ایک مسئلہ اور بھی ہے، حقائق چھپانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ صورت حال ایسی ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کم دیکھا جا رہا ہے۔ انگریزی زبان کاایک لفظ لکھوں تو صورت حال وضاحت سے سامنے آ جاتی ہے، Irrelevant۔ ہر ایک نے اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنا رکھا ہے۔انھیں علم ہے کہ اب صرف سوشل میڈیا ہی اہم ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی سرکار کے حامیوں کو سننے اور دیکھنے کے لیے کوئی تیار نہیں ، سیاسی حالات اور ملکی سالمیت‘ آپس میں حد درجہ جڑے ہوئے ہیں۔
پچھلے ہفتہ دو اہم شخصیات سے طویل ملاقات ہوئی ۔ درد دل اور ملک سے محبت کرنے والے افراد ۔ کسی بھی عصبیت کے بغیر ‘ ان کی باتیں سن کر کم از کم ششدر رہ گیا۔ بلوچستان کے متعلق ایک حد درجہ باخبر شخص کہنے لگے کہ اس صوبے میں ایک المناک رجحان پیدا ہو چکا ہے اور ادارے اس سے باخبر ہیں۔ ان کے مطابق سول انتظامی ڈھانچے میں بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ہمدرد موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ حساس معلومات ان تنظیموں تک پہنچ جاتی ہوں گی۔
اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ ادھرکوئٹہ سے جیسے ہی آپ مستونگ کی طرف روانہ ہوتے ہیں، سول حکومت کی طاقت کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ بعض مقامات پر شاہراہوں سے گزرنے والوں سے جبری بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی شاہراہوں پر منفی مداخلت کو کافی حد تک کم کیا ہے ۔ جیسے ہی ان ملک دشمن عناصر کو پتہ چلتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے جوان‘ ان کی بیخ کنی کے لیے وہاں پہنچ رہے ہیں، تو یہ فوراً فرار ہو کر پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں۔ جہاں ان کی قدرتی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ اس شخصیت کے بقول سول انتظامیہ حد درجہ کمزور ہے۔ جن علاقوں میں سکون یا امن موجود ہے۔ اس کی واحد وجہ سیکیورٹی فورسز کی موجودگی ہے۔
دوسری اہم شخصیت نے برملا کہا کہ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق ہے‘ وہ بالکل درست سمت میںجا رہی ہے۔ کے پی میں اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں۔ ان اقدامات سے وطن دشمنوں کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی ہے۔ مگر جہاں تک سیاسی استحکام کا تعلق ہے، وہ حد درجہ ابتر ہے۔ خان صاحب کی ضد‘ اور تلخی اتنی بڑھ چکی ہے کہ دور رس فیصلے نہیں کر پا رہے۔ سیاسی پختگی کم ہونے کی بدولت‘ وہ نہ صرف اپنے ان گنت کارکنوں کی زندگی برباد کر چکے ہیں بلکہ اداروں سے ٹکراؤ کی کیفیت بھی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
اس کا نقصان خان صاحب کی پارٹی کے علاوہ‘ بذات خود انھیں بھی پہنچ رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے بہت کوشش کی ہے کہ خان صاحب‘ ایک حد درجہ محدود نقطہ نظر سے بالاتر ہو کر ‘ بلکہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر سوچیں ‘ تو معاملات اب بھی بہتر ہو سکتے ہیں۔ مگر‘ خان صاحب کے اردگرد‘ ایسے لوگ جمع ہو چکے ہیں‘ جو کسی صورت میں مفاہمت کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دے رہے۔ واحد وجہ یہ ہے کہ اگر خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان میں کسی طرح کی معاملہ فہمی ہوگئی ‘ تو ان لوگوں کی سیاسی دکان بند ہو جائے گی۔ موجودہ سیاسی حکمرانوں سے ریاستی ادارے بھی تنگ پڑ چکے ہیں۔کیونکہ موجودہ سیاسی ٹیم کی صلاحیت اس قدر کم ہے کہ وہ کوئی بھی مثبت بیانیہ بنا نہیں پا رہے۔ عوامی سطح پر ان کے بارے میں حد درجہ منفی رجحان موجود ہے،جو کم ہونے کے بجائے‘ ناقص پالیسیوں کی بدولت بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ زرداری‘ تمام تر خامیوں کے باوجود‘ بہت سنجیدہ سیاست کر رہا ہے۔ زرداری صاحب پر اسٹیبلشمنٹ بہت زیادہ اعتماد کرتی ہے۔
