ناروے نے امریکا کے بڑے دماغ چرانے کی تیاری کرلی، اسکیم لانچ

0 minutes, 0 seconds Read

ناروے نے امریکا کے بڑے دماغ چرانے کی تیاری کرلی جس کے لیے ایک خاص اسکیم متعارف کرائی گئی ہے۔

ناروے کی جانب سے ایک نئے اور دلچسپ منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے جس کا مقصد دنیا بھر سے اعلیٰ درجے کے محققین (Researchers) کو اپنے ملک راغب کرنا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ میں ٹرمپ حکومت کے دوران، تعلیمی آزادی پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

دی گارڈینز کے مطابق ناروے کی ریسرچ کونسل نے بدھ کے روز ایک نیا فنڈ متعارف کرایا جس کی مالیت 100 ملین نارویجن کرونر (تقریباً 7.2 ملین پاؤنڈ) ہے۔ اس کا مقصد دوسرے ممالک کے محققین کو بھرتی کرنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ اسکیم پوری دنیا کے محققین کے لیے کھلی ہے، لیکن اسے تیزی سے آگے بڑھایا گیا ہے کیونکہ گزشتہ ماہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ریسرچ فنڈنگ میں بڑی کٹوتیاں کی گئی تھیں۔

ناروے کا یہ اعلان وزیراعظم جونس گار اسٹورے اور وزیر خزانہ ینس اسٹولٹن برگ ( نیٹو کے سابق سیکریٹری جنرل) کے وائٹ ہاؤس کے دورے سے قبل سامنے آیا۔ اس ملاقات میں سیکیورٹی، یوکرین، تجارت اور دیگر اہم امور پر بات چیت متوقع ہے۔

ٹرمپ کو روس کا پُراسرار تحفہ، بنانے والے نے راز کھول دیا

ناروے کی وزیر تعلیم اور ریسرچر سیگرون آسلاند کا کہنا ہے کہ آج کے مشکل حالات میں ہمیں تعلیمی آزادی کی حفاظت کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم باصلاحیت محققین اور تعلیم کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ میں تعلیمی آزادی دباؤ کا شکار ہے، اور وہاں کے محققین کے لیے مستقبل غیر یقینی بنتا جا رہا ہے حالانکہ امریکہ طویل عرصے سے علم اور تحقیق میں دنیا کا رہنما ملک رہا ہے۔

ناروے کی ریسرچ کونسل نے بتایا کہ وہ اگلے ماہ ایسی ریسرچ پروجیکٹس کے لیے درخواستیں طلب کرے گی جن کا تعلق ماحول، صحت، توانائی اور مصنوعی ذہانت (AI) سے ہوگا۔

یہ منصوبہ کئی سالوں پر محیط ہوگا، جس کے لیے 2026 تک 100 ملین کرونر (نارویجن کرنسی) کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

5 جی 6 جی کا دور ختم، چین نے 10 جی انٹرنیٹ لانچ کردیا

ریسرچ کونسل کی چیف ایگزیکٹو ماری سُنڈلی ٹویٹ نے نارویجن میڈیا NRK کو بتایا کہ یہ اسکیم خاص طور پر امریکہ کی صورتحال کے پیشِ نظر بنائی گئی ہے۔ وہاں تعلیمی آزادی خطرے میں دکھائی دے رہی ہے اور فنڈنگ بھی کم ہو رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایسا قدم اٹھانے والے دیگر ممالک میں فرانس بھی شامل ہے، جہاں ایک یونیورسٹی (ایکس مارسے) نے امریکی محققین کو خوش آمدید کہا ہے اور تقریباً 300 امریکی ریسرچرز نے وہاں درخواست دی ہے۔

Similar Posts