پاکستان میں مختلف مذاہب کے پیروکار موجود ہیں۔ یہاں مسلمان اکثریت جبکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے اقلیت میں ہیں۔ آئین پاکستان تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے جس کی روشنی میں حکومت اقلیتوں کے حقوق و تحفظ کیلئے اقدامات کرتی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ’’اقلیتوں کے حقوق کے عالمی دن‘‘ کی مناسبت سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں اقلیتی نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
آرچ بشپ ڈاکٹر آزاد مارشل
(صدر چرچز آف پاکستان)
اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ عالمی مسئلہ ہے۔ ایک مذہب کے پیروکار کسی ملک میں اکثریت ہیں اور کہیں اقلیت لہٰذا اب بات انسانی حقوق کی ہوتی ہے۔ اس خطے کی بات کریں تو پاکستان میں رہنے والی مسیحی اقلیت نہیں ہیں۔ ہم نے تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے حق میں ووٹ دیا اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے۔ ہم نے اس دھرتی کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ تقسیم کے وقت جو مہاجرین یہاں آئے ہم نے ان کی مرہم پٹی کی۔ اُس وقت ایف سی کالج لاہور میں ہسپتال بنایا گیا جو آج ’یو سی ایچ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم خود کو اقلیت نہیں سمجھتے لیکن گزشتہ کئی دہائیوں میں ہمیں اس مقام تک لایا گیا ہے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ ہم اقلیت ہیں اور ہمارے حقوق محدود ہیں۔ میرے نزدیک برابری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خدا نے تمام انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے۔
یہ ہمارا ا یمان ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی شبیہ پر پیدا کیا۔ اس لحاظ سے خدا کے نزدیک انسان کا بڑا مقام ہے۔ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں سے پاکستان کی قیادت کو علم دیا۔ قائد اعظمؒ سے لے کر آج تک کی قیادت میں بہت سارے لیڈر ہمارے سکولوں سے پڑھے ہیں۔ موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بھی ہمارے سکول سے پڑھی ہیں ۔سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایف سی کالج سے تعلیم حاصل کی۔ ہمارا گلہ ہے کہ ہمیں بعض جگہ حقوق نہیں ملتے۔ ہم پاکستان میں تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے اقلیت میں ہیں لیکن حقوق کم نہیں ہونے چاہئیں۔ ہم حکومت کے اقدامات اور منصوبوں کو سراہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اچھا کام کر رہی ہیں۔ ستھرا پنجاب جیسے منصوبے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کر رہے ہیں لیکن اقلیتوں کے حوالے سے اقدامات پر ہمارے تحفظات ہیں۔ پہلے اقلیتی وزیر مسیحی برادری سے ہوتا تھا لیکن اب ہمارا کوئی وزیر نہیں ہے۔ہم موجودہ وزیر کے خلاف نہیں ہیں، وہ اچھا کام کر رہے ہیں لیکن کوئی مسیحی وزیر بھی لازمی ہونا چاہیے، چاہے کوئی اور وزارت دے دی جائے۔
ہمارے نزدیک پنجاب اسمبلی میں مسیحی پارلیمانی سیکرٹری ہونا کافی نہیں ہے۔ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے، ہم نے بھارت کو معرکہ حق میں بھارت کو شکست دی۔ اس میں پوری قوم بغیر کسی تفریق کے افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی رہی۔ ہمیں حقوق مل رہے ہیں لیکن بعض جگہ مسائل ہیں، انہیں دور کرنا ہوگا۔ اقلیتوں کے حقوق و تحفظ کیلئے ہمیں معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔
