ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کابل کے وسط میں سرحد پار آپریشن کا مقصد طالبان حکومت کو غیر واضح پیغام دینا تھا کہ پاکستان دہشت گروں کے خلاف کارروائیاں اپنی سرزمین تک محدود نہیں رکھے گا۔
ایک سینئر افسر نے کہاکہ کابل آپریشن کا افغان طالبان قیادت اور ان کی سیکیورٹی مشینری پر واضح نفسیاتی اثر ہوا، کابل حملوں نے طالبان قیادت میں خوف اور احتیاط کا واضح عنصر پیدا کیا ، وہ سمجھ گئے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کا پاکستان کابل سمیت ہر جگہ پیچھا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے حالیہ دہشت گرد حملے کے فوری بعد افغان طالبان کے ترجمانوں نے نجی طور پر پاکستانی حکام سے رابطہ کرکے کشیدگی میں کمی کی درخواستیں کیں اور کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پر خودکش حملے میں وہ ملوث نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ غیر معمولی پیش رفت ہے، اس سے قبل دہشت گردی کے واقعات پر پاکستانی خدشات مسترد یا الزام ٹی ٹی پی پر عائد کرتے تھے۔
اس مرتبہ انہوں نے پس پردہ استدعا اور زور دیاکہ اسلام آباد دہشت گردی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کی وجہ افغان طالبان کا پاکستان سے انتقامی کارروائی کا خوف ہے ، وہ سمجھ گئے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کی رسائی اور صلاحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابل حملوں کے بعد پاکستان پر سرحد پاردہشت گردی کی تعداد میں کمی دیکھی گئی، تاہم خطرہ ختم نہیں ہوا، حملوں میں کمی دھاک کے نتیجے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے کہ افغانستان کے اندر ہائی ویلیو اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے پاکستان تیار ہے، طالبان قیادت کو دہشت گردی کی قیمت معلوم ہو چکی ہے۔