آج کی پاکستانی نسل کو شاید معلوم نہ ہو گا کہ 1960 اور 1970کی دہائیوں میں دنیا بھر میںغیرمعمولی انقلابی جوش و خروش کا دور دورہ تھا۔ نوآبادیاتی نظام کے زوال، سامراجی قوتوں کے خلاف جدوجہد، اور نوجوانوں کی تحریکوں نے مل کر اس عالمی منظرنامے کو تبدیل کر دیا جس میں پرانی طاقتیں چیلنج ہوئیں اور نئی فکری و سیاسی جہتیں اْبھریں۔
یہ وہ دور تھا جب طلباء کے احتجاجی مظاہرے، شہنشاہیت کے خلاف آگاہی، اور معاشی و سماجی انصاف کی فراہمی کے لیے عوامی تحاریک کے درمیان حدیں مٹ گئی تھیں، یہ سب مطالبات اور عوامی غیظ و غضب ہم آواز ہوگئے تھے۔ کیا آج کوئی یہ توقع کر سکتا ہے کہ افریقہ کے ایک سامراج مخالف لیڈر کے قتل کے خلاف پاکستان میں احتجاجی مظاہرے ہوں۔ لیکن اُس دور میں ایسا ہو رہا تھا۔ 1960 میں کانگو نے بیلجئم سے آزادی حاصل کی، اور ’پیٹریس لوممبا‘ سامراج مخالف عوامی تحریک کے رہنما کے طور پر پہلے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ لوممبا کی سوچ افریقی وحدت، خودمختاری، اور سامراج کے خلاف مزاحمت پر مبنی تھی۔
اْن کی یہ جرات مندانہ روش مغربی طاقتوں، خصوصاً امریکا اور بیلجئم کے لیے ناقابلِ برداشت تھی، کیونکہ وہ کانگو کے قدرتی وسائل، خاص طور پر معدنیات، پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ چند ماہ کے اندر ہی لوممبا کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے برطرف کر دیا گیا اور پھر اْنہیں بیلجئم اور سی آئی اے کی ملی بھگت سے قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے نے نہ صرف افریقہ بلکہ تیسری دنیا کے ممالک میں شدید ردعمل پیدا کیا۔ سی آئی اے کی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات اس سازش کو تسلیم کرتی ہیں۔ لوممبا کے قتل میں کانگو کے مقامی باغی گروہ بیرونی طاقتوں کے آلہء کار بنے۔
1968کی طلباء تحریک اتنے بڑے پیمانے پر اْبھری تھی کہ دنیا کے 50 ملکوں میں بیک وقت لاکھوں طالب علم سڑکوں پر آگئے تھے۔ فرانس میں ایک کروڑ سے زائد طلباء اور مزدوروں نے صدر ڈیگال کی حکومت کا یہ حال کر دیا تھا کہ اس کا خاتمہ قریب نظر آتا تھا۔ اس تحریک کی قیادت ڈینیل کوہن بینڈٹ Daniel Cohn Bendit نامی طالب علم رہنما کے ہاتھ میں تھی۔ اسی طرح مغربی جرمنی میں طالب علم رہنما روڈی ڈاچکی Dutschke Rudiنے امریکی عسکریت اور جرمنی کی افسر شاہی میں نازی پارٹی کے دور کی باقیات کے خلاف زبردست احتجاج شروع کیا۔ اْدھر امریکی یونیورسٹیوں میں ویت نام جنگ کے خلاف زبردست مظاہرے شروع ہو گئے۔
برطانیہ میں زیر تعلیم طالب علم طارق علی نے اس عالمی احتجاجی ماحول میں غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ وہ ایک ایسی شخصیت کے طور پر اْبھر کر سامنے آئے جنھوں نے نہ صرف یہ سی بی ایس اور بی بی سی جیسے بین الاقوامی نشریاتی اداروں پر امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر سمیت اہم مغربی پالیسی سازوں کے ساتھ مکالمہ کیا بلکہ لندن میں بیٹھ کر دنیا کے دیگر ممالک میں جاری تحریکوں کو باہم مربوط کرنے کا باعث بھی بنے۔
لاہور کے قلب میں، مال روڈ پر، طلبہ اور محنت کش طبقے کے افراد لوممبا کے قتل کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اْن کے مظاہرے فقط ایک افریقی رہنما کے حق میں نہیں تھے، بلکہ یہ اْس عالمی بیداری کا حصہ تھے جو سامراجی مظالم کے خلاف اْبھر رہی تھی۔ یہ مظاہرے اس بات کا اظہار تھے کہ پاکستان کی ترقی پسند قوتیں عالمی سطح پر انصاف اور آزادی کی تحریکوں سے جڑی ہوئی تھیں۔
