چاک اردو افسانہ کانفرنس

افسانہ نگار صائمہ صمیم کی سرکردگی میں ادب کی خدمت میں مصروف تنظیم چاک فکشن فورم نے کراچی کی ادبی دنیا میں تیزی سے اپنا مقام بنایا ہے، جس کا سبب اس تنظیم کی فعالیت اور اس کے تحت باقاعدگی سے منعقد ہونے والی ’’چاک اردو افسانہ کانفرنس‘‘ ہے، جو شہر کا ایک اہم اور قابل ذکر ادبی ایونٹ بن چکی ہے۔

14 اور 15نومبر کو چوتھی چاک اردو افسانہ کانفرنس کا انعقاد ہوا، جسے ہر اعتبار سے ایک کام یاب اور ادب پرور اجتماع قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کانفرنس کا احوال پیش خدمت ہے:

پہلے دن کا احوال

14 نومبر 2025ء کا دن اردو افسانے کے نام تھا۔ چاک فکشن فورم کی جانب سے منعقدہ دو روزہ چاک اردو افسانہ کانفرنس کا پہلا روز ادیبوں، ناقدین، محققین اور ادب دوستوں کو ایک ہی فکری چھت تلے اکٹھا کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ داخلی دروازے سے لے کر ہال کے اسٹیج تک ہر جگہ ایک خاموش سی ادبی دھڑکن محسوس ہوتی تھی — یہ وہ دھڑکن تھی جو ہر اس قلم کار کے دل میں بستی ہے جو فکشن کو محض صنف نہیں، ایک زندہ تجربہ سمجھتا ہے۔

کانفرنس کا آغاز روایتی مگر پراثر انداز میں ہوا۔ قاری حامد محمود قادری کی تلاوتِ قرآنِ پاک کی گونج نے فضا کو تقدس دیا اور نعتِ رسولِ مقبول ﷺ نے دلوں کو ایک روحانی نشست میں باندھ دیا۔ اس کے بعد باضابطہ طور پر پہلے دن کی علمی نشستوں کا آغاز ہوا۔

پہلا سیشن — نظریات کا نیا در، فکر کی نئی سمتیں

موضوع: اردو افسانے پر مصنوعی ذہانت اور سوشل میڈیا کے اثرات

٭   تجزیاتی مطالعہ   ٭   صدارت: پروفیسر سحر انصاری

٭   کلیدی خطبہ: ڈاکٹر تہمینہ   ٭   خطبۂ استقبالیہ: صائمہ صمیم

٭   نظامت: غزال خالد

پہلے سیشن نے کانفرنس کے علمی معیار کی بنیاد فوراً ہی بلند کردی۔

صدارت کی کرسی پر جلوہ افروز پروفیسر سحر انصاری کی موجودگی نے ہال میں ایک گمبھیر سنجیدگی طاری رکھی ،  وہ سنجیدگی جو صرف بڑے استادوں کی موجودگی سے پیدا ہوتی ہے۔

ڈاکٹر تہمینہ نے جب اپنا کلیدی خطبہ شروع کیا تو جیسے پورا ہال ایک نئے مکالمے کی دنیا میں داخل ہوگیا۔ ان کا موضوع نہ صرف جدید تھا بلکہ اس شدت سے ہمارے عہد کے ساتھ جڑا تھا کہ ہر جملہ ایک نئے سوال کو جنم دیتا تھا:

٭   مصنوعی ذہانت کیا افسانے کی سمت بدل رہی ہے؟

٭   سوشل میڈیا کیا نئی کہانیوں کا مسودہ بن رہا ہے؟

کیا ڈیجیٹل دنیا نے انسانی تجربے کو سطحی کردیا ہے یا مزید پراثر کردیا ہے؟

ڈاکٹر تہمینہ نے تخلیق، ٹیکنالوجی اور سماجی رویّوں کے درمیان تعلق کو نہایت واضح انداز میں پرکھا۔ ان کی گفتگو کا رنگ نظریاتی بھی تھا اور زمینی بھی — یہی توازن ان کا امتیاز بنا۔

سیشن کی ابتدا میں صائمہ صمیم نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کانفرنس کی چار سالہ روایت کو ایک ادبی تحریک کا درجہ دیا۔ ان کے لہجے میں وہی محبت اور لگن تھی جو کسی فکشن سے جڑے شخص کے دل میں فن کے لیے ہوتی ہے۔

