھی کی۔ ان کی بڑی بیٹی کا کہنا ہے کہ ان کے والد بہت شفیق باپ تھے، بہت زیادہ مذاق کرتے تھے، اکثر صبح چار بجے اٹھ کر ریاض کرتے تھے۔ ان کی ایک بیٹی بھی ان کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ اے نیئر کی بیٹیاں بیرونِ ملک مقیم ہیں جب کہ ان کی بیوی لاہور میں رہتی ہیں۔

تخلیقی سفر کا آغاز

اے نیئرنے ریڈیو، ٹی وی اور فلم کے لیے بطور پلے بیک سنگر یعنی پسِ پردہ گلوکار عمدہ خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے 1973 سے گلوکاری کا باقاعدہ آغاز کیا اور 4200 سے زائد گیت پانچ زبانوں، مقامی و غیرملکی، میں گائے۔ ان کی پہلی ریکارڈنگ 1973 میں ریڈیو پاکستان سے ہوئی، جہاں موسیقار کریم شہاب الدین اور شاعر امجد اسلام امجد تھے۔ اسی سال وہ ریڈیو کے مستقل گلوکار بن گئے اور درجنوں نامور موسیقاروں کے ساتھ ایک ہزار سے زائد گانے ریکارڈ کیے۔ اسی طرح ان کا ٹی وی کا آغاز پی ٹی وی سے ہوا، جب انہوں نے 1971 میں رفیق وڑائچ کے پروگرام میں موسیقار سہیل فضلی کے تحت بطور گلوکار پہلی بار شرکت کی۔

پھر وہ پی ٹی وی کے باقاعدہ گلوکار بن گئے۔ ان کے فلمی سفر کا پہلا فلمی گیت 1973 میں معروف اداکار شان کے والد ریاض شاہد کے لیے موسیقار اے حمید کے ساتھ ریکارڈ ہوا۔ اس وقت کے آٹھ بڑے گلوکاروں کے درمیان جگہ بنانا مشکل تھا، مگر جلد ہی وہ ان میں اپنی منفرد شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے تقریباً تمام معروف موسیقاروں اور اداکاروں کے لیے ہزاروں گیت گائے۔

اسٹیج پروگرامز

انہوں نے دُنیا کے کئی ممالک میں سیکڑوں موسیقی اور ثقافتی شوز میں پرفارم کیا، جن میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا، ناروے، سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک، کینیا، جاپان، متحدہ عرب امارات، قطر اور عمان وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے 20 سے زائد فلاحی و عطیہ شوز بھی ترتیب دیے جن کا مقصد فن کاروں کی امداد اور سیلاب و زلزلہ متاثرین کے لیے مدد کرنا تھا، جن فن کاروں کے ساتھ کام کیا ان میں نمایاں نام محمد علی، شبنم، ندیم، جاوید شیخ، بابرہ شریف، شمیم آراء اور دیگر شامل ہیں۔ میزبانوں میں معین اختر، دلدار پرویز بھٹی، عمر شریف، البیلا، بشریٰ انصاری، طاہرہ واسطی قابلِ ذکر ہیں۔ خواتین گلوکاراؤں میں ملکہ ترنم نورجہاں، ناہید اختر، نیرہ نور، طاہرہ سید، مسرت نذیر، مالا، بینجمن سسٹرز، سلمیٰ آغا، مہناز، عابدہ پروین، فریحہ پرویز، ثریا خانم، افشاں اور ترنم ناز شامل ہیں۔ مرد گلوکاروں میں مہدی حسن، منیر حسین، مسعود رانا، غلام علی، اخلاق احمد، پرویز مہدی، عنایت حسین بھٹی، اسد امانت علی، نصرت فتح علی خان، عارف لوہار، غلام عباس اور دیگر شامل ہیں۔ موسیقاروں میں اے حمید، نثار بزمی، ایم اشرف، رابن گوش، کمال احمد، امجد بوبی، نوشاد، طافو برادران، ذوالفقار علی، کریم شہاب الدین، خالد احمد، واجد عطرے، بخشی وزیر، جی اے چشتی، مجاہد حسین، تصدق حسین اور صفدر حسین کے ساتھ کام کیا۔ شعراء میں جن کا کلام انہوں نے گایا، علامہ اقبال، فیض احمد فیض، صوفی تبسم، منیر نیازی، قتیل شفائی، مسرور انور، ریاض الرحمٰن ساغر، خواجہ پرویز، فیاض ہاشمی، وارث لدھیانوی، حزیں قادری، تسلیم فاضلی، سعید گیلانی، شوکت رضوی، کلیم عثمانی، یونس ہمدم، نصیر علی نصیر، ایوب کھوکھر، شاہد حُسین اور حبیب جالب نمایاں ہیں۔

