دوسری جانب سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بھارتی پراکسی فتنۃ الخوارج کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 22دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، جب کہ بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے سندھ سے متعلق متنازع بیان پر وفاقی اور سندھ حکومتوں نے مذمتی قراردادوں کی منظوری دی ہے۔
پاکستان اور خطے کے بدلتے ہوئے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں دہشت گردی، پراکسی جنگوں، علاقائی عدم استحکام اور جارحانہ بیانیوں کا آپس میں گٹھ جوڑ نہ صرف اقوام کے اندر خوف و بے یقینی کو بڑھا رہا ہے بلکہ خطے کو مسلسل کشیدگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ خاص طور پر بھارت اور افغانستان میں موجود کچھ مخصوص قوتوں کا باہمی تعاون اور پاکستان مخالف سرگرمیوں میں اضافہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے۔
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صفِ اول کا ملک رہا ہے اور اب بھی ملک کی اندرونی و بیرونی سلامتی کو نئے چیلنج درپیش ہیں۔ ایسے میں خطے میں موجود وہ عناصر جو دہشت گرد تنظیموں کو سہولت فراہم کرتے ہیں یا انھیں اپنے سیاسی عزائم کے لیے استعمال کرتے ہیں، ایک سنگین خطرے کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔افغان سرزمین سے تاجکستان کی سرحد کے قریب ایل ایل سی شاہین ایس ایم کے تین چینی ملازمین کا قتل اسی سلسلے کی ایک تازہ مثال ہے جس نے ثابت کر دیا کہ دہشت گرد گروہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو چکے ہیں۔ ڈرون کے ذریعے دستی بموں اور آتشیں اسلحے سے کیا جانے والا یہ حملہ نہ صرف دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کا اشارہ ہے بلکہ اس بات کا بھی کہ کسی بھی صورت میں افغانستان کی سرزمین پر موجود شدت پسند گروہوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد اگرچہ کچھ عرصے کے لیے امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید دہشت گرد گروہوں کی کارروائیاں کم ہوں گی، مگر وقت نے ثابت کیا کہ سرحد پار موجود تنظیمیں نہ صرف فعال ہیں بلکہ انھوں نے اپنی کارروائیوں کے دائرہ کار کو مزید وسیع کر لیا ہے۔
ان کا ہدف صرف پاکستان نہیں رہا بلکہ دیگر پڑوسی ممالک بھی اب ان کے نشانے پر ہیں۔ پاکستان کے اندر امن و امان کی صورتحال پر بھی یہ تمام عوامل براہ راست اثر انداز ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکیورٹی فورسز نے بھارتی پراکسی فتنۃ الخوارج کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 22 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جو ایک بڑی کامیابی ہے۔ یہ کارروائی اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کا داخلی نیٹ ورک اب بھی متحرک ہے، جسے بیرونی قوتوں کی مدد حاصل ہے۔ قبائلی اضلاع میں خوارج کے چھوڑے گئے بارودی مواد اور سرنگوں کی صفائی کا عمل اس قدر وسیع ہے کہ اب تک 82 مربع کلومیٹر علاقہ کلیئر کیا جا چکا ہے، جو پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور عزم کا واضح ثبوت ہے۔
پاک فوج کی مسلسل جدوجہد، قربانیوں اور پیشہ ورانہ مہارت نے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس نہج تک پہنچایا ہے جہاں دشمن کی کمر ٹوٹ چکی ہے مگر اس کے باقی ماندہ عناصر نئی حکمتِ عملی کے تحت سرگرم ہیں، جنھیں بیرونی سرپرستی حاصل ہے۔صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے اس کامیاب کارروائی پر فورسز کو خراجِ تحسین پیش کیا اور یہ یقین دہانی کرائی کہ ریاست ہر سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت کا متحد ہونا ہی وہ نکتہ ہے جو دشمن کو یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان نہ صرف اپنے داخلی محاذ پر مضبوط ہے بلکہ بیرونی دباؤ کو بھی پوری قوت سے برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کامیابی کے لیے علاقائی سیاست اور ہمسایہ ممالک کے رویے بھی امن و استحکام کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسی تناظر میں بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کا سندھ سے متعلق بیان نہایت اشتعال انگیز اور خطے کے امن کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’آج شاید سندھ کی سرزمین انڈیا کا حصہ نہیں ہے، لیکن تہذیبی طور پر سندھ ہمیشہ انڈیا کا حصہ رہے گا اور ممکن ہے کل کو سندھ واپس انڈیا میں شامل ہو جائے‘‘ نہ صرف ایک غیر ذمے دارانہ بیان ہے بلکہ اس سے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کھل کر سامنے آتے ہیں۔ یہ بیان پاکستان کی خود مختاری پر براہِ راست حملہ ہے اور ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پہلے ہی انتہا کو چھو رہی ہے۔ مئی میں ہونے والی فضائی جھڑپوں کے بعد سے دونوں طرف سے سخت بیانات کا سلسلہ جاری ہے، مگر راج ناتھ سنگھ کا بیان اس کشیدگی میں ایک نئی شدت لے آیا ہے۔پاکستان کے عوام، تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا صارفین نے اس بیان پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے ’’ علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ‘‘ قرار دیا ہے۔
