افغان طالبان حکومت نے افغانستان اور ازبکستان کے درمیان قائم مشترکہ سرحدی مارکیٹ میں محرم کے بغیر سفر کرنے والی خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کردی، جس کے باعث خواتین اور ان کے اہلِ خانہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق افغانستان کے شمالی صوبے بلخ کے مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان حکام ان خواتین کو بازار میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے جنہیں وہ بغیر محرم کے سفر کرنے والی قرار دیتے ہیں۔
سرحدی قصبے حیرتان کے رہائشیوں کے مطابق طالبان اہلکار ان خواتین کو جو بغیر محرم سفر کرتی ہیں مارکیٹ میں داخل ہونے سے روک دیتے ہیں۔ یہ بازار افغانستان اور وسط ایشیا کے کئی ممالک سے آنے والے افراد کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اہلکار نہ صرف خواتین بلکہ ان کے ساتھ موجود افراد کو بھی داخلے سے روکتے ہیں بلکہ ان کی شناختی دستاویزات کی جانچ سے بھی گریز کرتے ہیں اور انہیں زبانی بدسلوکی اور توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مقامی رہائشیوں کے مطابق جمعے کے روز یہ پابندیاں مزید سخت کردی جاتی ہیں کیوں کہ ان دنوں افغان شہریوں کی بڑی تعداد بازار آتی ہے، طالبان اہلکار دستاویزات کی جانچ کے بہانے مسافروں کو گھنٹوں انتظار کرواتے ہیں اور پھر انہیں بغیر کسی وجہ کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
بازار آنے والے ایک افغان شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر افغان میڈیا کو بتایا کہ ہمیں اپنی طرف سرحد پر جو ذلت آمیز سلوک سہنا پڑتا ہے وہ ازبک حکام کے رویے سے بھی بدتر ہے۔
ذرائع کے مطابق بازار آنے والی افغان خواتین میں اکثر عمر رسیدہ خواتین ہوتی ہیں جو ازبک اور روسی ڈاکٹروں سے علاج کروانے وہاں جاتی ہیں، طالبان کی جانب سے محرم نہ ہونے کی بنیاد پر عائد پابندیوں کے باعث متعدد خواتین صحت کی سہولیات اور دیگر خدمات تک رسائی سے محروم ہو رہی ہیں۔ طالبان حکام کی جانب سے ان الزامات پر تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
واضح رہے کہ 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے خواتین کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں، جن میں متعدد مواقع پر محرَم کے بغیر سفر پر پابندی شامل ہے، جس پر اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں تنقید کرتی رہی ہیں۔