زباں فہمی269 ؛ کچھ بہرائچ کے بارے میں، (حصہ اوّل)

علم کا خزینہ ہے سرزمین بہرائچ

 فضل کا نگینہ ہے سرزمین بہرائچ

حسن ساری دنیا کا اس کے حسن پر قرباں

ایسا آبگینہ ہے سرزمین بہرائچ

جس نے بھی اسے دیکھا ہوگیا فدا اس پر

دلربا حسینہ ہے سرزمین بہرائچ

صورتیں یہاں کیا کیا خاک میں ہیں خوابیدہ

  علم کا دفینہ ہے سرزمین بہرائچ

علم کے سمندر میں خوشہ چینی کرنے کو

 گویا ایک سفینہ ہے سرزمین بہرائچ

کسب علم کے جذبے آکے یاں نکھرتے ہیں

بام فن کا زینہ ہے سرزمین بہرائچ

زندگی نبھانے کے گر بھی یہ سکھاتی ہے

  جینے کا قرینہ ہے سرزمین بہرائچ

پروفیسر طاہر محمودبہرائچی۔

(سابق صدرنشیں، قومی اقلّیتی کمیشن، حکومتِ ہند)

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو بہت سے علاقوں اور مُلکوں کے متعلق ایسا مواد نظر آتا ہے کہ قاری نظراَنداز نہیں کرسکتا۔ خطہ ہند میں بھی ایسے بہت سے مقامات ہیں جن کی اپنی تاریخ ہے اور بھرپور ہے۔ ایسا ہی ایک شہر بہرائچ ہے۔ اس شہر کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں نہ صرف مشائخ عُظام کی ایک کثیر تعداد زمانہ قدیم سے قدم رنجہ فرماتی رہی ہے بلکہ ’سیّد الشہداء فی الہند‘ (ہندوستان کے شہیدوں کے سردار) کے لقب سے ملقب، حضرت سیدسالار مسعود غازی رحمۃ اللّہ علیہ (ورود، شہادت: 1033ء)کی وہاں آمد وشہادت وتدفین بھی تاریخی اعتبارسے اس کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔

(ضمنی بات یہ ہے کہ سلطان محمودغزنوی کے بھانجے اور شیخ ابوالحسن خرقانی کے مُرید، سیّد موصوف سے بھی بہت پہلے اس سرزمین پر متعدد اَفراد بشمول اولیاء شہید ہوئے، مگر یہ لقب محض عُرف ہے، فی الحقیقت یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ انھیں اوّلیت حاصل ہوئی)۔ حضرت کو ’سلطان الشہداء‘ بھی کہا جاتا ہے۔ سیّد سالار کا مزار مرجع خلائق ہے جہاں مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی حاضر ہوتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سید سالار سے قبل کی تاریخ بہت کم معروف ہے۔ مذہبی حوالے سے دیکھا جائے تو بُدھ مت کے پیروکار بھی اسے اہم جانتے ہیں، کیونکہ یہاں ایک بُدھ خانقاہ (Buddhist monastery) کے آثار بھی موجود ہیں۔ شراوستی کے جنگلات میں مہاتما گوتم بُدھ نے گیان دھیان میں زندگی کے پچیس بہترین سال بسر کیے تھے۔ یہاں سیاحت وزیارت کے لیے آنے والے مسلمان سیاحوں میں سب سے مشہور، ابنِ بطّوطہ اور چینی بُدھ سیاحوں میں ہوان سانگ بھی شامل تھے۔

نیپال کی سرحد سے ملنے والا یہ شہر، بھارتی ریاست اُترپردیش میں، دریائے گھانگھرا کی شاخ، دریائے سرجو (سَریو) کے کنارے، ہمالیہ کی گود میں اور ریاستی صدرمقام لکھنؤ سے ایک سو پچیس کلومیٹر (125 kilometres) دُور شِمال مشرق میں واقع ہے۔ جنوب مغرب میں لکھنؤ اور شِمال میں نیپال گنج (نیپال) کے درمیان ایک ریل لائن بھی موجود ہے۔ بہرائچ سے ملحق اضلاع میں بارہ بنکی، گونڈا، بلرام پور، لکھِم پور، شرَوَستی اور سِیتا پور شامل ہیں۔ بہرائچ تجارتی مرکز ہے جہاں، خصوصاً ہمسایہ ملک نیپال کے ساتھ، زراعتی مصنوعات اور لکڑی کا کاروبار خوب ہوتا ہے۔ بہرائچ کی فصلوں میں چاول، مکئی، گندم اور چَنا شامل ہیں، جبکہ یہاں شکر سازی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