خیر یہ تو وہ گزارشات ہیں جو آپ اکثر لوگ پہلے ہی سے جانتے ہیں۔ مگر طالب علم کا تجزیہ ان ٹھوس حقائق پر مبنی ہے جس میں کسی بھی فریق کے ساتھ وابستگی شامل نہیں ہے۔ پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ ‘ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں اسٹیبلشمنٹ کی حد درجہ اہمیت ہے، ان کی سیاست میں مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ صحیح یا غلط ہونے کی بابت بالکل کچھ عرض نہیں کر رہا۔ حقیقت یہی ہے کہ 1947سے لے کر آج تک‘ ہر سویلین صدر یا وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے ذریعے ہی مسند اقتدار پر پہنچا ہے۔
نام لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک ایسا سچ ہے جسے سب جانتے ہیں ۔ یہاں ایک مسئلہ ضرور موجود ہے کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے ہاتھ ‘ان سیاسی رہنماؤں پر رکھا ‘ جن کی ساکھ قدرے بہتر تھی۔ عوام میں ان کی پذیرائی بہرحال موجود تھی۔ پھر ملک کی باگ ڈور‘ ان سیاست دانوں کے حوالے کر دی گئی ہے جو عوامی سطح پر ایک کارنر میٹنگ تک نہیں کر سکتے۔ اخلاقی اور سیاسی لحاظ سے وہ بالکل پیدل ہیں۔ جوہری مسئلہ کو بھانپنا ضروری ہے۔مگر یہاں ایک اور دشواری سامنے آ جاتی ہے۔ جیسے ہی اسٹیبلشمنٹ اس سیاسی بوجھ کو اتارنے کا ارادہ کرتی ہے۔ یہ گھاگ لوگ بیرون ملک جا پہنچتے ہیں اور ان ممالک کے کارندوں سے بات چیت کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ہمارے موجودہ سیاسی نظام کے ضامن ہیں۔
اب ذرا سوچ کے زاویے کو کھولیے۔ تو کیا یہ سوال ذہن میں نہیں آتا کہ ‘ بالآخر‘ سیاسی لنڈے کے مال کو استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر آپ دنیا کے غیر جانبدار جریدے اور اخبارات کا مطالعہ کریں‘ تو یہ نکتہ سامنے آ جاتا ہے کہ اصل مقصد‘ ہمارے ملک کو مسلسل کنٹرول میں رکھنا ہے۔ ہمیں گھٹنوں کے بل لا کر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے مذبح خانہ میں اس طرح پیش کرنا ہے‘ کہ نا ہم مر سکیں اور نہ ہم زندہ رہ پائیں۔ یعنی سسکتے سسکتے سانس لیتے رہیں۔ سیاسی ڈھانچہ ‘ ملک کی اقتصادی صورت حال کو زوال پذیرکرنے کا مکمل ذمے دار نظر آتا ہے۔ ان کی قوت فیصلہ صرف اور صرف اپنے مفادات تک محدود ہوتی ہے۔ ملک اگر نہ بھی ترقی کرے ‘ تو انھیں رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ ملکی بدحالی‘ ان کے لیے ناجائز دولت کمانے کے مزید راستے کھولتی چلی جاتی ہے۔
ایسے معلوم پڑتا ہے کہ طاقتور طبقے اب تمام معاملات کونئے زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ خان صاحب کے ساتھ بامقصد بات چیت کرنے کی کوشش پس پردہ کی جا رہی ہے۔ صرف اس لیے کہ اس کی مقبولیت سے ملک کو دوبارہ پٹری پر لایا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کئی تجزیہ کار میرے نقطہ نظر سے متفق نہ ہوں مگر پنجاب میں کے پی کے وزیراعلیٰ کا تین دن کا دورہ کسی آشیر آباد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اس میں بھی متعدد جوابات پنہاں ہیں؟ کوئی افواہ سازی نہیں کر رہا۔ یہ میرا اپنا تجزیہ ہے‘ جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔ سیاسی افق پر گہرے بادل ‘ کم از کم ایک سیاسی جماعت کے لیے چھٹتے نظر آ رہے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ اس جماعت میں ایسے سنجیدہ لوگ ہوں ‘ جو مذاکرات کریں اور انھیں کامیاب بھی کروا لیں؟ اس کی امید قدرے کم ہے۔ دیکھیے ‘ آنے والے وقت میں یہ عقدہ کس طرح کھلتا ہے؟ حل ہوتا بھی ہے یا نہیں؟ انتظار فرمائیے ۔ ہماری سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ غلام‘ مسند شاہی پر بیٹھ سکتا ہے ۔ اور بادشاہ زنجیروں میں جکڑا ہوا قیدی بن سکتا ہے۔ شطرنج میں اگلی چال کیا ہو گی ؟معلوم نہیں۔ مگرغور فرمائیے۔ آپ کو بازی سمجھ میں آ جائے گی؟