شہزاد گل
(پادری)
ہم حکومت کے اچھے اقدامات کی تعریف کرتے ہیں۔ ہماری عبادت گاہوں کی بحالی قابل تحسین ہے۔ جتنی بڑی تعداد میں مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں بحال کی جا رہی ہیں، اس سے پہلے نہیں ہوئیں۔ قدیم چرچ کو بھی بحال کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔ ہماری عبادتگاہیں جو کنٹونمنٹ بورڈز میں آئیں، ان کی بحالی بھی کی گئی ہے،ا س پر ہم حکومت اور افواج پاکستان کے شکرگزار ہیں۔ اقلیتوں کے حوالے سے سروے میں ہمیں آبادی کا 3فیصد لکھا جاتا ہے۔
ہمیںا ٓج تک یہی معلوم نہیں ہوا کہ ہماری تعداد کتنی ہے،ا س حوالے سے حکومت نے اعداد و شمار نہیں دیے۔ نادرا کی طرف سے عدالت میں بیان دیا گیا کہ کراچی میں ایک لاکھ مسیحی ہیں حالانکہ وہاں تو ایک علاقے کی آبادی میں اس سے زیادہ تعداد ہے۔ گندھارا کوریڈورمیں صرف کسی ایک مذہب پر ہی توجہ نہ دی جائے۔ وہاں مسیحیوں کی تاریخ بھی ہے۔ مقدس توما جو یسوع مسیحؑ کے پہلے شاگرد تھے وہ وہاں رہے۔ ہر سال دنیا بھر سے مسیح وہاں زیارت کیلئے آتے ہیں لہٰذا گندھارا کوریڈور میں مسیحیوں کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ تعلیمی نصاب میں ہمارے ہیروز کے نام شامل نہیں ۔ ہم نے پاکستان کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں لہٰذا ہمارے ہیروز کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ ہم سے نفرت نہیںمحبت کی جائے۔ ہم پاکستانی ہیں اور ہماری تمام تر وفاداری پاکستان کے ساتھ ہے۔ ہمیں اقلیت کے بجائے پاکستانی مسیحی کہا جائے اور حقوق دیے جائیں۔
سیموئیل پیارا
(چیئرمین امپلی مینٹیشن مینارٹی رائٹس فورم)
اقلیتوں کے حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ اس فورم میں مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ 13 برس بعد بھی جسٹس تصدق جیلانی کے اقلیتوں کے حوالے سے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے درخواست جسٹس ہیلپ لائن کی طرف سے دی گئی تھی اور میں اس کا پائنیر ہوں۔اس فیصلے کے وقت ہم نے جسٹس تصدق جیلانی سے درخواست کی کہ عملدرآمد کے لیے بھی حکم صادر کریں ۔ ان کے فیصلے اور احکامات کی روشنی میں بینچ بنانا لازمی تھا۔ جب سابق چیف جسٹس ناصر الملک نے اس کیس کو دیکھا تو حکومت نے کہا کہ ہمارا کمیشن موجود ہے لہٰذا اس پر اتفاق ہوگیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس کی رپورٹ عدالت کو جمع کرانا ہوگی لیکن کبھی نہیں کروائی گئی۔
اس حوالے سے آگاہی کی بھی کمی ہے۔افسوس ہے کہ ہمارے نمائندوں کو بھی اس کمیشن کے حوالے سے درست آگاہی نہیں ہے۔ اقلیتوں کے حقوق سے متعلق اس معاملے کو ملک کے سات چیف جسٹس صاحبان نے دیکھا، آخر کار حکومت نے دباؤ میں یک رکنی کمیشن بنا یا۔ اب اقلیتوں کا قومی کمیشن بنایا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بات افسوسناک ہے کہ بل کے ڈرافٹ میں تو یہ کمیشن بااختیار تھا لیکن منظوری کے وقت اس کے اختیارات ختم کر دیے گئے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عالمی معیار کا کمیشن تشکیل دیا جائے۔ ہمیں دنیا اور خطے کے ممالک کے ساتھ بھی موازنہ کرنا ہے کہ وہاں اقلیتوں کو کیا حقوق حاصل ہیں۔
پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہیں بحال کی جا رہی ہیں جبکہ بھارت میں انہیں مسمار کیا جا رہا ہے۔ہماری عدالتیں اقلیتوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتی ہیں۔ از خود نوٹسز میں اقلیتوں کے حوالے سے بڑی تعداد میں نوٹسز شامل ہیں۔جین مندر ،1200 سالہ والمیکی مندر بحال کیا گیا۔ مال روڈ مری پر موجود ہمارے تاریخی چرچ پر قبضہ ختم کروایا گیا۔ ہم نے معرکہ حق میں افواج پاکستان کا ساتھ دیا، ہمیں ایوارڈز بھی دیے گئے۔ ہم محب وطن ہیں اور چاہتے ہیں کہ برابر حقوق دیے جائیں ۔ پشاور بم دھماکے کے بعداس وقت کے وزیراعظم نواز شریف وہاں گئے اور امدادی رقم کا اعلان کیا لیکن آج 13 سال گزرنے کے باجود بھی مرنے والوں کے لواحقین کو رقم نہیں ملی۔ بیواؤں اوربچوں کی زندگی ، تعلیم، صحت، شادیاں و دیگر معاملات متاثر ہوئے۔ جسٹس ناصر الملک کے حکم پر2015ء میں خیبر پختونخوا حکومت کو رقم منتقل کر دی گئی لیکن آج تک متاثرین کو نہیں مل سکی۔ پہلے ہمارے لیے قائد اعظم گولڈمیڈل ہوتا تھا، پھر اسے مینارٹی کلچر ایوارڈ کر دیا گیا، اب وہ بھی نہیں ہے۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبوں کو ہدایت دی لیکن کوئی کام نہیں ہو رہا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اقلیتوں کے حوالے سے عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے۔جسٹس (ر) اے آر کورنیلیس کرکٹ بورڈ کے سربراہ تھے ، انہوں نے اس ادارے کا آئین لکھا۔ پہلے کرکٹ بورڈکی عمارت کے دروازے پر ان کا نام تھا لیکن اب ہٹا دیا گیا ہے۔ مطالبہ ہے کہ ان کا نام دوبارہ لگایا جائے۔ خواتین سینٹری ورکرز کی صبح حاضری کے وقت تصاویر بنائی جاتی ہیںجو آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے۔ خواتین کے تقدس کا خیال رکھا جائے۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی ملک کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کو ہدایت ہے کہ سینٹری ورکرزکو بغیر حفاظتی کٹس کے سیوریج کے کام پر نہ بھیجا جائے۔
اس حوالے سے قانون سازی اور اقدامات کیے جائے۔ ماسوائے خیبر پختونخوا کے، کسی صوبے نے قانون سازی نہیں کی۔ پانی میں پولیو و دیگر وائرس موجود ہوتے ہیں لہٰذا سینٹری ورکرز کی صحت کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ صوبہ سندھ میں سینٹری ورکرز کی حالت افسوسناک ہے۔ حیدرآباد میں انہیں 16 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ پہلے بھی سپریم کورٹ کے حکم پر انہیں 9 ماہ کی تنخواہ دی گئی تھی۔ افسوس ہے کہ مزدور کی کم از کم اجرت کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا، سینٹری ورکرز کو کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ صوبہ پنجاب میں کم از کم اجرت کا اطلاق ہے اور یہاں ورکرز کی حالت بھی قدرے بہتر ہے۔
مسز ایستر شہزاد سرویا
(ممبر لاہور کینٹ بورڈ)
اقلیتوں کے حوالے سے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمارے سینی ٹیشن ڈیپارٹمنٹ کا ایک ورکر ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگیا تو کنٹونمنٹ بورڈ کے سی ای او رانا کاشف اور سٹیشن کمانڈر نے کافی مدد کی، خود کیس کو دیکھا اور اس کے لواحقین کی مدد کی ۔ میرے نزدیک اقلیتوں کے حقوق و تحفظ کے لیے تمام اداروں کو اپنا کام کرنا ہوگا، تب ہی ان کی حالت بہتر ہوگی۔ اس میںتمام سٹیک ہولڈر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنا حق ملنا چاہیے، ہم امن پسند لوگ ہیں ، مشکلات کو زندہ دلی سے برداشت کرتے ہیں اور اپنے لوگوں کے حقوق کیلئے کام کرتے ہیں۔ جن خواتین کے شوہر دنیا سے چلے جاتے ہیں، ان کی جگہ پر انہیں ملازمت دی جاتی ہے لیکن وہ کنٹریکٹ پر ہوتی ہے، 10 برس بعد بھی انہیں مستقل نہیں کیا جاتا، مطالبہ ہے کہ انہیں مستقل کیا جائے۔