بہرائچ کی وجہ تسمیہ

اس بابت منقول بعض روایات کی رُو سے یہ شہر پہلے بھڑائچ کہلاتا تھا کیونکہ سیّد سالار کے والد ساہوسالار کی سترکھ (بارہ بنکی) میں وفات کے بعد، مفتوح راجاؤں نے وہاں سے بہرائچ تک بغاوت کردی، جنگ چھِڑگئی اور یوں اس جگہ کا نام بھڑائچ پڑا۔ ایک دوسری حکایت کے مطابق یہاں زمانہ قدیم میں بھڑ نامی قوم رہا کرتی تھی، اس لیے یہ نام رکھا گیا۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو یہ با ت واضح نہیں ہوسکی کہ بھڑائچ سے بہرائچ کب اور کیسے بنا۔ {مجھے ذاتی طور پر لسانی قیاس سُوجھا ہے کہ شاید اس نام کا کوئی تعلق بھڑوچ (Bharuch) سے ہو جو بھارتی ریاست گجرات کا ایک شہر اور ضلع ہے۔

بھڑوچ ایک تاریخی مقام ہے جس کے Red-blood مالٹوں کی خلیجی ممالک میں بہت مانگ ہے}۔ یہ قوم آفتاب پرست تھی اور اِن پر قدیم آریہ فاتحین کی زبان وتہذیب کا اثر کم کم ہوا تھا، مابعد گوتم نے یہاں بُدھ مت کا پرچار کیا اور پھر ایک مدت بعد یہ علاقہ بھی ویدک یعنی برہمن مذہب کی اقلیم میں شامل ہوگیا جسے آج ہندومَت کہا جاتا ہے۔ بھڑ قوم سے سیّدسالار کی بھی تین جنگیں ہوئیں;ابتدائی دو معرکوں میں سالار موصوف فاتح رہے، آخری جنگ میں جام شہادت نوش فرمایا۔

سیّد سالار مسعود غازی ۔ایک مختصر تعارف

وطنِ مالوف غزنی (افغانستان) سے ہند آنے والے ساہو سالار کو ’سیّد الاولیاء‘ حضرت بدیع الدین شاہ ِ مدار نے فرزند کی ولادت کی بِشارت دیتے ہوئے اُس کا نام مسعود رکھنے کی ہدایت کی اور ساتھ ہی یہ پیش گوئی بھی کی کہ مسعود کُفار سے مقابلے میں شہید ہوجائے گا۔ ’غازی میاں‘، ’بالے میاں‘ اور ’بالا پِیر‘ کے مختلف عُرف سے مشہور ہونے والا اُن کا یہ بیٹا 1015ء میں اجمیر میں پیدا ہوا تو ساہو سالار اُسے شاہ ِ مدار کے پاس لے گئے۔

(اب یہاں منقولہ تفصیل خالص روحانی ہے اور ہر کس وناکس کو قبول نہ ہوگی، اس لیے اسے نقل کرنے سے گریز بہتر ہے)۔ {ضمناً عرض ہے کہ ’’مَرے کو مارے شاہِ مدار‘‘ کی نسبت سے مشہور صوفی بزرگ حضرت بدیع الدین شاہ ِ مدار نے ایک حکایت کے مطابق، کراچی میں ریگل، اکبر روڈ، موٹرسائیکل بازار کے علاقے میں چلّہ کھینچا تھا جس کی یاد گار آج تک موجود ہے اور ناواقف عوام نے اُسے بھی حضرت کا دوسرا مزار مشہور کردیا تھا}۔ وہ عَلوی سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا سلسلہ نسب سیدنا علی بن ابوطالب (کرم اللہ وجہہ الکریم) کے فرزند حضرت محمد (عُرف محمد بن حنفیہ) تک منتج ہوتا ہے۔

برّعظیم میں رواج کے مطابق، امیرالمؤمنین موصوف کی ’غیرفاطمی‘ اولاد کو بھی سادات شمار کیا جاتا ہے ، ورنہ ماقبل یہ سختی کی جاتی تھی کہ سیدہ فاطمۃ الزَہراء (رضی اللہ عنہا ) کے سواء، کوئی علوی اولاد، سیّد نہ کہلائے۔ سالار کی، بہرائچ کی تیسری جنگ میں شہادت کے مدتوں بعد، اُن کا مقبرہ اُن کے ایک عقیدت مند بادشاہ سلطان فیروزشاہ تغلق نے تعمیر کروایا تھا۔ سلطان پہلے 1340ء میں اور پھر 1374ء میں بہرائچ کے دورے پر، درگاہ میں حاضر ہوا، اُس کی دیوار اونچی کروائی اور دیگر عمارتیں بھی تعمیر کروائیں۔ ایک مشہور صوفی بزرگ مِیر سیّد اَمِیر ماہ بہرائچی سے شرفِ ملاقات اور اس باب میں گفتگو کے بعد، روایت کے مطابق، سلطان فیروز کا دُنیا سے جی اُچاٹ ہوگیا اور اُس نے بقیہ زندگی عبادت میں زیادہ بسر کی۔ سالارشہید کے کوائف کتابوں کے علاوہ انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں، مگر اِن کی نقل وترسیل میں بے احتیاطی صاف نظر آتی ہے۔

