ڈیورنڈ لائن معاہدے کی توثیق امیر عبدالرحمٰن کے بعد امیر حبیب اللہ اور شاہ امان اللہ خان نے بھی کی

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد ’ جسے’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے‘ تاریخی اعتبار سے موضوع بحث رہی ہے۔ یہ سرحد ایک معاہدہ کے تحت قائم ہوئی تھی۔ اور مسلسل تین درانی حکومتوں نے اس معاہدے کی تو ثیق نکی تھی۔ اس معاہدہ کی اصل غرض و غایت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم وہ تاریخی اور سیاسی پس منظر یا بالفاظ دیگر وہ معروضی حالات سامنے رکھیں جن حالات میں ہزاروں میل دور سے انگریز تاجروں کے لباس میں یہاں برصغیر کو ’جسے ’’سونے کی چڑیا‘‘ ‘ کہا جاتا تھا‘ اپنے پنجرے میں قید کرنے کی غرض سے آئے اور آہستہ آہستہ یہاں قدم جما کر پورے ہندوستان پر اپنی حکمرانی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔

چوں کہ شکاریوں کی نظر بہت دور تک کام کرتی ہے اس لیے جب انگریزوں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں اور اردگرد کے سیاسی حالات اور ماحول کا جائزہ لیا تو اپنے آپ کو دونوں جانب سے خطرے میں محسوس کیا۔ ان میں ایک بڑا خطرہ دور فاصلے پر نظر آرہا تھا جبکہ دوسرا بہت زیادہ قریبی خطرہ پختونوں سے تھا۔ ان کی تاریخ، اجتماعی مزاج اور نفسیات سے واقفیت رکھنے والے انگریزوں نے سوچا کہ یہ قوم کل کو ہمارے لیے درد سر بن جائے۔ دور سے نظر آنے والا دوسرا بڑا خطرہ روس تھا جو ان کی نظر میں آئندہ وقتوں میں اس قابل ہوسکتا تھا کہ ان سے ’’سونے کی چڑیا‘‘ چھین لے۔ بظاہر نظر آنے والے دونوں خطرات سے نمٹنے کے لیے انہیں ایک ہی راستہ نظر آیا اور وہ ہندوستان کے شمال مغرب سرحد کا راستہ تھا۔

ان نئے سیاسی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے لارڈ کرزن نے اٹک کے اس پار علاقے باقی ہندوستان سے کاٹ دیے اور اسے نارتھ ویسٹ فرنٹیئر کا نام دیا۔ روس کے ساتھ افغانستان کی سرحدیں ملی ہوئی تھیں، انگریزوں کو خوف تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلق اور دوستی نوآبادیاتی مفادات کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ بقول خان عبدالولی خان مرحوم ’’یہاں سے برطانوی چیتے اور روسی ریچھ کے درمیان پنجہ آزمائی شروع ہوئی‘‘۔ ایک طرف برطانوی سامراج دوسری جانب روس کی طاقت اور درمیان میں پختون بین الاقوامی سیاست کے نرغے میں آگئے۔ لندن سے ہدایت یہ تھی کہ افغانستان پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ وہاں روس کا اثر و نفوذ نہ ہوسکے، کیوں کہ اس سے سلطنت برطانیہ کو بڑا خطرہ پیش آسکتا ہے۔

اس دن سے افغانستان کے امیر دوست محمد خان کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا گیا اور شاہ شجاع کو اعتماد میں لے کر برطانیہ نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ امیر دوست محمد خان کے قریبی ساتھیوں ، قبائلی سرداروں اور مولویوں کو بھاری رقم کے عوض خریدا گیا۔ اس طرح انگریز اپنی چال میں کامیاب ہو کر کوہ ہندوکش تک پہنچ گئے۔ ان کی سیاست کامیاب اور سلطنت محفوظ ہوگئی۔ امیر دوست محمد خان کو گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا گیا اور شاہ شجاع کو تخت پر بٹھا دیا گیا، اس شرط کے ساتھ کہ وہ انگریز اور سکھوں کی اجازت کے بغیر کسی بھی دوسرے ملک سے خط و کتابت نہیں کریں گے اور جو طاقت بھی انگریز یا سکھوں پر حملہ کرے گی آپ ان کے خلاف لڑیں گے۔

شاہ شجاع کے بعد جب امیر دوست محمد خان دوبارہ برسر اقتدار آئے تو اسے بھی اس شرط پر امیر مقرر کر دیا گیا تھا کہ وہ حکومت برطانیہ ہند کی مرضی کے بغیر کسی دوسرے ملک سے تعلق نہیں بنائے گا اور ایک انگریز نمائندہ کابل اور دیگر علاقوں میں تعینات کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ درہ خیبر، کرم، پشین اور اسی کا علاقہ انگریزوں کے حوالے کرے گا۔ اس کے بدلے برطانیہ ہند امیر کو 60 ہزار پونڈ سالانہ دے گا۔ بعد ازاں امیر یعقوب خان کے ساتھ ایک معاہدے کے سلسلے میں ایک وفد ’کیوگناری‘ کی قیادت میں کابل آیا۔ وفد نے بمشکل ایک ماہ پندرہ دن گزارے لیکن وہ (کیو گناری) اپنے تمام ساتھیوں سمیت قتل کر دیے گئے۔ کیو گناری کی موت کے فوراً بعد ہندوستان کی فوج کو حکم ملا کہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جائے، حکم کی تعمیل ہوئی۔ سردار یعقوب خان کو معزول کر دیا گیا اسے گرفتار کر کے ہندوستان لے جایا گیا۔ 1879ء میں گورنر جنرل لارڈ لیٹن نے تاج برطانیہ کو لکھا کہ اب اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں کہ افغانستان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے تاکہ برطانیہ افغانستان میں بلا شرکت غیرے حکمران بن سکے اور دریائے اباسین (سندھ) سے لے کر دریائے آمو تک اقتدار حاصل کر لے۔

فیصلہ ہوا کہ قندہار کو قبیلہ سدوزئی کے شہزادہ شیر علی کے حوالے کردیا جائے اور وزارت خارجہ لندن نے ہرات کے بارے میں ایران سے خط و کتابت شروع کردی اور کابل کے لیے کسی ایسے موزوں شخص کی تلاش میں جت گئے جسے امیر کی حیثیت سے لوگ تسلیم بھی کریں اور خود بھی خاندانی طور پر مضبوط ہو۔ انگریزوں کی نظر عبدالرحمان پر پڑی جو امیر شیر علی خان کے سوتیلے بھائی افضل خان کا بیٹا تھا اور جس وقت امیر شیر علی خان دوبارہ اقتدار میں آئے تو اس نے اپنے سوتیلے بھائی افضل خان کو قید میں ڈال دیا اور ان کے بیٹے عبدالرحمان جلا وطن ہو کر ترکستان چلے گئے۔ لیکن وہاں سے عبدالرحمان تحت کابل حاصل کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہے۔

