دکھی انسانیت کی مدد و نصرت کی فضیلت و اہمیت

دنیاوی زندگی آزمائشوں کا گھرہے۔ کبھی خوشی، غمی، آسائش اور کبھی مصیبت انسان کا مقدر بنتی ہے۔ قدرتی آفات جیسے زلزلے، طوفان، وبائیں اور سیلاب دراصل بندوں کے لیے آزمائشیں ہیں۔ ایسے وقت میں مومن کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی خبر گیری کرے، ان کے دکھ درد کو بانٹے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے۔ اسلام نے ایسے مواقع پر متاثرین کی مدد کو صرف انسانیت کا تقاضا نہیں بلکہ عبادت اور قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔

مصیبت زدہ و دکھی انسانیت کی مدد، وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے۔ کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اﷲ کی خوش نُودی کا ذریعہ ہے۔ کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا فرض بھی ہے اور سنّت رسول کریم ﷺ بھی۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے۔

اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ’’اور اﷲ ہی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، ناداروں، رشتے داروں، ہمسایوں، اجنبیوں ، پاس بیٹھنے والوں، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں، سب کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ بے شک! اﷲ تکبر کرنے والے اور بڑائی کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ (سورۃ النساء)

قرآن کریم میں نیکی اور تقویٰ میں تعاون کے بارے حکم کیا گیا ہے۔

مفہوم: ’’نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘ (المائدہ)

یہ آیت عمومی حکم دیتی ہے، مگر مصیبت زدوں کی مدد اس کی اعلیٰ ترین مثال ہے، کیوں کہ یہ بھوکوں کو کھلانا، بے گھر کو چھت دینا اور مصیبت زدہ کو سہارا دینا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ کے نزدیک سب سے محبوب لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے لیے زیادہ نفع رساں ہوں۔‘‘ (الطبرانی، المعجم الاوسط)

’’جو کسی مومن کی دنیا کی ایک مشکل آسان کرے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کی ایک بڑی مشکل آسان فرما دے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)

’’اﷲ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

یعنی مخلوق کی خدمت میں جنت کی ضمانت ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جو دوسروں کی ضروریات پوری کرے گا اﷲ اس کی ضروریات پوری کرے گا۔‘‘ (البخاری)

حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

’’جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اﷲ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔‘‘ (حاکم المستدرک)

اسلام اﷲ تعالی کا نازل کردہ اور پسندیدہ دین ہے، اس دین میں سب سے زیادہ کام یاب انسان اسے کہا گیا ہے جو اپنی دین داری کے ساتھ لوگوں کے لیے زیادہ مفید اور کارآمد ہو۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اﷲ کے نزدیک سب سے پسندیدہ بندہ وہ ہے جو اس کے عیال کے لیے سب سے زیادہ نافع ہو۔‘‘ (المعجم الکبیر )

خدمت خلق کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ ﷺ پہلی وحی نازل ہونے کے بعد گھر تشریف لائے تو غم گسار شریک حیات ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے کیفیت کو دیکھ کر فرمایا کہ اﷲ تعالی آپؐ کو ہرگز ضایع نہیں کرے گا، کیوں کہ آپؐ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور آسمانی حوادث میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (بخاری)

ان پانچوں اوصاف جن کا خصوصیت سے جناب حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے تذکرہ کیا ان سب کا تعلق خدمت خلق کے مختلف پہلوؤں سے ہے اس میں حسن سلوک بھی ہے اور بدنی و مالی تعاون بھی ہے۔

آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اسلام کا بہترین عمل کھانا کھلانا اور سلام کو رواج دینا ہے۔‘‘

 (بخاری شریف کتاب الایمان)

آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’جو آسودہ ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔‘‘ (المستدرک للحاکم)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ دوسرے پر ظلم کرتا ہے نہ اسے (دشمن کے) سپرد کرتا ہے۔ جو مسلمان بھائی کی ضرورت میں کام آئے گا اﷲ تعالیٰ اس کی ضرورت میں کام آئے گا۔ اور جو کسی مسلمان کے رنج اور غم کو دور کرے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت کو دور کر دے گا۔ اور جو کسی مسلمان کے عیب چھپائے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو چھپائے گا۔ (بخاری و مسلم)

حضرت ابو ہریرہؓ سے ایک فرمان مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:

’’اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا، تونے میری عیادت نہ کی۔ انسان حیران ہو کر کہے گا: اے میرے رب! تو تو رب العالمین ہے، میں تیری کس طرح عیادت کرتا۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تونے مجھے کھانا نہ دیا۔ بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! تو رب العالمین ہے۔ تجھے کس طرح کھانا کھلاتا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کیا یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا، لیکن تونے اسے کھانا نہ کھلایا۔ اگر تو اُسے کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب میرے یہاں پاتا۔ اسی طرح اﷲ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تونے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کس طرح پانی پلاتا، جب کہ تو رب العالمین ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا، مگر تونے اسے پانی نہ پلایا کیا۔ تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔‘‘ ( مسلم شریف)

دوسروں کی مدد سے بندہ اﷲ کی رضا اور اس کے قرب کا حق دار بن جاتا ہے کہ اﷲ اس شخص کو پسند فرماتا ہے جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو۔ خدمت کا سب سے اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ خادم و مخدوم کے درمیان محبت و الفت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور باہمی قربت بڑھتی ہے۔ اس کے باعث انسان برے اخلاق اور اس کے دام فریب سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ کبر و نخوت، ظلم و دہشت، جبر و تشدد، جیسی خطرناک بیماریوں کا علاج خدمت خلق کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ خدمت خلق کے لیے محبت و شفقت اور ہم دردی و اخلاص کے علاوہ ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

مصیبت زدہ و تکالیف میں گرے ہوؤں کی مدد و نصرت کا فائدہ یہ ہے کہ اﷲ تعالی غیب سے ان کی مدد فر ماتا ہے: ’’اور اﷲ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔ ‘‘ (صحیح ابن ماجہ للالبانی)

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کردیتا ہے۔‘‘ (ترمذی شریف)

اﷲ کے نبی ﷺ نے واضح لفظوں میں ارشاد فرمایا: ’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ ‘‘ (کنزالعمال)

اﷲ پاک نعمتوں کو بانٹنے سے بڑھاتا ہے، کم نہیں کرتا تو ہمیں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔

اسلام میں آفت زدگان کی مدد صرف فرد واحد کی ذمہ داری نہیں بلکہ پوری امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں جب مدینہ میں قحط پڑا تو آپ خود لوگوں میں کھانا تقسیم کرتے اور خیمے لگا کر متاثرین کی مدد کرتے۔ مصیبت کے وقت خدمتِ خلق صحابہ کرام ؓ کی بھی سنت ہے۔

مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے عملی تقاضے یہ ہیں کہ ان کی بھرپور امداد کی جائے یعنی کپڑے، کھانے پینے کا سامان، ادویات اور مالی تعاون بھی اور نفسیاتی مدد یعنی ان کو حوصلہ دینا، غم بانٹنا اور صبر کی تلقین کرنا۔ دعا و استغفار کرنا اور اجتماعی طور پر اﷲ سے آفات کے ٹلنے کی دعا کرنا۔

ہمیں چاہیے کہ مصائب سے دوچار افراد کی مدد کو اپنا فرض سمجھیں اور ان کے دکھ درد کو بانٹیں۔ یہی حقیقی ایمان، اخوت اور انسانیت ہے۔

Similar Posts