یہ ردعمل اس لیے بھی فطری ہے کہ بھارت کی جانب سے ماضی میں بھی ایسے بیانات دیے جاتے رہے ہیں جن کا مقصد پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنا ہوتا ہے، لیکن اس بار معاملہ اس لیے زیادہ سنگین ہو گیا کہ بھارت نے براہِ راست پاکستان کے ایک بڑے صوبے کو اپنا ’’ ثقافتی حصہ‘‘ قرار دینے کی کوشش کی، جو کسی طور قبول نہیں۔ یہ بیانیہ نہ صرف حقائق کو مسخ کرتا ہے بلکہ بنیادی طور پر وہی ذہنیت ظاہر کرتا ہے جو ہندو توا نظریاتی حلقوں میں پروان چڑھ رہی ہے، ایک ایسی ذہنیت جو خطے کو امن کے بجائے تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے۔اس بیان کا سب سے اہم پہلو سندھ کی ہندو برادری کا ردعمل ہے۔
بھارت شاید یہ سمجھتا رہا ہے کہ پاکستان کی اقلیتیں خصوصاً ہندو کمیونٹی اس کے ایسے بیانات پر خوش ہوگی، مگر اس کے برعکس سندھ کی ہندو برادری نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ پاکستان ہمارا وطن ہے اور ہم یہاں محفوظ ہیں۔‘‘ تاجر برادری، نوجوانوں اور مختلف سماجی رہنماؤں نے واضح کیا کہ بھارت کا یہ بیان نہ صرف اشتعال انگیز ہے بلکہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ انھوں نے عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ بھارت کے اس غیر ذمے دارانہ رویے کا نوٹس لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے بیانات نفرت اور انتشار کو جنم دیتے ہیں، امن اور بھائی چارے کو نہیں۔ یہ ردعمل اس بات کی بھرپور دلیل ہے کہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں خود کو پاکستانی شناخت کے ساتھ محفوظ اور مطمئن سمجھتی ہیں اور بیرونی سیاسی بیانیے کو مسترد کرتی ہیں۔
اس صورتحال میں پاکستان کو دو محاذوں پر بیک وقت بھرپور توجہ دینا ہو گی۔ ایک طرف داخلی سیکیورٹی اور دہشت گردی کے تدارک کا چیلنج ہے، تو دوسری جانب عالمی سطح پر بھارت کے توسیع پسندانہ بیانات اور خطے میں اس کی سازشی سرگرمیوں کا مقابلہ بھی ضروری ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ سفارت کاری کو ترجیح دی ہے اور بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
تاہم تعلقات کی بہتری یکطرفہ نہیں ہوتی۔ جب بھارت کی سیاسی قیادت اس طرح کے بیانات دیتی ہے جو علاقائی امن کو سبوتاژ کرتے ہیں تو پاکستان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ مؤثر سفارتی جواب دے اور عالمی برادری کے سامنے بھارت کے عزائم کو بے نقاب کرے۔افغانستان کے حوالے سے بھی پاکستان کو ایک واضح اور جامع حکمت عملی پر عمل کرنا ہو گا، کیونکہ جب تک افغان سرزمین دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنی رہے گی، پاکستان سمیت پورا خطہ غیر محفوظ رہے گا۔
افغانستان کی موجودہ حکومت کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرنی ہو گی کہ دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی نہ صرف علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ افغانستان کے اپنے مستقبل کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ پاکستان کو اس ضمن میں سفارتی ذرایع، سرحدی انتظامات اور انٹیلیجنس تعاون کو مزید مضبوط کرنا ہو گا تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکی جا سکے۔پاکستان کے لیے ایک اور اہم پہلو داخلی استحکام ہے۔ داخلی سیاسی انتشار، غیر ضروری تنازعات اور باہمی محاذ آرائیاں دشمن قوتوں کے لیے مواقع پیدا کرتی ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سیاسی قیادت یکجہتی کا مظاہرہ کرے تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کا مؤقف مضبوط ہو۔
آخر میں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ علاقائی امن و استحکام کا راستہ مشترکہ کوششوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ پاکستان ایک ذمے دار ریاست کے طور پر ہمیشہ امن کا خواہاں رہا ہے، مگر امن اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب بھارت جیسی طاقتیں اپنی توسیع پسندانہ سوچ ترک کریں، اشتعال انگیز بیانات دینے کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دیں اور خطے کے حقائق کو تسلیم کریں۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے اور آیندہ بھی کرتا رہے گا، لیکن امن کی خواہش کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ملک اپنی آزادی، خود مختاری اور سرحدوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ کرے گا۔ پاکستان اپنی سر زمین، اپنے لوگوں اور اپنے مستقبل کے دفاع کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہے گا، چاہے دشمن باہر کا ہو یا اندرونی سہولت کاروں کے ذریعے کام کر رہا ہو۔