چناں چہ انگریزوں اور عبدالرحمان کے درمیان خفیہ خط و کتابت شروع ہوگئی اور یہ تعلق آہستہ آہستہ گہرا ہوتا گیا۔ خط و کتابت کا یہ سلسلہ 14 جون 1880ء تا 20 جولائی 1880ء تک رہا۔ 14 جون 1880ء کو اپنے خط میں ’لیسپل گرفین‘ سردار عبدالرحمان کو لکھتے ہیں ’’پیارے دوست ! سردار ابراہیم کے ہاتھ آپ کا مکتوب ملا جس میں آپ نے دوستی کے جذبات کا اظہار کیا تھا، میں سمجھ گیا ہوں اور آپ کی اس تمنا کا احترام کرتا ہوں۔ آپ نے جو چند وضاحتیں طلب کی ہیں وہ وائسرائے ہند کی خدمت میں پیش کردی گئی ہیں اور ان ہدایات کے مطابق آپ کی طلب کردہ وضاحتوں کی تفصیل درج کرتا ہوں، پہلے یہ کہ کابل کے حکمران کے خارجہ معاملات میں اختیارات ایسے ہیں جس میں برطانوی حکومت اپنے سوا کسی اور کا عمل دخل برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس لیے یہ بات آپ پر واضح ہونی چاہیے کہ افغان حکومت برطانیہ کے سوا کسی دوسرے ملک کے ساتھ خارجہ تعلقات قائم نہیں کرسکتی۔ روس اور ایران نے ہمیں تسلی دی ہے کہ آپ کے زیر کنٹرول علاقوں میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کریں گے۔

دوسری بات یہ ہے کہ قندہار کے بارے میں ہم آپ کو کسی قسم کی یقین دہانی اور تسلی نہیں دے سکتے البتہ کرم، سبی اور پشین جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، ہند برطانیہ کے زیر کنٹرول علاقے ہیں۔ اس طرح امیر یعقوب خان کے ساتھ جو شمالی مغربی سرحدی صوبے کے بارے میں معاہدہ ہوا ہے وہاں اپنی حکومت قائم کردیں گے البتہ کابل میں برطانوی نژاد نمائندہ کے بجائے ایک مسلمان نمائندہ رکھنے کی تجویز ہمیں منظور ہے اور آپ کی اس خواہش کا احترام کرتے ہیں‘‘ ۔ اس مکتوب کے جواب میں سردار عبدالرحمان نے انگریزوں کی تمام شرائط قبول کرلیں‘‘۔

سردار عبدالرحمان اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں ’’میں اقرار کرتا ہوں کہ دیگر ممالک کے ساتھ تعلق کے بارے میں حکومت برطانیہ ہند سے مشورہ لیا جائے گا۔ افغانستان کی وہ سرحدیں تسلیم کر لی جائیں گی جن کا آپ لوگوں نے امیر دوست محمد خان کے ساتھ فیصلہ کیا ہے یا بعد کے جن معاہدوں میں شامل ہے‘‘۔ اس مکتوب کے جواب میں گرفن لکھتے ہیں ’’آپ کے دوستانہ جذبات کے بدلے احترام کے طور پر حکومت برطانیہ ہند آپ کو اجازت دیتی ہے کہ افغانستان میں اپنی حکومت قائم کریں آج سے حکومت برطانیہ آپ کو افغانستان کے امیر کا درجہ دیتی ہے۔ سردار عبدالرحمان نے 20  جولائی 1880ء کو امیر کی حیثیت سے افغانستان کی باگ ڈور سنبھال لی اور کم عرصے میں اپنی سلطنت کی حدود کو مضبوط کردیا اور روس کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو گئے۔

ان کی مسلسل کامیابیوں نے انگریزوں کو یہ فکر لاحق کردی کہ امیر اتنا مضبوط نہ ہو جائے کہ امیر یعقوب خان سے حاصل کیے گیے علاقوں پر قابض ہو جائے یا ان علاقوں پر دعویٰ کرے یہ بات اس لیے ممکن تھی کہ گندمک کے معاہدے میں صاف لکھا گیا تھا کہ یہ علاقے افغانستان سے الگ کیے گیے علاقے تصور نہیں کیے جائیں گے۔ دوسری بات یہ تھی کہ ان علاقوں کی آمدن پر افغانستان کا حق بھی تسلیم کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز امیر عبدالرحمان کے ساتھ سرحد (باونڈری) کے بارے میں معاہدہ کرنا چاہتے تھے تاکہ ’’گندمک معاہدے‘‘ کی بنیاد پر حاصل کیے گیے علاقے مستقل طور پر حکومت برطانیہ میں شامل ہو جائیں۔ چناں چہ 12 نومبر 1893ء کو سرمار ٹیمر ڈیورنڈ اور امیر عبدالرحمان کے درمیان معاہدہ ہوا۔

دریائے آمو سے لے کر ڈیورنڈ لائن تک تمام علاقے افغانستان اور امیر عبدالرحمان کی سلطنت میں شامل کر دیے گیے۔ ڈیورنڈ لائن سے لے کر بندوبستی علاقے تک قبائلی علاقہ انگریز پولٹیکل انتظامیہ کے زیر نگرانی، بلوچستان کے چند علاقے برٹش بلوچستان کے نام سے برطانوی ریذیڈنٹ کے زیر انتظام کر لیے گیے اور سابقہ صوبہ سرحد(خیبرپختون خوا) براہ راست تاج برطانیہ کے زیر کنٹرول آگیا۔ ڈیورنڈ لائن معاہدے کے بارے میں انگریزوں کے علاوہ دیگر مورخین اور دانشوروں نے بھی بہت کچھ لکھا ہے اور ہر ایک نے اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق اس معاہدے کے پس منظر اور پیش منظر پر روشنی ڈالی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ان خارجی شہادتوں کے علاوہ ایک داخلی شہادت خود امیر عبدالرحمان کی لکھی ہوئی خود نوشت بھی ہے جس میں انہوں نے ڈیورنڈ لائن کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور اس وقت کے سیاسی حالات اور واقعات کو اجاگر کیا ہے جن کی وجہ سے امیر عبدالرحمان کو ڈیورنڈ لائن معاہدے پر دستخط کرنا پڑے۔ اپنی خود نوشت میں وہ لکھتے ہیں :

’’جب تمام ہمسایوں کے ساتھ حد بندی کی گئی تو میں نے خیال کیا کہ ہندوستان اور میرے ملک کے درمیان میں بھی حد بندی ہونا ضروری ہے تاکہ میرے ملک کے گرد حدود قائم ہو جائیں جو حفاظت کے لیے ایک مضبوط دیوار کا کام دیں۔ چناں چہ اول مارکوئس آف رپن کو لکھا بعد ازاں مارکوئس آف رپن کو اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ اپنے وہاں کے چند تجربہ کار عہدیداروں کا ایک مشن مقرر کر کے کابل میں میرے پاس بھیجیں تاکہ بعض معاملات پر گفت گو کی جائے اور میں یہی بہتر سمجھتا تھا کہ یہ سرحدی مسئلہ ایک مشن کے ذریے سے طے ہو ، وائسرائے خود اس کے فوائد سے آگاہ تھے اور میں نے ان کو لکھا کہ سر ماٹیمر ڈیورانڈ فارن سیکرٹری مشن کے افسر مقرر کئے جائیں، مگر افسوس ہے کہ میں بیمار ہوگیا اور جب بیماری سے افاقہ ہوا تو ترکستان میں اسحاق کا بلوہ اٹھا۔

اس وجہ سے مشن کا معاملہ ملتوی رہا اور میں ترکستان چلا گیا۔ 1890ء میں جب ترکستان سے واپس آیا تو اس وقت گورنمنٹ ہند کے ساتھ میرے تعلقات کچھ اور ہی تھے، اس لیے میں نے لارڈ سالسبری کے نام ایک خط بھیجا جنہوں نے جواب دیا کہ یہ غلط فہمی جو میری گورنمنٹ اور گورنمنٹ ہند کے مابین ہے، عہدیداران گورنمنٹ ہند کے ذریعے سے ختم ہونی چاہیے۔

