برابری کی بنیاد پر مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن دھمکیوں کے سائے میں نہیں، ایرانی صدر

0 minutes, 0 seconds Read

بین الاقوامی منظرنامے پر ایک بار پھر ایران اور امریکا کے تعلقات میں تناؤ اور سفارتکاری کے پیچیدہ پہلو نمایاں ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکی صدر کی جانب سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر براہ راست مذاکرات کی پیشکش کے جواب میں ایران نے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایران برابری کی بنیاد پر مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن دھمکیوں کے سائے میں نہیں۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر امریکا واقعی مذاکرات چاہتا ہے، تو دھمکیوں کا کیا جواز ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف بات چیت کی دعوت دی جاتی ہے، اور دوسری طرف حملوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، جو کسی بھی سنجیدہ سفارتی رویے سے متصادم ہے۔ ایرانی صدر نے امریکا پر صرف ایران ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر کی تذلیل کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔

ایرانی خبر ایجنسی ارنا کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 12 مارچ کو ایک خط ایران کو بھیجا گیا، جو متحدہ عرب امارات کے ایک سفارتکار کے ذریعے تہران پہنچایا گیا۔ اگرچہ دونوں ممالک کی حکومتیں اس خط کی مکمل تفصیلات سے گریزاں ہیں، لیکن ایران کی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ اس قسم کی سفارتی خط و کتابت ملکی مفاد کے تحت صیغہ راز میں رکھی جاتی ہے۔

بی بی سی فارسی کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اعتراف کیا کہ اس خط میں کچھ پہلو دھمکی آمیز بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ’ہم کسی کو بھی ایرانی قوم سے دھمکی آمیز انداز میں بات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

انہوں نے اشارہ دیا کہ خط میں بظاہر سفارتی عمل شروع کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے، تاہم دھمکیوں کا لہجہ اس کوشش کو مشکوک بناتا ہے۔

’مذاکرات میں دشمن کے مطالبات مان لینا جنگ کے مترادف ہے‘

ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے بھی اس صورتحال پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا، ’اگر امریکا نے ایران کو دی گئی عسکری دھمکیوں پر عمل کیا تو خطے میں امریکی اور اتحادیوں کے اڈے محفوظ نہیں رہیں گے۔‘

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ٹرمپ کے خط میں پابندیاں ہٹانے کی کوئی بات شامل نہیں تھی، جو کہ مذاکرات کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔

ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای بھی اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ، ’امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنا دانشمندانہ عمل نہیں ہوگا۔‘

صورتحال سے واضح ہے کہ ایران کسی بھی طاقت کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں، اور وہ مذاکرات صرف احترام اور مساوات کی بنیاد پر کرنے کا خواہاں ہے۔

دوسری جانب، امریکا کی طرف سے مذاکرات کے ساتھ ساتھ دھمکیوں کا جاری رہنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ واشنگٹن اب بھی پرانی پالیسیوں پر قائم ہے۔

Similar Posts