اعزازات

اُنہیںصدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی بعد از مرگ 2018 میں دیا گیا۔ نیشنل فلم ایوارڈ، 8 مرتبہ نگار ایوارڈ، 8 مرتبہ گریجویٹ اکیڈمی ایوارڈ، بولان اکیڈمی ایوارڈ (بلوچستان)، بہترین کارکردگی ایوارڈ (کینیڈا)، بہترین کارکردگی ایوارڈ (امریکا)، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ (روزنامہ نئی بات، 2012) اور مختلف اداروں و تنظیموں کی جانب سے سیکڑوں شیلڈز اور میڈلز مل چکے تھے۔

قومی جذبہ اور خدمات

انہوں نے درجنوں قومی نغمے ریڈیو، ٹی وی، فلموں اور اسٹیج پر گائے جن سے ان کی پاکستان سے محبت کا اظہار ہوتا ہے، جن میں چند معروف نغمے درج ذیل ہیں۔ میرا پاک وطن میرا دھن لوگو، یہ دیس میرا دیس، ہم پاکستانی ہیں، تو ہے سارے جہاں سے حسین (فلم شعلے)، سب سے پہلے پاکستان (12 گلوکاروں کے ساتھ)، پاکستان زندہ باد۔ انہوں نے 14 اگست کے یومِ آزادی کے پروگرامز امریکا، برطانیہ، کینیڈا، ناروے اور متحدہ عرب امارات میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے منعقد کیے۔ انہوں نے دل دار پرویز بھٹی کے ساتھ دُنیا بھر میں شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ پروگرام اور سماجی و فلاحی شوز کیے۔

آواز خاموش ہوئی، مگر میراث زندہ رہی

11 نومبر 2016 کو لاہور میں اے نیئر کا انتقال ہارٹ اٹیک سے ہوا۔ انہیں لاہور کے مسیحی قبرستان، جیل روڈ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ زندگی کے آخری برسوں میں وہ صحت اور مالی مسائل سے دوچار رہے، جیسا کہ ہمارے کئی فن کاروں کا مقدر بن جاتا ہے۔ اے نیئر کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ صلاحیت اور فن مذہب یا پس منظر کی پابند نہیں ہوتے ہیں، کیوںکہ وہ ایک عام اور مسیحی خاندان سے ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے ہر طبقے میں یکساں مقبول رہے۔ ان کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیں اپنے فن کاروں کی قدر ان کے عروج کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی بھر کرنی چاہیے۔ عصرِ حاضر کی تیز رفتار اور ڈیجیٹل دُنیا میں اے نیئر کی آواز آج بھی دِلوں کو چھو لینے والے جذبات اور اُس زمانے کی رُوح کو زندہ رکھتی ہے، جب موسیقی دِل سے بنائی جاتی تھی۔

اے نیئر صرف ایک گلوکار نہیں تھے؛ وہ ایک عہد کی دھڑکن تھے۔ وہ دھنوں کے درویش، گیتوں کی چمک، وہ آواز جس نے وقت کو روک لیا، دِل کی دھڑکن کا نغمہ گایا، یادوں کا سنگیت، ریت پہ نقشِ نغمہ، پاکستان کی سرگم کا نایاب نام ہیں۔ ریشم جیسی آواز جو نسلوں تک گونجتی رہی، پاکستانی فلم اور ٹیلی وژن موسیقی کے سنہری دُور میں ایک ایسی آواز جو ریشم کی نرمی اور فولاد کی مضبوطی رکھتی تھی۔ آرتھر نیئر نہ صرف ایک غیرمعمولی گلوکار تھے بلکہ پاکستان کے متنوع ثقافتی منظرنامے میں مذہبی ہم آہنگی، استقامت اور فنی اعلیٰ درجے کی علامت بھی تھے۔ ایک ستارے کا جنم جس کا سادہ آغاز مگر بلند اُمنگیں تھیں۔ ایک عام پس منظر رکھنے والے اے نیئر، جنہوں نے اس دُور میں شہرت حاصل کی جب مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی بہت محدود تھی۔ ان کی قومی شہرت تک رسائی محنت، لگن اور جنون کی داستان ہے۔ ان کی آواز آج بھی موسیقی کے شائقین کے دِلوں میں تازہ ہے۔

