آرچ بشپ ڈاکٹر آزاد مارشل
(صدر چرچز آف پاکستان)
کرسمس یسوع مسیح ؑ کا یوم ولادت ہے۔ یسوع مسیحؑ کے حوالے سے اسلام اور مسیحیت میں کافی باتوں پر اتفاق ہے۔ آپؑ کنواری ماں ؑ سے پیدا ہونا، آپ ؑ کے معجزات اور مسیحائی ، آپؑ کا آسمان پر اٹھا لیا جانا اور دنیا میں واپس آنا دونوں مذاہب کے پیروکار مانتے ہیں۔ آپؑ کے دنیا میں آنے کی وجہ انسان کی گری ہوئی حالت کو بحال کرنا تھا۔ آپؑ کے معجزات کا مقصد اپنی قوت دکھانا نہیں بلکہ اپنے آنے کا مقصد بتانا تھا۔ آپؑ نے اندھے کو بینائی ، بہرے کو کان اور گونگے کو زبان دی تاکہ وہ دیکھ، سن اور بول کر گواہی دے سکیں۔ کرسمس کے موقع پر ہم نے اپنی زندگیوں کو انہی تعلیمات کے مطابق استوار کرنا ہے جو آپؑ کی ہیں۔
ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ایمان سے سیکھیں، سب کو ایک ساتھ رہنا ہے، ایک دوسرے سے جڑنا ہے اور لڑنا نہیں ہے، یہی بین المذاہب ہم آہنگی ہے۔ مسلمان اور مسیحی دونوں کیلئے ہی یہ دن اہم ہے، اس لیے یہاں کرسمس منانا آسان ہے۔ یسوع مسیح ؑکی ولادت کا دن پوری دنیا کا ہے۔ مسلمان بھی آپؑ کی ولادت کی خوشی مناتے ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی عالمی معاملہ ہے اور دنیا میں اس پر بہت کام ہو رہا ہے۔ ہمارے اور جامعہ الاظہر کے درمیان ایکسچینج پروگرام ہے۔
جامعہ الاظہر کے طلبہ ایک سال کیلئے یونیورسٹی آف کینٹ جاتے ہیں اور سیمینری کا حصہ بنتے ہیں جہاں مسیحی قانون ، مذہب و دیگر معاملات کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ اسی طرح مسیحی طلبہ جامعہ الاظہر جاتے ہیں اور وہاں فقہ، اسلامک قوانین و دیگر معاملات سیکھتے ہیں۔ اس طرح ایک صحت مند ماحول میں اچھی تعلیم ملتی ہے جو بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں اہم ہے۔ مصر میں مسیحیوں کی بڑی تعداد موجود ہے، وہاں کے چیف جسٹس بھی مسیحی ہیں۔ پاکستان میں بھی اے آر کورنیلیس چیف جسٹس آف پاکستان رہ چکے ہیں۔ جامعہ الاظہر کے گرینڈ امام پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ ہم آئندہ برس اسلام آباد میں ان کے ساتھ ڈائیلاگ کا بندوبست کر یں گے تاکہ ایک دوسرے کے خیالات کو آگے پھیلایا جاسکے۔ موجودہ حکومت بین المذاہب ہم آہنگی پر کافی کام کر رہی ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ہمارے وفد کو بلایا اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ وہ ہر کرسمس پر مل کر کیک کاٹتے ہیں۔ انہوں نے مجھے جو سووینئر دیا اس پر ایک طرف قرآن مجید اور دوسری طرف بائبل مقدس کی آیت ہے جو انٹرفیتھ ہارمنی کے حوالے سے ہے۔ ہم دونوں الہامی کتب کو مانتے ہیں اور دونوں کی ہی بہت عزت و تکریم ہے۔ ہم نے اس مثال کو دنیا بھر میں عام کیا ہے، یہ شیلڈ یورپی ممالک کو بھی دکھائی گئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بین المذاہب ہم آہنگی کے بغیر آج کی دنیا میں نہیں رہ سکتے۔ پہلے دنیا میں ’جوڈیو کرسچن ویلیوز‘ پر سسٹم کو استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی جو تورات، زبور اور انجیل سے اخذ کی گئیں تھی لیکن 80ء کی دہائی سے انٹرفیتھ ویلیوز کی بات ہوئی جس میں اسلام کو بھی شامل کیا گیا۔
پھر ابراہام اکارڈ ہوا۔ سب مانتے ہیں کہ ہمارا تعلق حضرت ابراہیم ؑ سے ہے لہٰذا اب جوڈیو کرسچن اور اسلامک ویلیوز، تینوں بڑے مذاہب کی تعلیمات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ابوظہبی انٹرفتھ کمپلیکس میں تینوں مذاہب کی عباتگاہیں موجود ہیں تاکہ ان کے پیروکار ایک دوسرے سے ملیں اور سیکھیں۔ بدقسمتی سے غزہ میں ہمارے چرچ جلائے گئے، وہاں ہمارا ایک بڑا ہسپتال بھی تباہ کر دیا گیا جو فلسطینیوں کو علاج کی سہولیات فراہم کر رہا تھا۔ اسی طرح نائیجیریا میں مسیحیوں کے ساتھ ظلم ہوا، بھارت میں بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا۔ وہاں چرچز اور مسیحیوں کو نقصان پہنچایا گیا، ہزاروں چرچز کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت ضروری ہے کہ مذاہب کی مشترکات کو عام کیا جائے۔ مسیحیوں نے پاکستان کی تعمیر و ترقی اور ہر ادارے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سیموئیل پیارا
