تجارت بحران بدستور برقرار، صرف ٹیرف پالیسی کافی نہیں

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران 2 اہم پیش رفتوں نے تجارتی پالیسی سازوں کو درپیش مشکلات کو نمایاں کر دیا ہے۔ اول بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ پہلے سے کمزور بیرونی کھاتوں پر مزید دباؤ ڈال رہا ہے جس کی بنیادی وجہ درآمدات میں اضافہ اور برآمدات کی شرحِ نمو میں کمی ہے۔

مالی سال 2026 کے ابتدائی 4 ماہ میں برآمدات گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 4 فیصد کم رہیں، جبکہ درآمدات میں 16 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

چونکہ معیشت کی بحالی کے حالیہ منصوبوں میں برآمدات کے فروغ پر خاص زور دیا جا رہا ہے، اس لیے برآمدات میں یہ کمی متعلقہ حلقوں کے لیے باعث تشویش ہے۔

تجارتی خسارے کے باعث جاری کھاتوں (کرنٹ اکاؤنٹ) کا خسارہ بھی بڑھ کر پہلے چار ماہ میں 733 ملین ڈالر تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 206 ملین ڈالر تھا۔

دوسری اہم پیش رفت یہ ہے کہ حقیقی موثر شرح تبادلہ (REER) اکتوبر 2025 میں بڑھ کر 103.95 ہو گئی، جبکہ ستمبر میں یہ نظرثانی کے بعد 101.70 تھی۔ ادھر امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تقریباً 280 کے آس پاس مستحکم رہی۔

اس رجحان نے اس بحث کو پھر سے زندہ کر دیا ہے کہ آیا پاکستان دوبارہ بیرونی شعبے کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے یا نہیں۔موجودہ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ 2022 میں عائد کی گئی درآمدی پابندیوں کا جائزہ لیا جائے، جب پاکستان ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران کا شکار تھا۔

مالی سال 2022 میں پاکستان نے 80 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات کیں، جبکہ برآمدات محض 31 ارب ڈالر تھیں، جس سے 49 ارب ڈالر کا بھاری تجارتی خسارہ پیدا ہوا۔

اس بحران کی چند بنیادی وجوہات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے، درآمدات کی نوعیت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 2022 کے بعد کے دور میں ایندھن سے متعلق مصنوعات تجارتی خسارے کا بڑا سبب بنیں۔

پاکستان میں ایندھن کی درآمدات مجموعی درآمدات کا 25 فیصد سے زیادہ ہیں، جبکہ کئی مشرقی ایشیائی ممالک میں یہ شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے۔اس کے برعکس ان ممالک کی درآمدات زیادہ تر ٹیکنالوجی سے وابستہ مصنوعات پر مشتمل ہوتی ہیں جو پیداواری صلاحیت بڑھاتی ہیں اور انسانی وسائل کی ترقی میں مدد دیتی ہیں۔

جبکہ پاکستان کی درآمدی ٹوکری میں ایسے پیداواری اور تکنیکی مال کی کمی نظر آتی ہے۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ جون 2022 میں درآمدات کو کم کرنے کے لیے مختلف پابندیاں عائد کی گئیں۔

اگرچہ سال کے اختتام تک ان میں سے کئی پابندیاں ختم کر دی گئیں لیکن ان کے منفی اثرات صنعت اور تجارت پر دیرپا رہے۔

معاشی مشاورتی گروپ (EAG) کی رپورٹس کے مطابق پاکستان نے درآمدات کم کرنے کے لیے نہ صرف مختلف آلات استعمال کیے بلکہ دیگر ممالک کی نسبت زیادہ سخت اقدامات کیے، جن کا نتیجہ کمزور معاشی ترقی اور موجودہ اقتصادی مسائل کی صورت میں نکلا۔

کرنسی کی قدر کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کے لیے ڈالر کی خریداری پر پابندیاں قیاس آرائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ چونکہ پاکستان کے پاس ماضی میں بھی زرِمبادلہ کے محدود ذخائر رہے ہیں، اس لیے ایسے اقدامات تجارت کو غیر مستحکم بنا دیتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے بین الاقوامی تجارتی روابط کو بہتر بنانے کے لیے جامع اقدامات کرے۔ یہ اقدامات صرف قومی ٹیرف پالیسی 2025-2030 تک محدود نہ ہوں بلکہ غیر ٹیرف رکاوٹوں اور کاروباری اصلاحات کو بھی شامل کیا جائے۔

چونکہ پاکستان خطے اور دنیا میں تجارتی کھلے پن کے حوالے سے کم ترین سطح پر ہے، اس لیے نہ صرف پاکستانی صنعتکار عالمی منڈیوں تک رسائی سے محروم ہیں بلکہ صارفین کو بھی معیاری اور متنوع مصنوعات میسر نہیں آ رہیں۔

اس صورتحال کا براہ راست اثر قیمتوں اور معیار پر پڑتا ہے۔ صرف ٹیرف پالیسی کافی نہیں ،ضروری ہے کہ ایسی پالیسیاں اپنائی جائیں جو بین الاقوامی تجارت کو محدود کرنے کے بجائے اس کے فروغ کا باعث بنیں۔

Similar Posts