بھارت کی جانب سے انڈس بیسن یا سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے کے بعد جو سب سے بڑا سوال پوچھا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کس حد تک پاکستان کا پانی بند کر سکتا ہے۔ کیا وہ مکمل طور پر پانی روک دے گا اور کیا بھارت کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت ہے یا آئندہ کچھ برسوں میں وہ ایسی صلاحیت حاصل کرسکتا ہے۔
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے پہلے انڈس بیسن کو سمجھنا ہوگا۔ جو ایک بہت بڑے خطے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا منبع یا نقطہ آغاز پاکستان یا بھارت کے بجائے چین میں ہے۔
انڈس بیسن چین کے علاقے تبت سے لے کر افغانستان میں کابل تک جاتا ہے اور اس کا اختتام کراچی اور ٹھٹھہ میں ہوتا ہے۔
اس بڑے خطے میں ایک درجن سے زائد اہم دریا ہیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے میں چھ دریاؤں کا ذکر ہے۔
1960 کے معاہدے میں سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کو دیئے گئے جب کہ راوی، ستلج اور بیاس بھارت کے حصے میں آئے۔
بھارت کو جو تین دریا ملے ان کا خاصا خصہ بھارتی علاقوں سے گزرتا ہے اور ان پر بھارت کا مکمل کنٹرول ہے۔ بھارت نے کئی ڈیم اور نہریں بنا کر ان دریاؤں کا تمام تر پانی اپنے استعمال میں لے لیا ہے۔ پاکستان میں پہنچتے پہنچتے راوی اور ستلج خشک ہو جاتے ہیں۔
اب بھارت کی نظریں پاکستان کے حصے میں آنے والے تین دریاؤں پر ہیں۔ لیکن کیا وہ ان دریاؤں پر بھی اسی طرح ڈیم بنا سکتا ہے جیسا کہ اس نے تین مشرقی دریاؤں پر بنائے ہیں اور کیا وہ ان تین دریاؤں کا پانی اپنی طرف موڑ سکتا ہے۔
سادہ جواب ہے کہ ایسا آسان نہیں۔
سب سے اہم دریائے سندھ کا ہے۔ جو چین میں شروع ہوتا ہے اور لداخ سے ہوتا ہوا پاکستانی علاقوں میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے بعد گلگت بلتستان سے ہو کر یہ پاکستان کے دیگر خطوں کو سیراب کرتا ہے۔
دریائے سندھ پر بڑے ڈیم بنانا بھارت کے لیے آسان نہیں۔ اس کی وجہ لداخ کا دشوار گزار علاقہ ہے۔ جہاں زلزلوں کا بھی خدشہ ہے۔ یہاں بڑا ڈیم بہت مہنگا اور خطرناک ثابت ہوگا۔
بھارت کیلئے زیادہ اہم دریائے جہلم اور دریائے چناب ہیں اوران دونوں دریاؤں پر وہ پہلے ہی ڈیم بنا چکا ہے۔
دریائے جہلم پر بھارت نے کشن گنگا ڈیم بنایا ہے اور جب کہ دریائے چناب پر وہ بگلیہار ڈیم بنا چکا ہے۔
بھارت کا موقف رہا ہے کہ یہ دونوں ڈیم رن آف ریور ڈیم ہیں اور ان میں پانی ذخیرہ نہیں کیا جا سکے گا۔ پاکستان ان ڈیموں پر کئی مرتبہ اعتراض اٹھا چکا ہے۔
ان دو دریاؤں سے پاکستان کا پانی روکنے کیلئے بھارت کو بہت بڑا ڈیم یا کئی چھوٹے ڈیم بنانا ہوں گے لیکن یہ کام خطرے سے خالی نہیں۔
مئی سے لے کر ستمبر کے درمیان جب پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے تو چناب اور جہلم میں کروڑوں کیوبک میٹر پانی بہتا ہے۔ اس پانی کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں۔
مشرقی دریا پہلے ہی بھارت نے مکمل طور پر استعمال کر لیے ہیں۔ مغربی دریاؤں میں پانی کا کل حجم 117 ارب کیوبک میٹر ہے۔ اس پانی کو ذخیرہ کرنے کی کوشش کی جائے تو ایک لاکھ 20 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ زیر آب آجائے گا۔ اس کا مطلب ہے پوری وادی کشمیر میں ایک برس کے اندر 7 میٹر بلند پانی کھڑا ہوگا۔
خود بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ بھارت کو ٹہیری ڈیم جیسے 30 بہت بڑے ڈیم بنانا پڑیں گے اور ایسا ایک ڈیم تعمیر کرنے میں دس برس لگیں گے۔ ایسے ڈیموں کیلئے علاقے میں مناسب مقام ڈھونڈا ایک الگ چیلنج ہے۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا زیادہ اہم مطلب یہ ہے کہ وہ دریاؤں میں پانی کی صورتحال کا ڈیٹا شیئر نہیں کرے گا اور سردیوں میں جب بہاؤ کم ہو جاتا ہے تو وہ پانی روکنا شروع کردے گا۔
یہ دونوں کام بھارت پہلے ہی کر رہا ہے۔
دہلی کی جانب سے جارحانہ اقدامات سے پاکستان میں بالخصوص گندم کی فصل متاثر ہوسکتی ہے۔ پانی پہلے ہی کم ہے اور مزید کم ہوگا تو خدانخواستہ صوبوں میں اختلافات بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن بھارت کے لیے پاکستان کا پانی مکمل طور پر بند کرنا ممکن نہیں۔