اس وقت ’لارڈ لین سڈاؤن‘ نے پھر مجھے ایک خط لکھا جس میں یہ بیان کیا کہ ’’لارڈ رائرٹ مشن کے افسر مقرر ہوئے ہیں۔ میں اس وقت جنگ ہزارہ میں مصروف تھا اور یہ چیز اہل افغانستان کی رائے اور خواہش کے خلاف بھی تھی کہ ’لارڈ ابرٹ‘ ایک فوج کثیر کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوں۔ مجھے اندیشہ تھا کہ اس مشن کی وجہ سے کہیں بلوہ نہ ہو جائے۔ اہل افغانستان کے اکثر عزیز اور دوست آخری جنگ افغان ، جو لارڈ رابرٹ کے ساتھ ہوئی تھی، میں مارے گئے تھے۔ ان وجوہ سے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ ایک بڑی فوج کے ساتھ افغانستان میں آئیں، علاوہ ازیں لارڈ رابرٹ ایک سپاہی آدمی تھا اور ایسے پیچیدہ ملکی معاملات پر بحث کرنے کے لیے ایک مدبر کی ضرورت تھی نہ کہ سپاہی کی اور سپاہی بھی وہ جو ملک گیری کو اصل اصول سمجھتا ہو۔

یہ طبعی بات ہے کہ سپاہی لڑائی اور جنگ چاہے گا جس طرح ایک مدبر یا بادشاہ صلح اور امن پسند کرے گا اور حتی الوسع جنگ نہ ہونے دے گا۔ اس کے علاوہ لوگوں نے مجھے کہا کہ ہندوستان میں لارڈ رابرٹ کی مدت ملازمت ختم ہو چکی ہے مگر وہ چاہتے ہیں کہ اس کی توسیع ہو اور وہ بدستور ہندوستان کے کمانڈر ان چیف رہیں۔ لیکن یہ توسیع مدت منظور نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہندوستان کے شمالی مغربی سرحد پر کوئی طوفان نہ اٹھایا جائے اس لیے کہ وہ سرحدی معاملات میں بڑی سند مانے جاتے ہیں۔ پس ان کا تو یہی فائدہ ہے کہ بجائے صلح کے جنگ و جدل ہو میں نے اس بات کا یقین نہیں کیا۔ یہ ایک لغو سی خبر تھی مگر میں نے ایسے وقت میں مشن کا بلانا بالکل نامناسب خیال کیا اور اسے ملتوی کر دیا‘‘۔

’’وائسرائے کو اس معاملہ میں کچھ ایسا اصرار تھا کہ انہوں نے پھر مجھے اس مضمون کا ایک خط لکھا ( جو گویا الٹی میٹم تھا) کہ گورنمنٹ ہند ایسے مبہم وعدوں کا انتظار نہیں کرسکتی اتنے دنوں بعد وہ مناسب کارروائی کرے گی۔ اس وقت میں بہت بیمار تھا اور میں نے سردار عبداللہ خان توخی اور میر منشی سلطان محمد خان سے کہا کہ میرے انگریز ملازمین میں سے کسی کا انتخاب کرو جو وائسرائے سے ملنے کے لیے بھیجا جائے تاکہ معاملہ اور زیادہ سنگین و لا علاج نہ ہونے پائے۔ المختصر میں نے اس طرح معاملہ کو ٹالا اور فی الفور وائسرائے کو اس مضمون کا خط لکھا کہ مسٹر پائن خط لے کر آپ سے ملنے آئے ہیں تاکہ مشن کے متعلق ضروری انتظام کریں اس پیغام سے یہ مقصود تھا کہ اراکین دولت ہند مطمئن ہو جائیں اور معاملہ کو زیادہ طول نہ دیں۔

یہ خط روانہ کرنے کے بعد میں نے مسٹر پائن کو ایک خط وائسرائے کے نام اور دوسرا سر مارٹیمر ڈیور انڈر فارن سیکرٹری کے نام دیا اور مسٹر پائن سے کہا کہ ہندوستان جاؤ مگر آہستہ آہستہ سفر کرتے ہوئے اور اگر ممکن ہو تو مشن کو چند روز کے لیے ملتوی کردو تاکہ لارڈ رابرٹ جو عنقریب ہندوستان چھوڑنے والے ہیں، انگلستان روانہ ہو جائیں۔ میں نے وائسرائے سے درخواست کی کہ ایک نقشہ مجھے بھیجا جائے جس میں مجوزہ خطوط سرحد قائم کیے گیے ہوں، جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ یاغستان کے کون کون سے مقامات وہ اپنے دائرہ اختیار میں لینا چاہتے ہیں۔

میں نے جو چال چلی تھی پوری اتری لارڈ رابرٹ روانہ ہوگئے۔ انہوں نے مجھے ایک خط لکھا جس میں مجھ سے نہ ملنے کا تاسف ظاہر کیا۔ ان کے جاتے ہی میں نے فوراً مشن کو کابل آنے کی دعوت دی۔ یہاں پر یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وائسرائے نے جو نقشہ مجھے بھیجا اس میں وزیری قبائل کے تمام علاقے شامل ہندوستان دکھائے گئے تھے۔ اس پر میں نے وائسرائے کو ایک طولانی خط لکھا جس میں ان سرحدی قبائل کے متعلق بہت کچھ پیش گوئیاں تھیں اس خط کا خلاصہ مضمون حسب ذیل ہے۔

’’اب رہے یہ سرحدی قبائل جو یاغستان کے نام سے مشہور ہیں اگر وہ میرے ملک میں شامل رہیں گے تو میں انہیں اپنے اور انگلستان کے کسی دشمن کے مقابلہ میں لڑا سکوں گا، اور وہ اپنے ہم مذہب مسلمان بادشاہ کے جھنڈے کے نیچے بخوشی جہاد کریں گے۔ یہ لوگ بڑے بہادر سپاہی اور پکے مسلمان ہیں اگر کوئی سلطنت ہندوستان یا افغانستان پر حملہ کرے گی تو یہ لوگ خوب سینہ سپر ہوںگے۔ میں رفتہ رفتہ انہیں رام کر کے صلح جو رعایا اور برطانیہ اعظم کا عمدہ رفیق بنا لوں گا لیکن اگر آپ انہیں میرے ملک سے جدا کر لیں گے تو وہ نہ آپ کے کچھ کام آئیں گے نہ میرے۔ آپ کوہمیشہ ان کے ساتھ لڑنا جھگڑنا ہوگا اور وہ ہمیشہ لوٹ مار کیا کریں گے۔

جب تک آپ کی گورنمنٹ قوی ہے آپ کا زبردست ہاتھ انہیں زیر رکھے گا لیکن جب کبھی کوئی غیر دشمن سرحد ہندوستان پر نمودار ہوگا اس وقت یہ لوگ آپ کے بدترین دشمن ثابت ہوںگے۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان لوگوں کی حالت بالکل ایک کمزور دشمن کی سی ہے جو کسی زبردست دشمن کے ہاتھ سے زیر ہو جب تک وہ دشمن قوی ہے یہ مطیع ہے ادھر اس کی قوت گھٹی ادھر کمزور دشمن نے اس کے پنجہ سے نکل کر اس پر حملہ کیا۔