غزال خالد کی شستہ، متوازن اور دل کش نظامت نے سیشن کو خوش گوار روانی عطا کی۔

دوسرا سیشن ،  تہذیبی زوال کا نوحہ اور ادیب کا کردار

٭   موضوع: اخلاقی گراوٹ، عدم برداشت کا معاشرہ اور ادیب کی ذمہ داری

٭   صدارت: پروفیسر سحر انصاری      ٭   ماڈریٹر: منصور ساحر

٭   شرکائے گفتگو: اخلاق احمد، منزہ سہام مرزا، عمار یاسر، ہدایت سائر

پہلے سیشن کی فکری تپش ابھی پوری طرح ٹھنڈی بھی نہ ہوئی تھی کہ دوسرا سیشن ایک نئے درد، نئی تشویش اور نئے سوالات کے ساتھ شروع ہوا۔ موضوع اس قدر اہم تھا کہ ہال میں ایک غیرمرئی سنجیدگی محسوس کی جا سکتی تھی۔

اس بار بھی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی، مگر گفتگو کا رنگ بدل چکا تھا۔

یہاں موضوع کتابی کم اور عملی زیادہ تھا ، معاشرے کی رگوں میں دوڑتی سختی، تلخی اور عدم برداشت۔

منصور ساحر نے گفتگو کو جس خوب صورتی سے مربوط رکھا، وہ ایک ماہر ماڈریٹر کی پہچان تھی۔

مقررین نے اپنی گفتگو میں وہ دکھ بیان کیے جنہیں ہم روز اپنے آس پاس برتتے ہیں:

٭   اخلاقی زوال    ٭   رویّوں میں سختی

٭   اختلافِ رائے کی گنجائش کا خاتمہ

اور اس ماحول میں ادیب کی ذمہ داری

اخلاق احمد نے معاشرتی رویوں پر پختہ مشاہدات پیش کیے۔

منزہ سہام مرزا نے عورت کے تناظر میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو واضح کیا۔

عمار یاسر نے فکشن میں مزاحمت کی نئی لہروں پر روشنی ڈالی۔

ہدایت سائر نے ادیب کی اخلاقی ذمہ داریوں کے تاریخی پہلو کو بیان کیا۔

یہ سیشن دراصل ہمارے عہد کا نوحہ تھا — مگر ادیب کی امید کے ساتھ۔

تیسرا سیشن

٭   موضوع: افسانے کے تنقیدی پہلو

٭   صدارت: جمال نقوی    ٭   ماڈریٹر: رحمان نشاط

شرکائے گفتگو: پروفیسر نسیم، انجم، سلمان صدیقی، کاشف رضا، نصیر سومرو

تیسرے سیشن نے کانفرنس کو اس کے تخلیقی مدار سے اٹھا کر تنقیدی فضا میں داخل کیا۔

یہاں گفتگو جذباتی یا سماجی نہیں بلکہ فنی اور فکری تھی۔

جمال نقوی نے صدارت کے آغاز میں افسانے کی تنقیدی روایت اور اس کے ارتقا کو جس خوب صورتی سے بیان کیا، اس نے پورے سیشن کا معیار مقرر کردیا۔

رحمان نشاط نے بڑی نرمی اور مہارت کے ساتھ گفتگو کو مرحلہ وار آگے بڑھایا۔

شرکائے گفتگو نے افسانے کے فن، اس کی تکنیک، ساخت، علامت، مکالمہ، بیانیہ، اور معاصر رجحانات پر بھرپور اظہارِخیال کیا۔ اسلوبیاتی، سماجی، تہذہبی اور معاشرتی ہر پہلو پر تنقیدی اثر کو پرکھا گیا۔

ہر مقرر نے اپنے حصے کا چراغ جلایا اور یوں یہ سیشن افسانہ تنقید کا ایک مکمل منظرنامہ بن گیا۔

چوتھا سیشن ،  نئی آوازیں، نئی کتب، نئی فضا

٭   موضوع: نئی ادبی کتب کا تعارف     ٭   صدارت: زیب اذکار

٭   نظامت: گل بانو

کتب:

٭   صورت گری …  روبینہ یوسف

٭   دھند کے پار … عینی عرفان ٭   سچ سے پہلے … نکہت اعظمی

پہلے دن کا آخری سیشن رنگوں سے بھرا ہوا تھا ، یہ وہ لمحہ تھا جب تخلیق اپنا چہرہ دکھاتی ہے۔

زیب اذکار کی مدبرانہ صدارت نے سیشن کو وقار بخشا، جبکہ گل بانو نے نہایت سلیقے سے ہر کتاب کا تعارف پیش کیا۔

