غزہ کی شکار گاہ میں جنگ بندی کا ڈھکوسلا

سات اکتوبر دو ہزار تئیس سے چوبیس اکتوبر پچیس تک مغربی کنارے پر اسرائیلی فوج اور مسلح یہودی آبادکار ڈھائی سو بچوں سمیت گیارہ سو فلسطینی قتل اور گیارہ ہزار کو زخمی کر چکے ہیں۔جب کہ اس عرصے میں مغربی کنارے پر اکیس ہزار سے زائد گرفتاریاں ہوئی ہیں۔

ہیروشیما شہر کے نصف رقبے کے برابر مشتمل غزہ پر پانچ سے چھ ہیروشیما سائز جوہری بموں کی طاقت کے برابردو بار برسایا جا چکا ہے۔غزہ اس وقت کم ازکم پانچ کروڑ ٹن سے زائد ملبے کا ڈھیر ہے۔ستر ہزار ہلاکتیں تو باضابطہ گنی جا چکی ہیں مگر لگ بھگ دس ہزار لاپتہ لاشیں ملبے تلے دبی پڑی ہیں اور انھیں نکالنے کے لیے جو بھاری مشینری درکار ہے اس کی درآمد پر اسرائیل نے پابندی لگا رکھی ہے۔

جو غیر ملکی ڈاکٹر غزہ یا مغربی کنارے پر زخمیوں کے علاج اور سرجری کے لیے آنا چاہتے ہیں انھیں اسرائیل ویزہ دینے سے انکاری ہے۔ دس اکتوبر کی جنگ بندی سے اب تک اسرائیل چھ سو بار سے زائد اس کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔اس جنگ بندی کے بعد سے اب تک لگ بھگ چار سو مزید فلسطینی شہید اور ایک ہزار سے اوپر زخمی ہو چکے ہیں۔

جنگ بندی سمجھوتے کے تحت روزانہ چھ سو ٹرکوں کو رسد لانے کی اجازت دی جانی تھی مگر اوسطاً ڈیڑھ سو ٹرکوں کو ہی غزہ کے اندر آنے دیا جا رہا ہے۔قحط زدگان کے لیے کھانے پینے کی اشیا کے نام پر گوشت ، ڈیری مصنوعات یا سبزی کے بجائے صرف وہ ڈبہ بند اشیا لانے کی اجازت ہے جن میں بہت کم غذائیت پائی جاتی ہے۔جب کہ ادویات ، خیموں ، گرم کپڑوں اور تعمیراتی میٹریل لانے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔

امدادی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ اس وقت خوراک کی جو مقدار لانے کی اجازت ہے وہ ایک چوتھائی سے بھی کم آبادی کی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزیں ( انرا ) کے سرحد پار گوداموں میں اتنی خوراک پڑی ہے جو غزہ کی پوری آبادی کی تین ماہ کی ضروریات پوری کر سکتی ہے مگر انرا کو اسرائیل نے دھشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔حالانکہ علامی عدالتِ انصاف نے اکتوبر میں جنگ بندی کے بعد یہ رولنگ دے رکھی ہے کہ اسرائیل کسی بھی بین الاقوامی امدادی ایجنسی بشمول انرا کا غزہ میں داخلہ نہیں روک سکتا۔عدالت نے اسرائیل کی یہ دلیل مسترد کر دی کہ انرا غیر جانبدار ادارہ نہیں ۔عدالت کا کہنا ہے کہ انرا بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ امدادی ادارہ ہے۔

اگرچہ سترہ نومبر کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بیس نکاتی ٹرمپ غزہ امن منصوبے کی منظوری دے دی ہے مگر دو ہفتے گذرنے کے باوجود اس منصوبے کے تحت ٹرمپ کی صدارت میں جو امن بورڈ اور غزہ کا انتظام سنبھالنے کے لیے جو بین الاقوامی عبوری انتظامیہ قائم ہونی تھی اس کا دور دور تک اتا پتہ نہیں۔یہ انتظام بھی اسرائیل کی رضامندی سے تشکیل پانا تھا تاکہ فلسطینیوں پر براہِ راست قبضے کو اسرائیلی حمائیت یافتہ بین الاقوامی قبضے کا روپ دیا جا سکے۔اس عرصے میں اگر کوئی شرپسندی مسلسل ہے تو وہ لگاتار اسرائیلی حملے ہیں جن کی مذمت امریکا سمیت کسی ایک ملک نے بھی کھل کے نہیں کی جو ٹرمپ امن پلان کے ضامن ہیں۔البتہ روائیتی افسوس اور رسمی تشویش کے مشینی بیانات جاری ہیں۔