علاوہ اس کے یہ لوگ میرے ہم قوم و ہم ملت ہیں اگر آپ انہیں جدا کر لیں گے تو میری رعایا کی نظروںمیں میری توقیر گھٹے گی اور یہ چیز میری کمزوری کا باعث ہوگی اور میری کمزوری آپ کی گورنمنٹ کیلئے مضر ہے۔ لیکن میری اس اصلاح کی کچھ قدر نہ کی گئی اور گورنمنٹ ہند کو یہ سرحدی قبائل لینے کا کچھ ایسا اشتیاق تھا کہ اس نے بہ جبر میرے افسروں کو بلند خیل اور دناذہب سے نکال دیا اورکہا کہ فلاں وقت تک نہ چلے جاؤ گے تو مجبوراً جانا پڑے گا۔ چوں کہ میں برطانیہ اعظم کا دشمن ہونا اور اس سے لڑنا نہ چاہتا تھا، میں نے اپنے افسروں کو حکم دیا کہ عہدیداران ہند سے اطلاع پاتے ہی وہ مقامات چھوڑ کر چلے آؤ۔

تیمور مرزا شاہ حاکم اسمار نے 1887ء میں بحلف میری اطاعت قبول کی اور اپنا ملک میری حفاظت و نگرانی میں سونپا، اس لیے کہ اسے عمر خان حاکم بجبر کے حملہ کا اندیشہ تھا مگر وہ اپنے ایک غلام کے ہاتھ سے مارا گیا تب میرے کمانڈر انچیف جنرل غلام حیدر خان نے اسمارا پر قبضہ کرلیا جس سے گورنمنٹ ہند بہت ناراض ہوئی اس لیے کہ ان تمام صوبہ جات یاغستان پر ان کی نظر تھی جو نیوٹرل کہلاتے تھے۔ یاغستان میں چترال، باجوڑ، سوات، بونیر، دیر، چلاس اور وزیری وغیرہ سب شامل تھے۔

گورنمنٹ ہند میرے اسمار چھوڑنے پر بہت مصر ہوئی لیکن چوں کہ یہ مقام کنارلم خان ، کافرستان اور جلال آباد کا گویا پھاٹک تھا جو میرے ملک کے صوبے ہیں اور جہاں سے پامیر اور چترال کی سڑکوں پر نظر ہے، ایسے مقام کا اپنے قبضہ میں رکھنا جو میرے ملک کا پھاٹک ہو ایسا ضرور تھا جیسا کہ میرے ملک کے اور تین گوشوں ہرات ، قندہار اور بلغ پر قبضہ رکھنا اسی طرح گورنمنٹ ہند نے یہ اصرار کیا کہ میں چاغہ بھی چھوڑ دوں۔ کافرستان، یاغستان، بلوچستان اور چمن میں بھی گورنمنٹ ہند کے سرحدی عہدیدار متواتر دخل دیتے تھے۔

جو چیز مجھے عجیب معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ ایک طرف تو گورنمنٹ ہند یہ کہتی تھی کہ ہم کو افغانستان کی طرف کچھ ملک لینے کی ضرورت نہیں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کو ایک قوی خود مختار سلطنت دیکھیں اور دوسری طرف گورنمنٹ ہند کا عمل یہ تھا کہ خوجک ہل میں نقب لگا کر اس طرح میرے ملک میں ریل داخل کی تھی گویا میرے جگر میں چاقو گھونپ دیا تھا اور ہر طرف یہ افواہ اڑ رہی تھی کہ قندہار تک ریل لانے کا قصد ہے، خواہ میں اجازت دوں یا نہ دوں اور پارلیمنٹ میں ان معاملات پر بحث ہوتی تھی جس کی مجھے برابر خبر پہنچتی تھی اس لیے کہ جو کچھ افغانستان کی نسبت اخباروں میں چھپتا ہے میرے ایجنٹ اس کے پرچے مجھے بھیجتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ روس مجھے الگ روشان اور شغنان کی بابت ستا رہا تھا۔ چناں چہ انہی دقتوں اور غلط فہمیوں کو طے کرنے کے لیے میں نے ایک مشن بلایا جس کے سرکردہ سر مارٹمر ڈیورنڈ تھے۔ یہ صاحب ایک بڑے ہوشیار مدبر تھے اور انہیں معلوم ہوگیا کہ اعتبار سے اعتبار بڑھتا ہے۔

انہوں نے اپنی سلامتی اور حفاظت کا مجھ پر بھروسہ کر کے کابل کی جانب کوچ کیا۔ وہ 19 ستمبر 1893؁ء کو پشاور سے کابل روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ کرنل ایلس جوکوراٹر ماسٹر جنرل کے آفس سے تعلق رکھتے تھے۔ کپتان میک مہان، کپتان میزس اسمتہ، مسٹر کلارک ملازم فارن آفس جو منصرم پولٹیکل اسسٹنٹ تھے، میجر فن (وائسرائے کے ڈاکٹر)، مسٹر ڈونلڈ اور چند ہندوستانی محاسب، منشی اور عہدیدار تھے۔ جب وہ کابل میں داخل ہوئے تو میرے جنرل غلام حیدر خان نے ان کا استقبال کیا اور میں نے ان کے رہنے کے لیے کابل کے قریب اپنے بیٹے حبیب اللہ خان کا مکان جس کا نام ’اندکی‘ ہے، تجویز کیا۔

اول رسمی دربار ہوا، بعد ازاں معاملات پر بحث چھڑی ، ڈیورنڈ بڑے ہوشیار مدبر تھے اور فارسی خوب جانتے تھے، اس لیے اچھی طرح سے بحث ہوئی مگر میں نے پہلے سے یہ انتظام کیا تھا کہ ایک پردہ کے پیچھے میرمنشی سلطان محمد خان کو بٹھا دیا تھا کہ ہر ایک لفظ جو میرے یا سر مارٹمر ڈیورنڈ کے منہ سے نکلے یا مشن کے کوئی اور صاحب کچھ کہیں سب برابر لکھتا جائے تاکہ و ہ ایک دستاویز رہے، سلطان محمد خان ایسی جگہ بٹھائے گئے تھے جہاں سے نہ وہ نظر آئیں اور نہ ان کی آواز سنائی دے اور اس کا علم بجز میرے اور کسی کو نہ تھا، ان کو ہدایت کی گئی تھی کہ ہر ایک بات خواہ وہ انگریزی ہو یا فارسی جو وہ مجھ سے کہیں، یا آپس میں بولیں سب لفظ بہ لفظ لکھی جائے۔ چناں چہ انہوں نے علامات و اشارات میں ہر ایک لفظ جو میرے اور ڈیورنڈ کی زبان سے نکلے لکھ لیے اور یہ ساری گفت گو میرے یہاں دفتر میں بہ حفاظت موجود ہے۔ ساری گفتگو کا خلاصہ اور نتیجہ یہ تھا کہ روس اور میری گورنمنٹ کا جھگڑا جو صوبہ روشنان اور شغنان کے متعلق تھا، طے ہو گیا۔

صوبہ وا خان جو میرے حصے میں آیا تھا، میں نے برطانیہ کے حوالہ کر دیا اس لیے کہ کابل سے بہت دور تھا اور میرے ملک سے بالکل الگ جس کی وجہ سے وہاں معقول قلعہ بندی کرنا بہت دشوار تھا۔ چناں چہ اب حد یہ قرار دی گئی کہ چترال دیروغل پاس سے پشاور تک اور پھر پشاور سے کوہ ملک سیاہ تک ایک خط ڈالی گئی۔

