پاکستانی سماج: خوف، خاموشی اور امید… حل کیا ہے؟

پاکستانی سماج اس وقت ایک عجیب نفسیاتی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ یہ کیفیت نہ مکمل خوف ہے نہ مکمل خاموشی اور نہ ہی خالص امید بلکہ ان تینوں کا ایک پیچیدہ امتزاج ہے۔

گلیوں، بازاروں، دفاتر اور گھروں میں باتیں ہوتی ہیں مگر آہستہ آواز میں۔ سوال ذہنوں میں ہیں مگر زبان پر آنے سے پہلے خود ہی دم توڑ دیتے ہیں۔

خوف آج پاکستانی سماج کا سب سے طاقتور مگر غیرمرئی عنصر بن چکا ہے۔ یہ خوف کسی ایک واقعے، ادارے یا شخصیت کا نہیں بلکہ غیریقینی مستقبل کا ہے۔

روزگار کے عدم تحفظ کا خوف، اظہارِ رائے کے نتائج کا خوف، یہی خوف رفتہ رفتہ خاموشی میں ڈھل جاتا ہے۔ ایک ایسی خاموشی جو احتجاج نہیں بلکہ مجبوری کی علامت ہے۔

خاموشی ہمیشہ کمزوری نہیں ہوتی لیکن جب خاموشی معمول بن جائے تو سماج کی فکری سانس رکنے لگتی ہے۔ آج کا پاکستانی شہری حالات پرتبصرہ تو کرتا ہے، مگر بند کمروں میں۔

سوشل میڈیا پر غصہ ہے، طنز ہے، چیخ ہے مگر حقیقی مکالمہ ناپید۔ ہم بولتے ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں، یا شایدہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ سننے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔

اس کے باوجود، اس دھند میں ایک چراغ ابھی بجھا نہیں اور وہ ہے امید۔ یہ امید نوجوانوں کی آنکھوں میں ہے، جو مایوسی کے باوجود سوال کرنا چاہتے ہیں۔

یہ امید ان اساتذہ، صحافیوں، ڈاکٹروں اور سرکاری ملازمین میں ہے جو محدود وسائل کے باوجود اپنا کام دیانت داری سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ امید اس ماں میں ہے جو مہنگائی کے باوجود بچوں کے لیے بہتر مستقبل کاخواب دیکھتی ہے۔

پاکستانی سماج کی اصل طاقت اس کی برداشت نہیں بلکہ اس کی یادداشت ہے۔ ہم نے اس سے زیادہ مشکل ادوار دیکھے ہیں مگر ہر بار سنبھلے ہیں۔

سوال یہ نہیں کہ حالات خراب ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ہم انھیں بہتر بنانے کے لیے اجتماعی شعور پیدا کر پا رہے ہیں یا نہیں؟

قومیں نعروں سے نہیں، سچ بولنے کی جرأت سے آگے بڑھتی ہیں۔ اختلاف دشمنی نہیں ہوتا، اور سوال بغاوت نہیں ہوتے۔ اگر پاکستانی سماج خوف سے خاموشی کی طرف جا رہا ہے تو اسے امیدکی طرف واپس لانا بھی اسی سماج کے باشعور طبقے کی ذمے داری ہے۔

امید کوئی معجزہ نہیں، یہ ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور شاید یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے پاکستانی سماج کو ایک بار پھر خود سے مکالمہ شروع کرنا ہوگا، بے خوف اورباوقار انداز میں۔

ہم پاکستانی جس کیفیت سے دوچار ہیں، یہ کیفیت کوئی انوکھی یا صرف پاکستانی سماج تک محدود نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کئی قومیں ایسے ادوار سے گزری ہیں جہاں خوف نے مکالمے کو دبا دیا اور خاموشی نے اجتماعی شعور کو مفلوج کر دیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی ایک ایسی ہی نفسیاتی شکست سے دوچار تھا۔ خوف، شرمندگی اور عدمِ اعتماد نے پورے سماج کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔

جرمن معاشرے نے اس کیفیت سے نکلنے کے لیے سچ کا سامنا کرنے اور ادارہ جاتی اصلاحات کا راستہ اختیار کیا۔ تعلیمی نصاب، آزاد میڈیا اور شفاف عدالتی نظام کو بحالی کا مرکز بنایا گیا۔

اسی طرح جنوبی افریقہ نسلی امتیاز (Apartheid) کے خاتمے کے بعد خوف اور انتقام کے دہانے پر کھڑا تھا۔ وہاں Truth and Reconciliation Commission کے ذریعے مکالمے کو فروغ دیا گیا، سچ بولا گیا، سنا گیا اور برداشت کیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ خاموشی ٹوٹی اور امید نے اجتماعی صورت اختیار کی۔

لاطینی امریکا کے کئی ممالک، خصوصاً چلی اور ارجنٹائن، فوجی آمریتوں کے بعد اسی سماجی جمود سے گزرے۔ وہاں صحافت، جامعات اور سول سوسائٹی نے مل کر خوف کو سوال میں بدلا۔

اختلاف رائے کو ریاست دشمنی نہیں بلکہ اصلاح کا ذریعہ تسلیم کیا گیا۔ ان تمام مثالوں میں ایک قدر مشترک تھی: اداروں کی مضبوطی، آزاد مکالمہ اور عوامی اعتماد کی بحالی۔ قومیں تبھی آگے بڑھتی ہیں جب وہ اپنے شہریوں کو بولنے، سننے اور اختلاف کرنے کا محفوظ ماحول فراہم کرتی ہیں۔

پاکستان کے لیے سبق یہی ہے کہ خوف کو قانون سے، خاموشی کو مکالمے سے اور مایوسی کو امید کے قابلِ عمل راستوں سے بدلا جائے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب ریاست اور سماج ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں بلکہ ہم سفر ہوں تو اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، روشنی اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔

Similar Posts