پیش کی گئی تینوں کتب نے موضوعات، زبان اور کرداروں کے تنوع کے ساتھ سامعین کو متاثر کیا۔

یہ سیشن دراصل نئے لکھنے والوں، نئی تخلیقات، اور ابھرتی ادبی لہروں کا جشن تھا۔

پہلے دن کی نشستیں ثابت کرتی ہیں کہ چاک فکشن فورم محض ایک ادارہ نہیں، بلکہ اردو افسانے کی نئی روح بن چکا ہے۔

یہ محفلیں صرف گفتگو نہیں تھیں — یہ ذہنوں کی تراش خراش کا عمل تھا۔

الفاظ یہاں سوچ میں ڈھلتے ہیں، سوچ فضا میں گھلتی ہے، اور فضا اگلی نسل کے لکھنے والوں تک پہنچتی ہے۔

پہلا دن یوں گزرا جیسے افسانے کی تاریخ ایک نئے باب کی طرف پلٹ رہی ہو۔

……………

 چوتھی دو روزہ چاک اردو افسانہ کانفرنس ،  دوسرا دن

تخلیقی تجربات، علامتی جہتیں اور فکشن کی نئی زمینیں۔

چاک فکشن فورم کی دو روزہ کانفرنس کا دوسرا دن ایک ایسے تخلیقی سفر کی توسیع تھا جس نے اردو افسانے کے نئے رخ دکھائے۔ پہلے دن فکری اور تجزیاتی گفتگو کے بعد، دوسرا دن تکنیک، جمالیات، علامت اور مکالمے کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کا دن تھا۔ اہل ادب اور سخن ور ایک نئے خوش اور لگن کے ساتھ شریک تھے۔

 پہلا سیشن …  افسانچہ

دن کا آغاز افسانچہ کے فن سے ہوا۔ یہ وہ جہت ہے جو مختصر ہوتے ہوئے بھی پوری زندگی کا تاثر دے جاتی ہے۔

معراج جامی کی بصیرت افروز صدارت اور مہ جبین آصف کی شائستہ نظامت میں سیشن نے فوری طور پر سامعین کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔

اس سیشن میں شامل افسانچہ نگار:

٭   پرویز بلگرامی    ٭   مسلم انصاری

٭   ابنِ آس                  ٭   عثمان جامعی

٭   کرن صدیقی    ٭   نثار نندوانی

ہر افسانچہ اپنی ساخت میں تیز بجلی کی چمک جیسا تھا—ایک لمحے میں آ کر ذہن میں نقش ہوجاتا۔

کہیں محبت کا مقطع تھا، کہیں طنز کی چبھن، کہیں سماجی تلخی اور کہیں جمالیاتی نزاکت۔

یہ نشست اس بات کا اعلان تھی کہ افسانچہ اب محض تجربہ نہیں، اردو فکشن کی ایک مکمل اور پراثر صنف بن چکا ہے۔

 دوسرا سیشن ، مکالماتی افسانہ: زبان جو کرداروں میں بولتی ہے

اس سیشن میں کہانی کو گفتگو کی سانس دینے کے فن پر بات ہوئی۔

فہیم اسلام انصاری کی صدارت اور رحمان نشاط کے مدلل مضمون نے مکالماتی افسانے کی جہتوں کو کھول کر سامنے رکھا۔

انہوں نے بتایا کہ مکالمہ صرف جملوں کی ادائی نہیں بلکہ کردار کے ماضی، مزاج، طبقاتی شعور اور جذبات کی پوری تاریخ اپنے اندر لیے ہوتا ہے۔

ماریہ مہ وَش کے پیش کردہ افسانے خواب نے اس سیشن کو ایک زندہ مثال بنا دیا۔

کہانی کے کرداروں نے جیسے ہی مکالمہ شروع کیا، ہال میں ایک لمحے کے لیے خاموشی سی چھا گئی—گویا سب نے محسوس کیا کہ گفتگو خود بھی ایک کردار بن سکتی ہے۔

 تیسرا سیشن ،  افسانے میں شاعری اور مصوری کا عکس

یہ نشست دوسرا دن کا جمالیاتی نقطۂ عروج تھی۔

وصی حیدر کی زیرِصدارت اور شائستہ مفتی کے مضمون کے ساتھ حمزہ وصی کی گفتگو کئی سطحوں پر روح کو چھوتی رہی۔

عنوان تھا:

’’افسانے میں شاعری اور مصوری کا عکس‘‘

مضمون نگار نے افسانے اور مصوری کے باہمی رشتے کو یوں بیان کیا کہ ہال میں بیٹھے لوگ لفظوں کے رنگ دیکھنے لگے۔