اس طرح وا خان ، کافرستان، اسمارا، مومند، لالپورہ اور ایک جزو وزیرستان میرے حصہ میں پڑا اور نیو چمن سٹیشن سے چاغہ، باقی ملک وزیری بلند خیل، کرم ، آفریدی، باجوڑ، سوات ، بونیر ، دیر، چلاس اور چترال ان سب سے میں دستبردار ہوگیا۔ ان سرحدات کے متعلق دو عہد نامے تیار ہوئے جن پر میں نے اور ممبران مشن نے دستخط کیے۔ ان عہد ناموں کا مضمون یہ تھا کہ چونکہ گورنمنٹ افغانستان نے بطریق دوستی بعض صوبوں سے اپنا دعویٰ اٹھا لیا ہے اب سے سالانہ امدادی رقم جو گورنمنٹ ہند سے ملتی ہے بجائے بارہ لاکھ کے اٹھارہ لاکھ ہو گی۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ ہند وعدہ کرتی ہے کہ ہتھیار اور سامان جنگ سے دوستانہ مدد دے گی اور یہ بھی اقرار کرتی ہے کہ آئندہ گورنمنٹ افغانستان کو اختیار ہوگا کہ جس قدر ہتھیار اور سامان جنگ خرید کر منگوانا چاہے اس میں کوئی مزاحمت نہ کی جائے گی۔

دو دن روانگی سے پہلے میرے بیٹے حبیب اللہ خان نے کل ممبران مشن مع عبدالرحیم خان اور نٹیل سیکرٹری افضل خان برٹش ایجنٹ مقیم کابل اور نواب ابراہیم خان کو باغ بابر میں دعوت دی۔ وہاں میرے دونوں بیٹوں حبیب اللہ خان اور نصر اللہ خان و غلام حیدر خان کمانڈر انچیف و میر منشی اور دو تین عہدیداروں نے مہمانوں کی پیشوائی کی۔ 13 نومبر کو سلام خانہ میں ایک عام دربار کیا گیا جہاں کابل کے کل سول و ملٹری افسر اور سرداروں قبائل اور میرے دونوں بڑے بیٹے حاضر تھے۔ قبل کارروائی شروع ہونے کے میں نے اہل دربار کے سامنے ایک تقریر کی جس میں کل عہد و پیمان کا خلاصہ بیان کیا جو میرے اور گورنمنٹ ہند کے درمیان ہوئے تھے اور عہد نامے کے شرائط بیان کیے تاکہ میری قوم، میری رعایا اور کل حاضرین دربار کو اس کی خبر ہو۔ میں نے خدا کا شکر کیا کہ دونوں حکومتوں میں دوستانہ تعلقات قائم ہوئے اور بہ نسبت سابق کے زیادہ تر مضبوط ہوگئے۔

میں نے سر مارٹمر ڈیورنڈ اور دوسرے ممبران مشن کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ایسی دانش مندی سے سارے جھگڑے طے کیے۔ اس کے بعد سر مارٹمر ڈیورنڈ نے ایک مختصر سی تقریرکی جس کے آخر میں انہوں نے یہ ذکر کیا کہ وائسرائے ہند کے پاس ایک تار آیا ہے جس میں وائسرائے نے نئے عہد ناموں اور ہمارے دوستانہ تعلقات کی نسبت نہایت خوشی اور اطمینان ظاہر کیا ہے انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ لارڈ کمبرلی نے ہاؤس آف لارڈس بھی اپنا اطمینان ظاہر کیا ہے۔

میرے ملک کے کل عہدیدار اور وکلاء نے جو حاضر تھے ڈیپوٹیشن کے اڈریس کی ایک ایک نقل لی جس پر ان سب کی مہریں اور دستخط تھے اور جس میں انہوں نے ان معاہدوں کی نسبت اپنا اطمینان اور رضا مندی ظاہر کی تھی اور برطانیہ اعظم اور افغانستان کی باہمی دوستی پر کمال مسرت و خوشی کا اظہار کیا تھا۔ میں دوبارہ کھڑا ہوا اور ممبران مشن و حاضرین دربار کو یہ کاغذ پڑھ کر سنایا۔ آج میر منشی کو پوشیدہ رہنے کا حکم نہ تھا بل کہ علانیہ یہ تینوں تقریریں اس نے لکھیں جس کی دو ہزار کاپیاں چھپوا کر دوسرے روز تمام ملک میں تقسیم کی گئیں۔

میں ایک مثال بیان کرتا ہوں جس سے ظاہر ہوگا کہ میرے لوگوں کو دولت برطانیہ کی دوستی کی کیسی قدر ہے اور ان کے دلوں میں اور تمام میرے عہدیداروں کے دلوں میں کس درجہ محبت ہے۔ سر مارٹمر ڈیورنڈ کی روانگی کے دوران میں نے چاہا کہ انہیں اور دوسرے انگلش جنٹلمینوں کو جو مشن کے افسر تھے، تمغے وغیرہ بھیجوں۔ اس پر آپس میں یہ دوستانہ تکرار ہوئی کہ کون شخص تمغے ان کے پاس لے جائے ، میرے کمانڈر انچیف اور میر منشی اور کوتوال تینوں یہ چاہتے تھے کہ وہ تمغے ممبران مشن کے پاس لے جائیں کیونکہ وہ اسے ایک خاص عزت کا باعث سمجھتے تھے کہ ممبران مشن ان کے ہاتھ سے تمغہ لیں۔

میں نے میر منشی کے ہاتھ تمغے بھیجے اور اسے ہدایت کی کہ اپنے ہاتھ سے پیش کرے اور میری طرف سے ان کی نمایاں خدمات کا بہت بہت شکریہ ادا کرے۔ یہ تمغے دے کر میر منشی واپس آیا اور ہر ایک کے پاس سے شکریہ کا خط لایا۔ 14 نومبر کو مشن کابل سے روانہ ہوا، جو غلط فہمیاں اور جھگڑے ان سرحدی معاملات کے متعلق ہوا کرتے تھے، سب ختم ہو گئے اور جب عہد نامے کے مطابق دونوں حکومتوں کی سرحدیں قائم ہو گئیں تو دونوں میں صلح اور امن قائم ہوا جو انشاء اللہ قائم رہے گا۔

یہ موقف امیر عبدالرحمٰن کی خود نوشت سے لئے گئے ہیں ۔ دوسری جانب تاریخی حقائق سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ دیورنڈ لائن پر 1893میں مکمل اتفاق رائے ہو گیا تھا۔ امیر عبدالرحمٰن اور برطانوی سرکار کے درمیان ہونے والے معاہدے بنیادی شرط یہ تھی کہ مستقبل میں کوئی فریق معاہدے کی روح سے انھراف نہین کرے گا اور دوسرے کے علاقے میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ 1894 میں افغان سرکاری اہلکاروں اور برطانوی سرکاری اہلکاروں کی مشترکہ ٹیم نے سروے کا آغاز کیا۔  1800 کلو میٹر طویل سرحد کھینچنے کے اس عمل میں راستے میں آنے والے ہر اُس قبیلے کے سرکردہ شخصیات کو حد بندی کے عمل میں شامل کیا گیا جن کے لوگ برطانوی ہند اور افغانستان دونوں ملکوں میں آباد تھے۔ اسی وجہ سے انگریز دور اور قیام پاکستان کے بعد بھی دونوں جانب آزادانہ نقل و حمل کا سلسلہ جاری رہا۔ مسلہ اُس وقت پیدا پوئے جب دہشت گردی کے معاملات کنٹرول سے باہر ہوئے۔ اس بندوبست سے برطانیہ اور روس کے درمیان ممکنا ٹکراو کا خطرہ ٹل گیا۔