سید سالار مسعود کی شہادت کا واقعہ اس طرح منقول ہے:

’’24 رجب المرجب 424ھ کو 18 سال کی عمر میں بہرائچ میں جام شہادت نوش کیا۔ شیخ وجیہ الدین اشرف لکھنوی لکھتے ہیں کہ حضرت سکندر دیوانہ شہید، حضرت سید سالار مسعود غازی کے رفقا میں اہم مقام رکھتے تھے۔ حضرت سکندر دیوانہ، صاحب کمال درویش، خواجہ ابراہیم ادہم کے سلسلہ سے تھے، سالار شہدا (سالار مسعودغازی) کے عشق میں ہمیشہ اپنے ہاتھ میں ڈنڈا لیے رہتے اور لشکر کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر رہتے۔ یہ شعار سلسلہ ادہمیہ کے مریدوں کا ہے کہ سردار پاؤں برہنہ رکھتے ہیں اور محبوب کی سواری کے آگے آگے پیدل چلتے ہیں۔ سالار شہدا کے مصاحبین میں سب سے زیادہ افضل تھے۔ حضرت سالار شہدا کو اپنے ہاتھوں سے سہارا دے کر درخت گل چکاں کے نیچے لٹا دیا اور ان کا سر اپنی گود میں لے لیا اور زار و قطار روئے، سالار شہدا نے ایک بار آنکھ کھولی اور کلمہ’ہو‘ پڑھا۔ جان مشاہدہ جاناں میں قربان کردی، حاضرین نے دل بریاں اور چشم گریاں کے ساتھ تلواریں کھینچیں اور کافروں کے لشکر پر ٹوٹ پڑے اور شہید ہوگئے، سکندر دیوانہ پر بھی چند تیر لگے، آپ بھی شہید ہوگئے۔

سید ابراہیم نے سالار شہدا کو درخت گل چکاں کے سائے میں دفن کیا اور سکندر دیوانہ کو حضرت (سالار شہدا) کی قبر سے کچھ فاصلہ پر دفن کیا، سکندر دیوانہ سے کچھ ہٹ کر اپنے لیے قبر تیار کی اور وہیں اسپ مادیہ خنگ (سفید گھوڑی) کو دفن کیا، باقی شہدا جن کی لاشیں سورج کنڈمیں تھیں، ان پر مٹی ڈال کر تودہ بنا دیا اور اس جگہ پر تا قیامت تک کفارکی پرستش کو موقوف کر دیا اور مسلمانوں کی زیارت گاہ بنا دیا‘‘۔

اردو اَدب میں بہرائچ اور سالارشہید کا ذکر نثر ونظم میں خوب ملتا ہے۔ اس موضوع پر کہے گئے اشعار کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔

بہرائچ میں ’شکارنامہ‘ تصنیف کرنے والے میر تقی میر نے کہا:

چلے ہم جو بہرائچ سے پیش تر

ہوئے صید دریا کے واں پیش تر

اپنے وقت کے مستند سخنور انشاء اللّہ خاں انشاءؔ بھی جب بہرائچ آئے تو انھوں نے یہ مشہور شعر کہا:

دل کی بہرائچ نہیں ہے ترک تازی کا مقام

ہے یہاں پر حضرت مسعود غازیؒ کا مقام

انشاءؔ کے کُلّیات میں شامل کلام میں ٹھاکر ٹپررہا اسٹیٹ ضلع بہرائچ کی شاہی مسجد کی تعمیر پر فارسی اور اردو میں تاریخی قطعات بھی منقول ہیں۔ انشاءؔ کا بہرائچ کے لیے دیگر کلام بھی محفوظ ہے:

