لاہور ہائیکورٹ نے قصور میں مبینہ ڈانس پارٹی پر پولیس کے چھاپے کے دوران گرفتار خواتین کی ویڈیو وائرل کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ ایس ایچ او سمیت تین اہلکاروں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر جواب طلب کر لیا ہے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’پولیس اہلکاروں کی جرات کیسے ہوئی کہ لڑکیوں کے بال کھینچ کر ویڈیو بنائیں؟ جو کام پولیس نے کیا، وہ کسی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں۔‘
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ بچیوں کو ایسی جگہوں پر نہیں جانا چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پولیس کو ان کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کی اجازت ہو۔
جسٹس علی ضیا نے کہا کہ ’ایس ایچ او کو نوکری سے برطرف کرنے کی سفارش کی گئی ہے، لڑکیوں کے بال ہٹاکر ویڈیو بنانے والی خاتون کانسٹیبل کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟‘
ڈی پی او قصور نے عدالت کو بتایا کہ انکوائری کے بعد ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایونٹ پرائیویٹ نہیں بلکہ کمرشل تھا، جہاں باقاعدہ ٹکٹ کے ذریعے داخلہ دیا جا رہا تھا۔
پتنگ بازوں کی ’ٹِنڈ‘ کرکے ویڈیو اپلوڈ کرنے پر عدالت پولیس پر برہم
عدالت نے سوال اٹھایا کہ ’اگر یہ سب کچھ تھا تو تمام ملزمان مقدمے سے ڈسچارج کیسے ہوئے؟‘ جس پر ڈی پی او نے بتایا کہ مجسٹریٹ کے مطابق وارنٹ کے بغیر چھاپہ مارا گیا تھا، اس لیے قانونی مجبوری کے تحت تمام افراد کو چھوڑا گیا۔
پروسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ملزمان کو اس طرح ایکسپوز کرنے کا کوئی قانون نہیں۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے ویڈیوز بنانے اور سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔
سماعت کے دوران اس ویڈیو کا بھی ذکر ہوا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں خواتین کو گرفتار کرتے وقت ان کے چہرے اور بالوں کو زبردستی کیمرے کے سامنے لایا جا رہا تھا۔ عدالت نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز کو آئندہ سماعت پر معاونت کے لیے طلب کر لیا ہے، جبکہ ڈی پی او قصور نے یقین دہانی کروائی ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ ضلع میں پیش نہیں آئے گا، اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