اس معاہدے کے تحت وادی اسمارا سے اوپر چانک تک کا علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا اور جبکہ وزیرستان اور چاغی سے افغانستان دستبردار ہو گیا۔ اسی معاہدے کی توثیق 1919میں معمولی رد و بدل کے ساتھ دوبارہ کر دی گئی اور پھر 1947 قیام پاکستان کے بعد عالمی اصول کے تحت معاہدے کا دوسرا فریق پاکستان قرار پایا۔ ڈیورنڈ لائن کو دنیا بھر میں پاک افغان بین الااقوامی سرحد تسلیم کیا جاتا ہے لیکن افغانستان میں مکتلف ادوار میں اس معاملے کو پراپیگنڈہ کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ افغانستان کے سبق وزیر اعظم سردار داود مرحوم نے اس معاملے کو بہت شدت کے ساتھ اُٹھایا تھا۔ 1976 میں اُس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سردار داود کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ ڈیورنڈ لائن پر اپنا موقف بدل لیں تو پاکستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس معاملے پر بات چیت کا آغاز ہوا۔ گفتگو کے دوسرے دور کے اختتام پر سردار داود نے اعلان کیا تھا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو بین الااقوامی سرحد تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ یہ بات چیت ابھی جاری تھی کہ پاکستان میں بھٹو حلومت کا تحتہ اُلٹ دیا گیا

 مذکورہ طویل اقتباس پر کسی تبصرے یا تجزیہ کی ضرورت اس لیے نہیں کہ قارئین خود ہی امیر عبدالرحمان کی داخلی شہادت اور دیگر خارجی شہادتوں کا موزانہ کرنے کے بعد خود ہی بہتر نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ جب افغانستان کے عوام کو ڈیورنڈ لائن معاہدے کا علم ہوا تو انہوں نے اس معاہدے کی شدید مخالفت شروع کردی سابق صوبہ سرحد کے پختونوں نے انگریزوں کے خلاف اپنی لڑائیاں تیز کر دیں۔

وزیرستان کے لوگوں کو جب اس معاہدے کی خبر ملی تو انہوں نے پکتیا کے امیر والی سردار گل احمد کو اپنے ایک نمائندہ کشور خان کے ہاتھ ایک مکتوب بھیجا جس میں لکھا گیا تھا کہ وزیرستان میں انگریزوں کے بہی خواہ کہتے پھرتے ہیں کہ امیر عبدالرحمان نے ڈیورنڈ کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کر دیے ہیں اور ڈیورنڈ کی مرضی کے مطابق ’وانا‘ کا علاقہ انگریز حکومت کو دے دیا گیا ہے۔ اگر یہ بات سچ ہو تو ہم آپ کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ وزیر قبیلہ انگریزوں کی حکومت اور اطاعت قبول کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے۔ سردار گل احمد نے اس مکتوب کے جواب میں لکھا کہ جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے اس طرح معاہدے کی باقاعدہ مہر کنندہ سند پیش کرے اگر ان لوگوں کے پاس اس قسم کی کوئی تصدیق شدہ سند موجود نہیں تو پھر آپ لوگ ان کی باتوں پر دھیان مت دیں ۔

اس وقت جب امیر عبدالرحمان کو وزیر قبیلہ اور اپنے والی کے مکتوبات کا علم ہوا تو اس نے اپنے والی نور محمد کو کہا کہ وزیروں سے جا کر کہہ دو کہ ’’مرغہ‘‘ اور ’’برمل‘‘ کے علاقے جو ان کے علاقے ہیں کے علاوہ باقی وزیرستان آج کے بعد انگریزوں کی ملکیت ہے ۔ اس لیے کہ پچھلے چودہ سالوں سے آپ لوگوں نے مجھے بہت تنگ کر رکھا ہے اور مجبوراً مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا کہ آپ لوگوں کا علاقہ وزیرستان انگریزوں کے قبضے میں دے دوں ۔ انگریزوں نے جب ڈیورنڈ لائن کے خلاف آزاد سرحد کے لوگوں (یعنی قبائل) میں اس شدید غم و غصے کی لہر دوڑتی ہوئی دیکھی تو انہوں نے امیر عبدالرحمان سے کہا کہ و ہاں لکیر کا ایک نقشہ تمام علاقوں میں تقسیم کرے تاکہ دونوں جانب آباد پختونوں کو اس معاہدے کی حقیقت کا علم ہو جائے۔ امیر نے انگریزوں کا کہا مان کر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں اعلانات جاری کر دیے جس کا متن یہ تھا ۔

’’ انگریزوں کا ایک وفد ہندوستان کے خارجہ سیکرٹری ہنری مارٹیمر ڈیورنڈ کی قیادت میں کابل آیا تھا ہمارے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ درواز، روشان، شغنان اور وا خان کے علاقوں میں سرحد کی لکیر 1873ء کے معاہدے کے مطابق ہو گی۔ وا خان سے یہ لکیر کافرستان اور چترال تک جائے گی بعد میں ’’ سندک ‘‘ سے گزرے گی وہاں سے یہ لکیر مومند قبیلہ کے پہاڑوں میں جو مومند اور باجوڑ کے درمیان آباد ہے وہاں گزرے گی بعد میں یہ لکیر لواڑگی، کوتل اور رشکار علی تک پہنچے گی اور شپن غر کو چھوتی ہوئی جائے گی۔ امیر عبدالرحمان نے اپنے جاری کردہ اعلان میں وہ تمام تفصیل اور مقامات کے نام لکھے تھے لیکن ان اعلانات کا صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں پر کوئی اثر نہیں پڑا معاہدے کے دوسرے سال بعد محسود قبیلہ نے ’’وانا‘‘ میں انگریزوں کے لشکر پر حملہ کر دیا اور بے شمار انگریز عسکروں کو قتل کر ڈالا وہاں قائم فوجی چھاؤنی کو آگ لگا دی اس طرح وزیر محسود اور داوڑ قبیلے کے لوگوں نے ’’ملا پاوندہ‘‘ کی قیادت میں کئی بار انگریزوں پر حملے شروع کر دیے اور ان کے ناک میں دم کر دیا، انگریز پیچھے ہٹ گئے ۔

انگریزوں نے مومند قبیلہ کے علاقے میں اشتہارات جاری کر دیے اور ان اشتہارات میں لوگوں کو پیسے دینے کی تجویز پیش کی ۔ لوگوں نے ملا قدیم کی قیادت میں انگریزوں کے اس مطالبے سے انکار کر دیا اور موسیٰ خیل، گدر خیل، حلیم زئی، ترنگ زئی، عیسیٰ خیل میں آباد انگریزوں کے ایجنٹوں کے گھروں کو آگ لگا دی ۔ انگریزوں نے حلیم زئی ، ترنگ زئی، عیسیٰ خیل اور دیگر قبائل کو اطلاع دی کہ مومند کا غزنی علاقہ انگریزوں کو دیا گیا ہے اس لیے اب اس علاقے کے لوگ افغانستان سے اپنا رشتہ ناطہ توڑ ڈالیں ۔ حلیم زئی قبیلہ نے ملا نجم الدین سے رابطہ کیا اس نے سید محمد خان اور سلطان محمد خان کی مدد سے انگریزوں کے خلاف تبلیغ اور جہاد شروع کرنے کا اعلان کر دیا لوگوں نے پشاور اور ڈیرہ جات میں انگریزوں کی فوجی چھاؤنیوں پر حملے شروع کر دیے۔