یو ں چلے مژگان سے اشکِ خو ن فشاں کی میدنی

جیسے بہرائچ چلے بالے میاں کی میدنی

لخت دل مسعود نیلے گہوڑے داغ ہی

جلوئہ انوار سے کرو بیان کے میدنی

مِراۃ مسعودی (فارسی) از عبدالرحمٰن چشتی کو اُردوکے قالب میں ڈھال کر ’آئینہ مسعودی‘ کا نام دینے والے نامور نعت گو شاعر خواجہ اکبرؔ وارثی میرٹھی (صاحبِ میلادِ اکبرؔ) نے اس شہر کی بابت کہا تھا:

چپے چپے پر مزاراتِ شہیداں دیکھیے

دید کے قابل ہیں بہرائچ کے میداں دیکھیے

ہر طرف ہے بارش انوار عرفاں دیکھیے

بارگاہ سیدِ سالارِ ذی شاں دیکھیے

تحریک آزادی کے دبنگ قائد، اردو غزل کے محسن حسرت ؔ موہانی نے سالار موصوف کو یوں خراج پیش کیا:

اے عشق تری فتح بہر حال ہے ثابت

مر کر بھی شہیدانِ محبت ہوئے غازی

سرسیّد سے خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی عقیدت پر طنز کرتے ہوئے اکبرالٰہ آبادی نے یوں اظہار ِخیال کیا تھا:

سیّد کی سرگزشت کو حالی سے پوچھئے

غازی میاں کا حال دفالی سے پوچھئے

اپنے وطن میں ’’شہنشاہ طنز ومزاح ‘‘ کے لقب سے مشہور، جناب شوقؔ بہرائچی نے درگاہ حضرت سید سالار مسعود غازیؒ پر لگنے والے سالانہ میلے کے پس منظر کی بابت یہ شعر ارشاد کیا:

ہر سمت جو جلاجل و قرنا کا شور ہے

غازی میاں کے بیاہ کا ساماں ہے غالباً

اُنہی کا یہ شعر بھی ہے:

یہی وہ عیسیٔ دوراں، مسیحائے زمانہ ہیں

یہیں ہوتے ہیں صحت یاب، گر آتے ہیں کوڑھی بھی

ضیاء ؔالقادری بدایونی، استادِ شکیل ؔبدایونی کے شعر میں سالار موصوف کو یوں خراج عقیدت پیش کیا گیا:

وہ جس کے فیض سے دارالفیوض بہرائچ

وہ جس کی ذات سے دارالاماں ہندوستاں

تحریک آزادی کے ایک اور رہنما اور مشہور شاعر علامہ انور صابری نے مزارِ سالار پر حاضری کے وقت اپنی کیفیت ِ قلبی یوں بیان کی:

مزار حضرت مسعود غازی پر ہوا حاضر

ہے بہرائچ میں دل کی قوتیں بیدار کرنے کو

بسرتی ہے مسلسل عرش سے جو آستانے پر

بہ اندازنظر آن رحمتوں کو پیار کرنے کو

اردو کی نامورناول نگار وافسانہ نگار قرۃ العین حیدر نے اپنے افسانہ ’’آگ کا دریا‘‘ میں بہرائچ کا ذکر اس طرح کیا ہے:’’ بہرائچ کی چھوٹی سی آبادی میں پیلے رنگ کے کچے مکان اِدھر اُدھر بکھرے تھے، خاک آلود راستوں پر سے بیل گاڑیاں گزر رہی تھیں، اور اُداسی کی سی بے رنگ بے نام کیفیت سارے میں طاری تھی۔ سنا تھا کسی زمانہ یہاں ایک عظیم الشان شہرآباد تھا۔ جسے شراوستی کہتے تھے۔ اس کے سوم ونشی بادشاہ بڑے جاہ وجلال والے تھے اور نجومیوں نے شراوستی کے سوہل دیو سے کہا تھا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب اُتَر سے دیوزاد بلندو بالا تُرک آکر تمہارا خاتمہ کردیں گے اور غزنی کے محمود کا ایک سپہ سالار ادھر آیا جس کا نام مسعود غازی تھا اور اس مسعود غازی نے سوہل دیو کا خاتمہ کردیا‘‘۔ یہ سوہل دیو،سوہر۔یا۔سہیر بھی کہلاتا تھا اور اُسے سہواً سہیل بھی لکھا گیا۔

بہرائچ کے ایک مقامی شاعر جمال الدین بابا جمالؔ بہرائچی کا شعر ملاحظہ فرمائیں:

تو وہاں ہے جو کہ ہے مسعود غازی کا دیار

یعنی بہرائچ کہ جس میں ہیں شہیدوں کے مزار

یہ موضوع بہت بھرپور ہے اور ہم کوشش کریں گے کہ اس کی مختلف جہتوں پر دستیاب مواد قارئین کی نذر کیا جائے۔

۔جاری۔

Similar Posts