دی ٹیلیگراف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں تعلقات کشیدہ رہے تھے اور پاکستانی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ امریکی رقوم لیتے ہوئے “جھوٹ اور فریب” سے کام لیتی رہی اور ساتھ ہی طالبان گروہوں کو “محفوظ پناہ گاہیں” فراہم کرتی رہی جو امریکا کے خلاف لڑ رہے تھے لیکن اس مرتبہ ان کی حمایت حاصل کرلی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گوکہ پاکستان اور بھارت دونوں نے سرحد پر کشیدگی کے بعد امریکا میں لابنگ کے لیے کئی ملین ڈالر خرچ کیے اور ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں کی مدد حاصل کی لیکن اسلام آباد نے واشنگٹن میں روایتی حریف پر واضح برتری حاصل کی۔
اخبار نے بتایا کہ پاکستان نے دیگر کئی ممالک کے مقابلےمیں بہتر ٹیرف حاصل کیے اور فوج کے سربراہ اور وزیراعظم کو اوول آفس میں ملاقات کا موقع بھی مل گیا۔
ٹرمپ کی حمایت کے حوالے سے بتایا گیا کہ پاکستان نے داعش خراسان کے دہشت گرد ثنااللہ عرف جعفر کو گرفتار کرنے میں امریکا کی مدد کی، جو کابل ایئرپورٹ کے مرکزی ایبے گیٹ پر امریکی فوج کے انخلا کے دوران حملے میں ملوث تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت نے اپریل میں مقبوضہ کشمیر میں 26 افراد کو ہلاک کرنے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے پڑوسی ملک پر حملہ کیا، جس کے بعد کشیدگی بڑھی اور پاکستان نے فضائی اور زمینی حملوں کا بھرپور جواب دیا تاہم اس کا اختتام ٹرمپ کی مداخلت پر ہوا۔
مزید بتایا گیا کہ حریف ممالک کے جواب نے واشنگٹن میں اپنی پوزیشن بنائی جبکہ بھارتی حکام نے امریکی ثالثی تردید کی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرام مسری نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے واضح کیا کہ بھارت نے ماضی میں کوئی ثالثی قبول نہیں کی ہے اور آئندہ بھی کبھی نہیں کریں گے۔
اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے دوسرے صدارتی دور کے ابتدائی مہینوں کی سب سے بڑی تقریر میں پاکستان کی حکومت کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا اور اس میں ثنااللہ عرف جعفر کی گرفتاری کا حوالہ دیا۔