1901 میں جب امیر عبدالرحمان فالج کے حملے سے جانبر نہ ہو سکے تو ان کی جگہ اس کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان نے بھی ڈیورنڈ معاہدے کی تجدید ان الفاظ میں کر لی ’’جو وعدے اور معاہدے میرے والد اور برطانوی حکومت کے درمیان ہوئے ہیں میں نے ان تمام معاہدوں پر عمل کیا ہے اور ہمیشہ کرتا رہوں گا ‘‘ ۔ ڈیورنڈ لائن کے بارے میں سرفریذر ٹیٹلر اپنی کتاب (TYTLER AFGHANISTAN) میں لکھتے ہیں ’’موجودہ حالات میں ڈیورنڈ کی لکیر ممکنہ حد تک ایک بہتر لکیر اور سرحد ہے لیکن اس کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں‘‘ ۔

فروری 1919ء میں امیر حبیب اللہ کے قتل کے بعد غازی امان اللہ نے 8 اگست 1919ء کو راولپنڈی میں اس کے مشن نے جس معاہدے پر دستخط کیے تو اس کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ بھی تازہ کر دیا ۔ 20 اپریل 1920ء کو منصوری کے مقام پر مستقل صلح کے معاہدے کی غرض سے منعقدہ کانفرنس میں افغان وفد کی قیادت محمود خان طرزی جو امان اللہ کا سسر اور اس وقت افغانستان کے وزیر خارجہ تھے اس معاہدے میں بھی ڈیورنڈ لائن اپنی جگہ قائم رہی اور کسی قسم کی تبدیلی کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ یہ کہا گیا کہ دونوں معزز جرگے متفقہ طور پر ہند اور افغانستان کے درمیان اس حد بندی کو تسلیم کرتا ہے جو8 اگست 1919ء معاہدے کے شق نمبر 5 میں افغان حکومت نے تسلیم کیا ہے ۔ 7 جنوری 1928ء کو جب امان اللہ خان نے اقتدار چھوڑ دیا اور اکتوبر 1929ء کو نادر خان تخت پر بیٹھ گئے تو مئی 1930ء کو برطانوی حکومت کے خارجہ امور کے سیکرٹری اور لندن میں افغان سفیر کے درمیان جو خط و کتاب ہوئی ہے.

اس میں برطانوی حکومت کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ ہمیں یہ مناسب لگتا ہے کہ شاہ محمد نادر شاہ اپنے دور حکومت میں یہ اعلان کر دے کہ وہ معاہدہ اب بھی قائم ہے جو 22 نومبر 1919ء کو کابل میں ہوا تھا اور میں یہ بات معرض تحریر میں لانا چاہتا ہوں کہ ہم ابھی چاہتے ہیں کہ وہ معاہدے بدستور قائم اور نافذ رہے۔ اس کے جواب میں نادر شاہ نے لکھا کہ میں بھی یہ بات معرض تحریر میں لانا چاہتا ہوں کہ وہ تمام معاہدے بدستور قائم اور نافذ رہے۔ بعد میں 1947ء کو افغان وزیر تعلیم نجیب اللہ خان نے اپنی ایک ریڈیائی تقریر میں کہا تھا کہ افغان حکومت نے 1931-1934ء کے درمیان کئی بار انگریز حکومت سے یہ بات کہی تھی کہ افغانستان کی ماورائی سرحد کے علاقے ہندوستان کی سرزمین کے حصوں میں شمار نہیں کرنے چاہیے ۔

آزادی کے بعد یعنی 1947ء میں سردار محمد ہاشم خان کے دور حکمرانی میں ڈیورنڈ لائن کے اس پار پختونوں کے بارے میں انگریزوں سے بات ہوئی تھی لیکن انگریزوں نے افغانستان کے اس مطالبے کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا بعد میں جب یہ مطالبہ حکومت پاکستان سے کیا گیا تو یہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے اندورنی معاملات میں مداخلت گردانا گیا۔ اس طرح 6 جون 1947ء کو لندن میں افغانستان کے وزیر سردار محمد نعیم خان اور انگریز وزیراعظم ارنست بیو کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں افغان وزیر نے کہا کہ صوبہ سرحد کا موضوع ہندوستان کے موضوع کا ایک حصہ ہے اور اس موضوع پر ہندوستان میں قائم برطانیہ حکومت سے بات ہونی چاہیے ۔

ستمبر 1947ء میں پاکستان کے گورنر جنرل کا خاص نمائندہ نوابزادہ سعد اللہ خان کابل کے دورے پر آئے افغانی حکام چاہتے تھے کہ ان سے صوبہ سرحد کے مسئلے پر بات کریں تاہم انہوں نے جواب میں کہا کہ مجھے اس بات کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی حکومت اپنے آپ کو انگریزوں کا وارث سمجھتی ہے وہ معاہدہ جو 1921ء میں افغانستان اور انگریزوں کے درمیان ہوا تھا اس معاہدے میں ڈیورنڈ لائن کی تائید ہو چکی ہے۔

افغانی حکام نے جواب میں کہا کہ پرانے معاہدے افغانستان اور انگریزوں کے درمیان ہوئے تھے اب پاکستان کے ساتھ نئے معاہدے ہونے چاہیں حالانکہ برصغیر کی تقسیم کے جو اُصول اتفاق رائے سے طے کئے گئے تھے ان میں یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ انگریزوں کے نکل جانے کے بعد انگریزی عہد میں ہونے والے معاہدوں کا اطلاق بدستور جاری رہے گا اور مقتدرہ کی تبدیلی سے معاہدہ غیر موثر نہیں ہو گا۔آخر میں فیصلہ ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی خارجہ تعلقات مضبوط کرنے کے لیے افغانستان اپنا نمائندہ بات چیت کے لیے پاکستان بھیجے ۔ انہوں نے 17 نومبر 1947ء کو کراچی میں پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے انہوں نے امریکا کے نمائندہ لوویس سے بھی ملاقات کی اور ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر افغانستان کے موقف سے آگاہ کر دیا ۔ نجیب اللہ خان نے پاکستان کے سیکرٹری جنرل اکرام اللہ سے مذاکرات کے دوران کہا کہ افغانستان کی حکومت کی یہ آرزو نہیں ہے کہ وہ صوبہ سرحد کے پختونوں کو پاکستان سے الگ کر دے بلکہ افغانستان چاہتا ہے کہ پختونوں کو پاکستان کے اندر ایک تشخص صوبہ اور داخلی آزادی دے تاکہ اپنی سیاسی وحدت اور قومی پہچان برقرار رکھیں اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں مدغم نہ ہو جائے ۔ پاکستان کے سیکرٹری جنرل نے جواب میں کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کی مدد سے سرحد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک راہ نکالی جائے ۔ امیر حبیب اللہ خان کی حکومت کے دوران صوبہ سرحد کے پختونوں کے ساتھ دوستانہ اور رشتہ دارانہ تعلقات اتنے مضبوط تھے کہ اہم سیاسی معاملات میں صوبہ سرحد کے لوگوں سے مشورہ لیا جاتا تھا جیسا کہ 1915ء کو صوبہ سرحد کے پختونوں کو اس لویہ جرگہ میں دعوت دی گئی تھی جس میں پہلی جنگ عظیم میں افغانستان کو غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ سنایا گیا تھا ۔ اس طرح غازی امان اللہ خان، محمد نادر شاہ اور ظاہر شاہ کے دور میں بھی افغانستان کی حکومت اور عوام نے سابق صوبہ سرحد کے پختونوں کے ساتھ مضبوط سیاسی اور قومی تعلقات استوار کر رکھے تھے ۔