مشہور گانے

اے نیئر نے مہناز کے ساتھ کئی مشہور گانے گائے جن میں آج ہے جمعہ کل (فلم کبھی الوداع نہ کہنا)، او میری جانِ وفا (فلم آبشار)، رشتہ پیار کا (فلم بینظیر قربانی)، مٹ گئیں سب دوریاں (فلم نزدیکیاں)، مانو کہ تم ہو (فلم لیڈر)۔ اسی طرح درج ذیل فلموں کے گیت شامل ہیں۔ زندگی، بارود کی چھاؤں، دیوانے دو، بلندی، ہیرو، آندھی اور طوفان، نزدیکیاں، باغی قیدی، لواسٹوری وغیرہ۔ مشہور نغموں میں یہ جو پھولوں سے خوشبو آتی ہے (باغی قیدی)، موسم کوئی آئے (ہم اور تم)، دُنیا کو ہم نے عشق کی (بیویاں ہائے بیویاں)، آئی لو یو (بلندی)، پیار بھرا یہ جیون (ایک دوجے کے لیے)، پیار تو اک دن ہونا تھا ہونا تھا ہوگیا، ساتھی مجھے مل گیا، مل گیا مل گیا، ملے دو ساتھی، کھلی دو کلیاں، اک بات کہوں دِلدارا، جی رہے ہیں ہم تنہا۔ یہ فہرست 1978 سے 1992 کے درمیان گائے گئے درجنوں گیتوں پر مشتمل ہے جنہوں نے پاکستانی فلمی موسیقی کی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کیا۔

شہرت کی بلندیوں تک ان کے پہلے فلمی نغمہ ’’یوں ہی دن کٹ جائے، یوں ہی شام ڈھل جائیں‘‘ (فلم بہشت، 1974) نے انہیں فوری شہرت عطا کی۔ یہ ان کے تین دہائیوں پر محیط شان دار کیریئر کا آغاز ثابت ہوا۔ 1975 تا 1990 جب وہ احمد رشدی کے بعد سب سے پسندیدہ آواز بن گئے اور اپنی آواز کی رینج اور تنوع کے باعث اکثر کشور کمار سے تشبیہ دیے جاتے تھے۔ مخصوص انداز، تنوع اور جذبات کی گہرائی کی بدولت اے نیئر کی آواز میں ایک خاص جادو تھا؛ گرم جوشی، پُراثر اور فوراً پہچانی جانے والی آواز تھی۔ وہ رومانوی نغموں، قومی ترانوں، درد بھری غزلوں اور فلمی گیتوں کو یکساں خوبصورتی سے گا سکتے تھے۔

ادیب اور ہمارا سماجی المیہ

ویسے تو ادب اور ادیبوں کے بارے میں یہ رویہ اور وطیرہ ہمارے معاشرے میں عام ہوچکا ہے، مگر اے نیئر کے حوالے سے میں اس بات پر حیران ہوں کہ جنہوں نے قومی سطح پر بے شمار کام کیا، اور ساتھ ہی اپنی کمیونٹی کے لیے بھی کئی گیت اور زبور گائے، ان کا ذکر کہیں خاطر خواہ انداز میں نہیں کیا جاتاہے۔ آج جب بے شمار مسیحی چینلز، اسٹوڈیوز اور ادارے قائم ہوچکے ہیں، تب بھی اے نیئر کی خدمات کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ واقعی مستحق ہیں۔ ان کے نام پر نہ کوئی موسیقی کا مقابلہ، نہ تقریب، نہ ایوارڈ، اور نہ ہی کوئی اسٹوڈیو منسوب کیا گیا۔ حکومتی سطح پر بھی ان کے خاندان یا ان کی فنی خدمات کی وہ پذیرائی نہیں ہوئی جس کے وہ حق دار تھے۔ ان کے نام پر نہ کوئی سڑک رکھی گئی، نہ کسی ادارے یا فن پارے میں ان کی یاد کو زندہ رکھا گیا۔

اس وقت میری انگلیاں لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر چل رہی ہیں، مگر میرا دِل اور میری رُوح اے نیئر کی موسیقی اور آواز کی گونج سے محظوظ ہورہی ہے۔ خوب صورت آواز، خوش شکل اور خوش اخلاق اے نیئر نے جہاں پاکستان کی فلم انڈسٹری کا عروج بھی دیکھا تو زوال بھی کمال دیکھا۔ وہی زندگی نے انہیں خوب آزمایا، ایک طرف جواں سال بیٹے کی بیماری اور موت کا صدمہ، انڈسٹری کے بدلتے حالات، معاشی مسائل، بیگم کا علاج، بیٹیوں کے تعلیمی اخراجات، سب سے بڑھ کر اپنوں اور پرائیوں کی بے رخی اور بے حسی، اے نیئر کو وقت سے پہلے جہاں لے گئی؛ لیکن ان کی خوب صورت آواز کا سحر اور سنہری یادیں ہمیشہ موسیقی کے عاشقوں کے دِلوں میں رہیں گی۔ آئن اسٹائن نے کہا تھا۔

’’اگر میں طبیعیات داں نہ ہوتا تو شاید ایک موسیقار ہوتا، کیوںکہ میں اکثر موسیقی میں سوچتا ہوں۔ میں اپنے خوابوں کو موسیقی میں جیتا ہوں۔ میں اپنی زندگی کو موسیقی کے سروں کی طرح دیکھتا ہوں۔‘‘ 

Similar Posts