اسی تسلسل میں، ویتنام کی جنگ بھی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی ایک اور آزمائش بنی۔ امریکا کی طرف سے ویتنام، لاؤس، اور کمبوڈیا پر لاکھوں ٹن بمباری، اور معصوم شہریوں پر نیپام بم جیسے مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے ردِ عمل میں دنیا بھر کے عوام احتجاج کے لیے نکل پڑے۔
اسی دوران ، ممتاز برطانوی فلسفی اور امن پسند دانشور برٹرینڈ رسل ، نے بین الاقوامی سطح پر امریکا کے جنگی جرائم کی مذمت کے لیے ’’رسل ٹریبونل‘‘ قائم کیا۔ یہ ایک غیر سرکاری عدالت تھی جس میں معروف فکری اور ادبی شخصیات جیسے ژاں پال سارتر، سیمون دی بووا، اور جیمز بالڈون جیسے معروف دانشور شامل تھے۔ ٹریبونل کا مقصد ویتنام میں امریکی مظالم کی دستاویزی شہادتیں جمع کر کے عالمی رائے عامہ کو بیدار کرنا تھا۔ اس ٹریبونل میں جنوبی ایشیا سے نمایندگی پاکستان کے میاں محمود علی قصوری کو دی گئی۔
پاکستان میں اس وقت نیشنل عوامی پارٹی (NAP) اور ترقی پسند طلبہ تنظیمیں فعال تھیں۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں ترقی پسند سیاست کو کُچل دیا گیا۔ قوم پرستانہ تحریکوں کو ’’بغاوت‘‘ قرار دے کر دبایا گیا۔ یوں کشمیر جس کی آزادی کے لیے لبرل ڈیموکریٹ، پروگریسو اور سوشلسٹ حلقے ہراول دستے کے طور پر پیش پیش ہوتے تھے، انھیں بے دخل کرکے اس اہم مسئلے کو مذہبی حلقوں کے حوالے کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی جنھوں نے اسے اپنے بیانیے میں شامل کر لیا، جس سے عالمی سطح پر کشمیر کاز کی پذیرائی متاثر ہوئی۔
بائیں بازو کی قوتوں کا زوال صرف پاکستان تک محدود نہ تھا۔ نوآبادیاتی چنگل سے آزادی حاصل کرنے والے ملک جلد ہی آمریت کی زنجیروں میں جکڑے گئے۔ کانگو جو کبھی پیٹریس لوممبا کے حقیقی آزادی کے خوابوں کا مرکز تھا ایک فوجی آمر ‘موبوٹو سیسی سیکو’ کی سربراہی میں اس کی ذاتی جاگیر بن کر رہ گیا۔ الجیریا جس نے شاندار جد و جہد کے نتیجے میں آزادی حاصل کی تھی ‘ بومدین ‘ کے زیر اقتدار سوشلسٹ حکمرانی کے پنجرے میں بند ہو کر رہ گیا۔
حتٰی کہ ویت نام نے امریکا کے مقابل شاندار فتح حاصل کرنے کے بعد ایسی معاشی پالیسیاں اختیار کر لیں جنھوں نے اسے اپنے سابق اتحادیوں سے دور کر دیا۔ 1960 کی دہائی میں پروان چڑھنے والا اخلاقی اْصولوں کی برتری پر اعتقاد اور دنیا کو اسے تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی جد و جہد 1980 کی دہائی میں مفادات کی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔ فرانس کے ممتاز سیاسی دانشور، جنوبی ایشیاء کے امور کے ماہر اور مصنفChristophe Jafferlot اپنی کتاب The Pakistan Paradox میں لکھتے ہیں، ” یہ وہ آخری موقع تھا جب پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک نے مقامی سیاسی اور فکری حلقوں کے ساتھ ایک موثر تال میل پیدا کر لیا تھا اور اس باہمی تعاون نے ایک مقصد کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے برسر اقتدار آ کر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بائیں بازو کی قوت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