ظاہر شاہ نے 1947ء میں افغانستان کی جشن آزادی کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہم آزاد قبائل کی سرنوشت سے لاتعلق نہیں رہ سکتے ۔ ان لوگوں کو بغیر کسی شرط اپنی سرنوشت تعین کرنے کا اختیار دینا چاہیے ۔ پاکستان کی حکومت نے جون 1949ء میں خان عبدالغفار خان اور دیگر پختون قوم پرست رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ قبائلی ایجنسیوں میں اپنے عسکری طاقت کو منظم کر دیا اس طرح افغانستان اور پاکستان کے درمیان صلح اور بات چیت کے امکانات ختم ہو گئے ۔ افغانستان نے ماورائے سرحد کے پختونوں کے حقوق کے ارتباط پر اپنی پالیسی بدل ڈالی اور نئی پالیسی میں وہاں کے پختونوں کو اپنی مرضی اور آزادی مانگنے کے مطالبے کی تائید کی ۔ 12 اگست 1949ء میں آفریدی قبیلہ کے مرکز تیراہ میں قبائلی عوام کی جانب سے ایک جرگہ منعقد ہوا اس جرگہ میں نہ صرف پختونستان کا نعرہ بلند ہوا بلکہ اس خطے کے لیے پختونستان کا نام اور جھنڈا بھی جرگہ نے منظور کیا۔

12 اگست 1949ء کو افغانستان کی حکومت نے لویہ جرگہ طلب کیا اس جرگہ نے 1893کا معاہدہ ڈیورنڈ لائن ، 1909ء کو حبیب اللہ خان اور انگریزوں کے درمیان معاہدہ، 1919 کو راولپنڈی میں صلح کا معاہدہ اور 1921ء کو افغانستان اور انگریزوں کے درمیان معاہدہ کو منسوخ کر دیا اس لویہ جرگہ نے پختونستان کی تحریک کی حمایت کا اعلان کر دیا اور افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس جانب خصوصی توجہ دے۔ 1955 میں پاکستان کی حکومت نے ون یونٹ کا اعلان کر دیا اس یونٹ میں سابق صوبہ سرحد اور بلوچستان دونوں کو پنجاب میں شامل کر دیا ۔ جلال آباد اور قندہار میں ون یونٹ کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے اور مظاہرین پاکستانی سفارت خانے میں داخل ہو گئے سفارتخانے کی عمارت کو شدید نقصان پہنچایا اور پاکستانی پرچم کو آگ لگا دی جس کے جواب میں پاکستانی عوام نے پشاور میں افغان بلڈنگ پر حملہ کر دیا اور وہاں توڑ پھوڑ اور فائرنگ کی ۔

بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا یہ تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ان تمام معاہدوں کا قانونی طور پر توثیق ہونا چاہیے تھا پاکستان کو اس موقف کی اہمیت معلوم ہے کیونکہ کئی دفعہ پاکستان نے کوشش کی ہے کہ افغانستان کو ڈیورنڈ لائن کی دوبارہ توثیق کے لیے آمادہ کرے لیکن 75 سال گزر گئے افغانستان میں ایسی حکومتیں بھی آئیں جس کا پاکستان کے ساتھ قریبی تعلق رہا۔ لیکن پاکستان بھی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔ 1977ء میں پاکستان نے افغان صدر سردار محمد داؤد خان کو پاکستان آنے کی دعوت دی صدر داؤد نے اس دورے کی دعوت قبول کی۔ ڈیورنڈ لائن کو انگریز بھی ایک انتظامی لکیر سمجھتے تھے لکیر کے آرپار افغانیوں اور پختونوں کو بغیر کاغذات آنے جانے کی اجازت تھی ۔

اس طرح پاکستان کے پختون قوم پرست سیاستدانوں نے بھی ایک زمانے میں اس لکیر کو مٹانے اور اسے دونوں ممالک کے درمیان ایک بین الاقوامی سرحد تسلیم نہ کرنے کے لیے باقاعدہ مہم چلائی تھی۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو زبردست کی طرف سے زیردست کے ساتھ کیا گیا یعنی بادشاہ کی درخواست بھی حکم کا درجہ رکھتی ہے اور افغانستان کے امراء کے ساتھ جتنے بھی معاہدے ہوئے ہیں ان میں واضح ترین شرط یہ تھی کہ افغانستان کے امیر خارجہ امور میں حکومت برطانیہ کی ہدایات کا پابند ہو گا، لہٰذا خارجہ امور میں پابند شخص کس طرح ملکی سرحدات کے بارے میں معاہدہ کر سکتا ہے ؟ کیونکہ سرحدات کے تعین کا معاملہ بین الاقوامی قانون کے تحت خارجہ امور کے ضمن میں آتا ہے اور اس معاملے میں امیر عبدالرحمان پابند تھے جبکہ کوئی معاہدہ کرنے یا اس پر دستخط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریقین آزاد ہوں۔

ان پر کسی قسم کا دباؤ جبر یا ان کی کسی مجبوری اور کمزوری سے فائدہ اٹھانے والی بات نہ ہو ۔ کچھ لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ معاہدہ عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیا جائے تو اس کی قانونی حیثیت کیا ہو گی ؟۔ 1993ء میں جب ڈیورنڈ لائن معاہدے کے سو سال پورے ہو گئے تھے تو جرمنی میں آباد افغانستان اور پاکستان کے چند قوم پرستوں نے اس بات کی بھی کوشش کی تھی کہ اس معاہدے کو عالمی عدالت میں چیلنج کرنا چاہیے۔ اس اختلافی بحث سے قطع نظر اس بات میں کوئی شک شبہ نہیں کہ ڈیورنڈ لائن کی ایک بین الااقوامی سرحد کی حیثیت مسلمہ ہے۔

حال ہی میں جب افغانستان کے غیر ریاستی عناصر کی جانب سے دہشت گردی میں غیر معمولی اضافہ ہوا تو افغان حکومت کے تعاون سے ڈیورنڈ لائن پر باڑھ لگانے کا کام مکمل کیا گیا ہے۔ دونوں ہمسایہ ملکوں کے معاملات میں رخنہ ڈالنے میں سب سے کلیدی کردار بھارت کا رہا ہے۔ یہ بات تسلیکئے بنا کوئی چارہ نہیں کہ ہمارا خطہ جس میں پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے سے منسلک ہیں ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کی پنجہ آزمائی کا مرکز رہا ہے۔ یہ ٹکراو آج بھی جاری ہے اور دنیا کی اہم طاقتیں یہاں اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہیں ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ کسی دوسرے کے لئے اپنے تعلقات کو خراب نہ کریں۔ اسی میں دونوں ملکوں اور پورے خطے کی بھلائی ہے۔ علامہ اقبال نے ہمیشہ افغانستان سے روحانی نسبت افغانوں کے کردار، اسلام سے لگاؤ، حریت فکر اور عزم کا بڑے موثر انداز میں ذکر کیا ہے۔ وہ افغانستان کی تزویراتی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔

اقبال کہتے تھے ’’برصغیر اور ایشیاء کا استحکام افغانستان کے استحکام سے منسلک ہے۔‘‘ اُن کا ماننا تھا کہ ایشیاء ایک جسم ہے جس کا دل افغانستان ہے۔  

Similar Posts