(چیئرمین امپلی مینٹیشن مینارٹی رائٹس فورم)
آئین پاکستان میں اقلیتوں کو عزت کا مقام دیا گیا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں اقلیتوں کو سب سے زیادہ خصوصی حقوق حاصل ہیں۔ یہاں بین المذاہب ہم آہنگی کی بہترین مثالیں موجود ہیں۔ صدر، وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ،چیف جسٹس صاحبان و دیگر اہم عہدیداران کرسمس کا کیک کاٹتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے تو اقلیتوں کو اپنے سر کا تاج قرار دیا ہے اور اس مرتبہ پورا ہفتہ کرسمس کی تقریبات کا اعلان کیا ہے۔ حال ہی میں جرمنی سے ہمارا ایک وفد آیا جس نے پنجاب حکومت کی کارکردگی اور انٹرفیتھ ہارمنی کے حوالے سے اس کے اقدامات کو سراہا۔ کرسمس کے موقع پر مسلم بھائی ہمیں سب سے زیادہ کیک بھیجتے ہیں اور آپس میں خوشیاں اور محبتیں بانٹتے ہیں۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر صاحب علم ہیں۔
جو سووینئر ان کی طرف سے دیا گیا اس پر دونوں مقدس کتابوں کا کلام درج ہے۔ہم نے اسے ویٹی گن اور یورپین ممالک میں دیکھایا تاکہ دنیا کو مثبت پیغام جاسکے۔ فیلڈ مارشل دنیا کے واحدس جرنیل ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے کام کر رہے ہیں،اس کی کوئی دوسری مثال نہی ملتی۔ مسیحیوں کی تقسیم ہند سے لے کر آج تک بڑی خدمات ہیں۔ یہ ملک بھی ہمارا ہے، فوج بھی ہماری ہے، تعلیمی و دیگر ادارے بھی ہمارے ہیں، ہم خود کو الگ نہیں سمجھتے۔ تقسیم کے وقت ہمارے بڑوں نے پاکستان میں شامل ہو کر مسلمانوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا، مسیحیوں نے ووٹ دے کر پنجاب کو پاکستان کا حصہ بنایا۔ ہماری تاریخ اور ثقافت اعلیٰ ہے۔ جسٹس اے آر کورنیلیس چیف جسٹس آف پاکستان رہے ۔ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ کرکٹ کیلئے ان کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ پہلے ان کا نام کرکٹ بورڈ کی عمارت پر درج تھا مگر اب نہیں ہے، ان کا نام شامل کیا جائے۔
بین المذاہب ہم آہنگی میں سول سوسائٹی کا کردار قابل تعریف ہے۔ کرسمس کے موقع پر مسلمان ہمیں بہت زیادہ کیک بھیجتے ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بیکری پر خصوصی کیک کی کمی ہے، آرڈر پر تیار ہو رہے ہیں۔ صوبائی حکومت بھی بین المذاہب ہم آہنگی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے اقلیتوں کو اپنے سر کا تاج قرار دیا، انہوں نے کیتھڈرل کا دورہ بھی کیا۔ اقلیتیں اپنے ملک اور افواج کے ساتھ کھڑی ہیں۔ بھارت کے ساتھ جنگ کے موقع پر ہم نے افواج پاکستان کے ساتھ یکجہتی کیلئے سب سے بڑی ریلی نکالی۔ یہ ہمارا ملک ہے اور ہماری سانسیں اس کے ساتھ چلتی ہیں۔ ہمیں یہاں مذہبی آزادی ہے تاہم جہاں مسائل ہیں انہیں بھی مل کر حل کرنا ہے ۔
مفتی سید عاشق حسین
(مشیر وزارت انسانی حقوق پنجاب و چیئرمین کل مسالک علماء و مشائخ بورڈ پنجاب )