ایسے غیر یقینی حالات میں بین الاقوامی فورس کی تشکیل بھی مخدوش ہے جسے غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کی ذمے داریاں سنبھالنی ہیں۔اسرائیل کی شعوری کوشش ہے کہ امن فوج کی تشکیل کی نوبت ہی نہ آئے تاکہ نسل کشی کے لیے ہاتھ کھلا رہے۔ویسے بھی ٹرمپ پلان میں نسل کشی کی روک تھام کا کوئی نکتہ شامل نہیں ۔

نام نہاد جنگ بندی سے بس اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ پہلے اگر روزانہ سو عورتیں ، بچے ، بوڑھے اور جوان شہید ہو رہے تھے اب ان کی تعداد کم ہو گئی ہے مگر غذائی اور انسانی امداد کی ترسیل پر مسلسل پابندی کے سبب نسل کشی کا عمل متبادل طریقوں سے جوں کا توں جاری ہے۔

اس نام نہاد جنگ بندی کا اسرائیل اور اس کی اتحادی حکومتوں کو سب سے بڑا فائدہ پبلک ریلیشننگ کے میدان میں ہوا ہے۔جنگ بندی کے تاثر کے سبب بڑے بڑے مذمتی مظاہرے نہیں ہو رہے۔جن حکومتوں نے علامتی طور پر اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے کا دعوی کیا تھا اب جرمنی سمیت ان ممالک نے حالات کو نارمل فرض کر کے کاغذی پابندیاں بھی ہٹا لی ہیں۔یعنی جنگ بندی نے اسرائیل کی نسل کش پالیسی کو ایک اضافی سیاسی و سفارتی نقاب فراہم کر دیا ہے جسے وہ ہر روز نوچ کر پھینکنے اور پہننے کے لیے پہلے سے زیادہ آزاد ہے۔

اسرائیل کا اس وقت غزہ کے تریپن فیصد علاقے پر مکمل فوجی قبضہ ہے۔نہ ہی ٹرمپ پلان پر پوری طرح عمل درآمد ہو گا اور نہ ہی اسرائیل سے مطالبہ ہو گا کہ وہ منصوبے کے اگلے مرحلے میں اپنی فوجیں مزید پیچھے ہٹائے۔

اسرائیل نے اپنے قبضے کی حدبندی کے لیے ایک خیالی زرد لائن بنا رکھی ہے۔چونکہ یہ خیالی ہے اس لیے روزانہ آگے پیچھے ہوتی رہتی ہے۔اس کی کوئی واضح حدبندی جان بوجھ کر نہیں کی گئی۔

 غزہ کے کسی باشندے کو اس تصوراتی زرد لائن کا معلوم نہیں چنانچہ وہ لاعلمی میں اسرائیلی فوج کا مسلسل نشانہ بن رہے ہیں۔امریکا سمیت کسی بھی اتحادی نے جنگ بندی کے بعد سے آج تک اسرائیل سے مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اس نام نہاد خطِ زرد پر واضح نشانیاں لگائے تاکہ فلسطینی اسے عبور کرنے میں احتیاط برتیں۔

اسرائیل ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اس سے روزانہ کے شکار میں کمی آ سکتی ہے۔حتمی مقصد یہ ہے کہ یا تو تنگ آ کے فلسطینی بچا کھچا علاقہ بھی خالی کر دیں یا پھر انھیں لاشوں میں تبدیل کر کے یہ علاقہ خالی کروا لیا جائے۔جنگ یا جنگ بندی۔دونوں صورتوں میں اسرائیل کا بنیادی ہدف جوں کا توں ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

Similar Posts