بھارت میں نریندر مودی حکومت نے پہلگام حملے کے بعد ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کر کے سفارتی روایات اور بین الاقوامی معاہدوں کو پاؤں تلے روند دیا۔ بھارتی حکام نے پاکستان حکومت کے سرکاری ”ایکس اکاؤنٹ“ تک رسائی روک دی ہے، جب کہ کئی دہائیوں پر محیط سندھ طاس معاہدے کو بھی یکطرفہ طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق وزیراعظم مودی کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے سلامتی (CCS) نے پہلگام حملے کے ردعمل میں پاکستان کے خلاف ایک طویل فہرست پر مشتمل اقدامات کی منظوری دی، جن میں سفارتی تعلقات کی سطح میں کمی، ویزا سہولیات کی معطلی، دفاعی مشیروں کی بے دخلی اور اٹاری بارڈر کی بندش شامل ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے سیکریٹری وکرم مِسری نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ دونوں ممالک کے سفارت خانوں میں عملے کی تعداد 55 سے گھٹا کر 30 کر دی جائے گی، اور یکم مئی تک عمل درآمد مکمل ہوگا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے دفاعی، بحری اور فضائی مشیروں کو ”ناپسندیدہ افراد“ قرار دے کر ایک ہفتے میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ جواباً بھارت بھی اپنے فوجی مشیروں کو اسلام آباد سے واپس بلا رہا ہے۔
بھارت نے سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کو بھی معطل کرتے ہوئے پاکستانی شہریوں کو جاری تمام موجودہ ویزے فوری طور پر منسوخ کر دیے ہیں۔ اٹاری کی واحد زمینی سرحدی چوکی بھی بند کر دی گئی ہے، جس کے ذریعے پاکستان سے آنے والے افراد کو یکم مئی سے پہلے بھارت چھوڑنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
بھارت سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد چار برس پہلے ہی روک چکا
سب سے خطرناک اور اشتعال انگیز قدم بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی ہے، جو 1960 میں عالمی ثالثی اور ورلڈ بینک کی ضمانت کے تحت طے پایا تھا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی یہ روش نہ صرف جنوبی ایشیا میں کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے بلکہ بین الاقوامی سفارتی، انسانی اور آبی قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ بھارتی اقدامات کی نوعیت دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ بھارت میں داخلی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے۔