افغانستان میں طالبان کی حکومت کے تحت نافذ کیے گئے اخلاقی ضابطے عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بن گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں طالبان کے نافذ شدہ قوانین کو بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق طالبان کی ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ کے نام پر قائم اخلاقی پولیس کی کارروائیاں انسانی وقار اور آزادی کے تقاضوں سے متصادم ہیں۔ خواتین کے حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا ہے، جن کی تعلیم، نقل و حرکت اور روزمرہ زندگی پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق طالبان نے ملک کے 28 صوبوں میں اخلاقی ضوابط کے نفاذ کے لیے 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں، جبکہ گورنرز کی زیر قیادت خصوصی کمیٹیاں بھی قائم کی گئی ہیں جو ان قوانین پر عمل درآمد کروا رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو محرم کے بغیر سفر کرنے سے روکا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف ان کے روزگار متاثر ہوئے ہیں بلکہ کئی فلاحی ادارے بھی اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے سے قاصر ہیں۔ اقوام متحدہ نے انکشاف کیا ہے کہ 46 فیصد خواتین فیلڈ وزٹ کرنے سے محروم رہیں جبکہ 49 فیصد کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔
طالبان کی پالیسیوں کو عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
رپورٹ نے بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ طالبان حکومت کے زیر سایہ افغانستان میں خواتین بالخصوص، ایک ریاستی جبر کا سامنا کر رہی ہیں، جسے مذہب اور اخلاقیات کے نام پر جائز قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