امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد خصوصی ایلچی برائے یوکرین کیتھ کیلگ نے کہا ہے کہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدہ “بالکل قریب” ہے اور صرف دو بڑے معاملات، ڈونباس کا مستقبل اور زاپوریزیا نیوکلیئر پلانٹ کے کنٹرول پر بات چیت تعطل کا شکار ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کے خصوصی ایلچی کیتھ کیلگ نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات آخری مراحل میں ہیں اور یہ مرحلہ ہمیشہ سب سے مشکل ہوتا ہے۔
کیتھ کیلگ نے کہا کہ دو بنیادی مسائل اب تک حل طلب ہیں جن میں ایک ڈونباس خطے کا مستقبل ہے جس میں دونیتسک اور لوہانسک شامل ہیں۔ جبکہ دوسرا زاپوریزیا نیوکلیئر پاور پلانٹ کا انتظام، جو اس وقت روس کے کنٹرول میں ہے اور یورپ کا سب سے بڑا جوہری پلانٹ ہے۔
کیتھ کیلگ کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ دونوں نکات طے ہو گئے، تو باقی معاملات آسانی سے حل ہو جائیں گے۔
روس یوکرین جنگ بندی میں ایک علاقہ رکاوٹ کیسے بنا ہوا ہے؟
یوکرین جنگ 2022 میں روسی حملے کے بعد شروع ہوئی اور یہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کا سب سے خونریز تنازع بن چکی ہے۔ کیلگ کے مطابق روس اور یوکرین دونوں جانب مجموعی ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، تاہم دونوں ممالک اپنے نقصانات کے درست اعداد و شمار جاری نہیں کرتے۔
یوکرین تنازع کا حل اتنا آسان نہیں: ٹرمپ کا اعتراف
روس اس وقت یوکرین کے تقریباً 19.2 فیصد علاقے پر قابض ہے، جن میں کریمیا، پورا لوہانسک، 80 فیصد سے زائد دونیتسک، اور خیرسون و زاپوریزیا کے بڑے حصے شامل ہیں۔
گزشتہ ماہ 28 نکاتی امریکی مسودہ امن تجاویز کے لیک ہونے سے یوکرین اور یورپی حکام میں تشویش پھیل گئی تھی، جن کے مطابق ان تجاویز میں روس کے کئی بڑے مطالبات تسلیم کیے گئے تھے۔
پیوٹن یوکرین سے جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں: ٹرمپ کا دعویٰ
ابتدائی امریکی مسودے کے مطابق زاپوریزیا نیوکلیئر پلانٹ کو انٹرنیشنل ایٹمی ایجنسی کی نگرانی میں دوبارہ چلایا جائے گا اور اس کی پیدا ہونے والی بجلی یوکرین اور روس میں برابر تقسیم ہو گی۔
ادھر یوکرینی صدر وولودیمیر زیلینسکی نے بتایا کہ انہوں نے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر سے طویل اور اہم گفتگو کی ہے۔ روسی حکام نے کہا ہے کہ امن معاہدے کے مسودے پر اہم کام کی ذمہ داری جیرڈ کشنر کو دی جارہی ہے۔