مثالیں ایسی تھیں جیسے افسانہ کسی کیمرے کا لینز بن جائے، اور کردار کینوس پر بنتی ہوئی لکیریں۔

یہ سیشن ثابت کرتا ہے کہ افسانہ صرف پڑھا نہیں جاتا، اسے دیکھا بھی جا سکتا ہے—اگر لکھاری کی آنکھ میں مصوری کی روشنی ہو۔

 چوتھا سیشن ، علامتی افسانہ: تہہ در تہہ معنی کی دنیا

دن کی سب سے فکری اور گہری نشست علامتی افسانے پر تھی۔

صدارت ڈاکٹر ارشد رضوی نے کی اور نظامت انجیلا ہمیش کی سہج اور پُرتاثیر آواز نے گفتگو کو خوب صورتی سے آگے بڑھایا۔

شرکائے گفتگو میں شامل تھے:

٭   وجیہہ وارثی    ٭   رفاقت حیات

عنوان تھا:

’’اردو افسانے میں علامت نگاری کا رجحان اور اس کے مثبت و منفی اثرات‘‘

علامت کے خدوخال، اس کی قوت، اس کے مبہم معنی اور قاری کو درپیش مشکلات—یہ سب پرتیں ایک ایک کر کے کھلتی گئیں۔

ڈاکٹر راشد رضوی نے علامت کو ’’افسانے کی داخلی زبان‘‘ کہا۔

وجیہہ وارثی نے اس کی ’’نسائی جہت‘‘ پر روشنی ڈالی، اور ایک علامتی افسانہ بھی سنایا۔

جب کہ رفاقت حیات نے علامت کی ضرورت اور اس کی زیادہ استعمال سے ہونے والی فنی خرابیوں کی بصیرت افروز نشان دہی کی۔

یہ نشست دماغ کے دروازے کھول دینے والا ادبی تجربہ تھی۔

 پانچواں سیشن ،  جاسوسی ادب: راز، سراغ، اور حقیقت کی پرتیں

اردو فکشن کا وہ حصہ جس پر کم بات کی جاتی ہے مگر جو قاری کی دل چسپیوں میں سب سے زیادہ زندہ ہے۔

جاسوسی ادب کے عنوان سے یہ نشست حیرت انگیز طور پر بھرپور ثابت ہوئی۔

٭   صدارت: ڈاکٹر شبنم امان ٭   شرکائے گفتگو:

٭   ڈاکٹر سہیل احمد ٭   ڈاکٹر عرفان احمد

موضوع تھا:

’’پاکستان میں جاسوسی فکشن: شعور اور تقاضے‘‘

گفتگو کے دوران نہ صرف عالمی جاسوسی ادب کی روایات کا ذکر ہوا بلکہ پاکستانی منظرنامے میں جاسوسی کہانی کی کمی، ضرورت، اور نئی نسل کے رجحانات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

یہ سیشن اس احساس پر ختم ہوا کہ پاکستانی معاشرے میں جاسوسی فکشن کے کئی نئے دروازے کھلنے کے منتظر ہیں۔

 اختتامی سیشن — جشنِ اختتام اور نئے عہد کی بنیاد

دوسرے دن کا اختتام ایک پُروقار سیشن کے ساتھ ہوا جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔

غزالہ خالد نے دو روزہ کانفرنس کے تمام مباحث، رجحانات اور نکات کا اجمالی جائزہ پیش کیا۔

ایک ایسا جائزہ جس نے پورے ادبی سفر کو یکجا کردیا۔

آخر میں اظہارِتشکر اور قرارداد صائمہ صمیم نے پیش کی۔

یہ وہ لمحہ تھا جب پورا ہال اس بات پر متفق دکھائی دیا کہ ’’چاک فکشن فورم‘‘ نے اردو افسانے کے لیے ایک نئی بنیاد رکھ دی ہے۔

وہ بنیاد جس پر مستقبل کا فکشن کھڑا ہوگا۔

چاک فکشن فورم کی یہ کانفرنس محض دو دنوں کی سرگرمی نہیں تھی۔

یہ اردو ادب میں ایک مسلسل اور بامعنی تحریک کا آغاز تھی۔

دوسرے دن کی گفتگو نے یہ ثابت کیا کہ افسانہ صرف صنف نہیں، ایک میدان ہے جہاں تخلیق، تحقیق، علامت، تکنیک اور تجربہ سب ایک ساتھ سانس لیتے ہیں۔

Similar Posts