دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی

ایف سی ہیڈ کوارٹر پشاور پر 3 دہشت گردوں نے حملے کی کوشش کی، دہشت گردی کی اس کارروائی میں 3 جوان شہید اور 11 زخمی ہوئے، جوابی کارروائی میں تینوں دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ دہشت گردی کے واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے سی ٹی ڈی کے مطابق تینوں حملہ آور ایک ہی موٹر سائیکل پر آئے تھے۔ دہشت گردوں کے پاس کلاشنکوف اور 8 سے زائد دستی بم موجود تھے۔ پولیس نے دہشت گردی میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل بھی تحویل میں لے لی ہے۔

 پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والا دہشت گرد حملہ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنی پوری شدت کے ساتھ ملک کی سلامتی اور امن کو چیلنج کر رہا ہے۔ یہ حملہ صرف ایک عمارت یا چند افراد پر نہیں تھا، بلکہ یہ پاکستان کی ریاست، اس کے اداروں اور اس کی سالمیت پر حملہ تھا۔

دہشت گردوں کے عزائم ہمیشہ سے یہی رہے ہیں کہ وہ خوف پھیلائیں، ریاست کو کمزور دکھائیں اور دنیا کو باور کرائیں کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے، مگر اس بار بھی، ہمیشہ کی طرح، ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کر کے نہ صرف حملے کو محدود کیا بلکہ تینوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر کے دشمن کے ارادے خاک میں ملا دیے۔

یہ امر نہایت قابل توجہ ہے کہ تین مسلح دہشت گرد بغیر کسی رکاوٹ یا چیکنگ کے حساس ادارے کے قریب تک پہنچ گئے، اگرچہ سیکیورٹی فورسز نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ ناکام بنایا، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے عناصر شہر کے اندر تک کیسے داخل ہوئے؟ موٹر سائیکل کی برآمدگی، دستی بموں اور کلاشنکوفوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ حملہ نہایت منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق ہلاک شدہ دہشت گردوں کے جسمانی اعضا ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے لیبارٹری بھجوائے جا چکے ہیں، تاکہ ان کی شناخت، ان کے نیٹ ورک اور ان کے ممکنہ سہولت کاروں تک پہنچا جا سکے۔ اس عمل کا مقصد صرف اس حملے کی ذمے داری طے کرنا نہیں بلکہ اس پوری کڑیاں توڑنا ہے جو دہشت گردی کے دھاگے کو مضبوط کرتی ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کا براہِ راست تعلق افغانستان کی موجودہ صورتحال سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں کہ افغانستان کی سرزمین پچھلے کئی برسوں سے پاکستان مخالف گروہوں، بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔

افغانستان کی عبوری حکومت نے دنیا سے وعدے کیے تھے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، لیکن عملی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کی تعداد میں اضافہ، ان کے حملوں کی شدت اور اسلحے کی جدید اقسام کا استعمال اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اب محض چند چھوٹے گروہوں کا کھیل نہیں رہا بلکہ اس کے پیچھے منظم نیٹ ورک، تربیت یافتہ عناصر اور ریاست مخالف ایجنڈے کو پروان چڑھانے والی قوتیں سرگرم ہیں۔

 افغانستان اور بھارت کا تعلق اس معاملے میں بھی بار بار زیرِ بحث آ رہا ہے۔ یہ حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ بھارت خطے میں پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسی پرگامزن ہے اور افغانستان اس کے لیے ایک کلیدی پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور بھارت کی جانب سے وہاں کیے گئے سرمایہ کاری کے نام پر ایسے ڈھانچے قائم کیے گئے جن کا مقصد پاکستان مخالف کارروائیوں کو سہولت دینا تھا۔ آج بھی، جب خطے کی صورتحال بدل چکی ہے، بھارتی نیٹ ورک مختلف روپوں میں فعال ہیں اور وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ خطے کی مجموعی امن و استحکام کے لیے بھی تشویش ناک امر ہے۔

پاکستان نے افغانستان کے لیے ہمیشہ اپنا دامن خیرسگالی سے بھرا رکھا۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی سے لے کر افغان امن مذاکرات کی حمایت تک، پاکستان نے ہر موڑ پر خیر خواہی ثابت کی لیکن افغان عبوری حکومت کی جانب سے اس کا جو بدلہ دیا جا رہا ہے، وہ افسوسناک ہے۔ سرحد پار سے بڑھتی دہشت گردی، پاکستان مخالف دھڑے مضبوط ہونے، اور افغان سرزمین کے دہشت گردوں کے لیے استعمال ہونے جیسے اقدامات نہ صرف اعتماد کے رشتے کو مجروح کر رہے ہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔

افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے عزائم رکھنے والوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہے گا تو وہ خود بھی طویل المدتی نقصان سے نہیں بچ سکے گا۔ دہشت گرد کسی کے وفادار نہیں ہوتے، وہ صرف تباہی کی زبان سمجھتے ہیں، اور اگر انھیں وقت پر لگام نہ ڈالی گئی تو ان کا رخ بغاوت اور خونریزی کی طرف ہی ہوتا ہے، جس سے کوئی ملک محفوظ نہیں رہتا۔

پاکستان کے اندر موجود سہولت کار اس جنگ کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔ یہ عناصر کبھی مذہب کا سہارا لیتے ہیں، کبھی سیاست کا اور کبھی معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز ملک کی سرحدوں کی حفاظت تو کر سکتی ہیں، مگر اندرونِ ملک موجود ایسے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے ریاستی اداروں، پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کو ایک مشترکہ حکمت عملی درکار ہے۔ جب تک ان سہولت کاروں کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا، دہشت گردی کے خاتمے کا خواب ادھورا رہے گا۔ ریاست کو نہایت سختی کے ساتھ یہ پیغام دینا ہوگا کہ جو پاکستان کے دشمنوں کی مدد کرے گا وہ بھی اتنا ہی مجرم ہے جتنا ہتھیار اٹھانے والا دہشت گرد۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک سامنے سے وار کرتا ہے اور دوسرا پشت سے، مگر دونوں ہی قومی سلامتی کے مجرم ہیں۔

سیکیورٹی لیپسز کا مسئلہ بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کا ایک ہی موٹر سائیکل پر مسلح ہو کر حساس اداروں کے قریب تک پہنچ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ کہیں نہ کہیں نگرانی، چیکنگ اور احتیاط میں کمی موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ ریاست ہر لمحے ہر جگہ موجود نہیں ہو سکتی، مگر حساس تنصیبات، سرکاری عمارات اور اہم مقامات پر نگرانی کا نظام مضبوط ہونا چاہیے۔ سی سی ٹی وی کیمرے، جدید ٹیکنالوجی، بائیو میٹرک سسٹمز، بہتر تربیت یافتہ سیکیورٹی اہلکار اور مربوط انٹیلی جنس کا نیٹ ورک اس وقت کی بنیادی ضرورت ہیں۔

قومی سطح پر اتحاد و یکجہتی بھی نہایت اہم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج یا پولیس نہیں لڑسکتی، یہ پورے ملک کی جنگ ہے۔ جب قوم تقسیم کا شکار ہوتی ہے تو دہشت گرد مضبوط ہوتے ہیں اور جب قوم متحد ہوتی ہے تو دشمن کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ قومی سلامتی ایسے معاملات میں سیاست سے بالاتر ہوتی ہے۔ اختلافات اپنی جگہ، مگر دہشت گردی کے معاملے میں ایک آواز ہونا ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔

 اس حملے کی تحقیقات صرف اس واقعے تک محدود نہیں رہنی چاہییں۔ دہشت گرد کہاں سے آئے؟ کس نے انھیں سہولت دی؟ کس نے انھیں راستے دکھائے؟ کون ان کے نظریات کو ہوا دیتا رہا؟ کون ان کے لیے ذرایع فراہم کرتا رہا؟ جب تک ان تمام سوالوں کے جوابات نہیں ملتے، پاکستان کے اندر امن مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے گا۔ ریاست کو فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے، سخت فیصلے کرنے ہوں گے اور پاکستان دشمن عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔

افغانستان کی حکومت کو بھی اپنا کردار دیکھنا ہوگا۔ اسے اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے، اپنی سرزمین دہشت گردوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنی ہوگی اور پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا، جو ہمیشہ اس کا خیر خواہ رہا ہے۔ بصورتِ دیگر خطے میں کشیدگی مزید بڑھے گی، جس کا نقصان صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کو بھی بھرپور بھگتنا پڑے گا۔ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، مگر یقین رکھنا چاہیے کہ پاکستان اس جنگ میں سرخرو ہوگا، کیونکہ یہ وطن لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا، اور آج بھی اس کی حفاظت کے لیے ہمارے جوان جانیں نچھاور کرنے کو تیار ہیں۔

Similar Posts