کرسمس خوشی کا تہوار ہے۔ اس کی مناسبت سے دنیا بھر میں ہر سطح پر تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں، پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ میں خود روزانہ تین سے چار تقریبات میں شرکت کر رہا ہوں۔ جناح ہسپتال لاہور میں بھی کرسمس کی خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں ایم ایس، ڈاکٹرز، نرسز و دیگر عملے نے شرکت کی۔ اس وقت کنیڈا میں کیک کی کمی ہوگئی ہے، پاکستان میں بھی آرڈر پر کرسمس کیک تیار ہو رہے ہیں۔مسلمان مسیحیوں کو کرسمس کیک بھیج رہے ہیں، یہ بین المذاہب ہم آہنگی اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہونے کی عمدہ مثال ہے۔ ہماری اسلامی تاریخ میں بھی مسیحیوں کے ساتھ عمومی طور پر تعلقات اچھے رہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں بھی مسیحیوں کا کردار اہم ہے۔ تقسیم کے وقت پنجاب میں مسلم لیگ اور کانگریس کے 98،98 ووٹ تھے، ایسے میں اقلیتوں کے ووٹ فیصلہ کن تھے۔ قائد اعظمؒ نے ایس پی دیوان سنگھا سے بات کی، انہوں نے بطور سپیکر اور بطور رکن اسمبلی، دونوں ووٹ پاکستان کے حق میں دیے، ان کے ساتھ ساتھ ماسٹر فضل دین اور چندولال نے بھی حق میں ووٹ دیے۔ اس طرح پنجاب پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اقلیتوں نے تعمیر پاکستان سے لے کر دفاع پاکستان تک اپنا کردار ادا کیا ہے۔ 1965ء کی جنگ میں جہاں ایم ایم عالم نے ایک منٹ سے کم دورانیہ میں پانچ بھارتی جنگی طیارے مار گرائے وہیں سیسل چودھری نے بھارتی حدود میں جا کر ہلواڑہ ایئر فیلڈ میں بھارت کے اڑان بھرنے کیلئے تیار طیاریوں کو تباہ کیا اور واپس پاکستان آگئے ۔
ہم فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے فتنہ الخوارج کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔ یہ فتنہ ازل سے ہی انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔ بلوچ رجمنٹ کے میجر رؤف اور ضلع کرم میں ہارون ویلیم نے وطن کے لیے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ فیلڈ مارشل نے ہارون ویلیم کے تابوت کو کندھا دیا، اس کی آخری رسومات میں شرکت کی۔ ہم ایک خاندان اور ایک قبیلہ ہیں، ہم پاکستان میں اکٹھے رہتے ہیں، یہ بین المذاہب ہم آہنگی کی عظیم مثال ہے۔
قرآن کریم میں حضرت مریم ؑ کے نام سے سورۃ ہے اور قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کے دن کو سلامتی کا دن قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں مولانا سید عبدالقادر آزاد نے 60 برس قبل بین المذاہب ہم آہنگی کی بنیاد رکھی اور بادشاہی مسجد کو سب کیلئے کھول دیا، ہم اسی مشن کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ قرآن پاک کے پارہ نمبر چھ کی آخری آیت ہے کہ ’’ آپ یقینا ایمان والوں کے حق میں بلحاظ عداوت سب لوگوں سے زیادہ سخت یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے اور آپ یقینا ایمان والوں کے حق میں بلحاظ محبت سب سے قریب تر ان لوگوں کو پائیں گے جو کہتے ہیں بیشک ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس لیے کہ ان میں علماء (شریعت بھی) ہیں اور (عبادت گزار) گوشہ نشین بھی ہیں اور (نیز) وہ تکبر نہیں کرتیــ‘‘ لہٰذا میں اس آیت کی روشنی میں مسیحیوں کو دوست رکھتا ہوں، ہمیں کفر کے فتوے نہیں لگانے چاہئیں۔
عمانویل پرویز
(ایڈوائزر امپلی مینٹیشن مینارٹی رائٹس فورم)
یسوع مسیح ؑامن کے شہزادے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف دنیا کو اقدار کا درس دیا بلکہ ان پر عمل بھی کرکے دکھایا۔ آپ ؑ نے ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت کی تلقین کی۔ روداری، برداشت اور معاف کرنا سکھایا۔ یہ سب انہوں نے عملی طور پر بھی کیا اور دنیا کو پر امن بنایا۔ انہوں نے اپنے بدترین مخالفین کے حق میں بھی دعا کی لہٰذا اگر ہم نے اس دنیا میں امن کو فروغ دینا ہے تو آپ ؑ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔ دنیا بھر میں بین المذاہب ہم آہنگی پر بہت کام ہو رہا ہے، پاکستان میں بھی اس حوالے سے اقدامات جاری ہیں۔ دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک اچھا ہے تاہم جہاں خرابیاں ہیں انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