سائنسدانوں نے ہمارے جسم میں وہ مالیکیولر نظام تلاش کیا ہے جو بالوں کے اگنے کا کام سنبھالتا ہے۔ اس دریافت کی وجہ سے بالوں کے گرنے کا ایک نیا اورآسان علاج ممکن ہو سکتا ہے، جس کے لیے آپ کو مہنگی دوائیں، سرجری یا بالوں کی پیوند کاری کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اس نئی تحقیق کے مطابق، بال گرنے کی عام قسم اینڈروجینیٹک ایلوپیسیا مستقل نہیں ہوتی بلکہ بال اگانے کے سگنلز میں خرابی کی وجہ سے بالوں کے فولیکلز عارضی طور پر غیر فعال ہو جاتے ہیں۔
خواتین مختلف جسمانی درد سے محتاط رہیں، یہ دل کے دورے کی ابتدائی علامات ہوسکتی ہیں
جسم کے وہ پیغام جو بال اگانے کو کہتے ہیں، ایک دوسرے سے صحیح بات نہیں کر پاتے اور اس وجہ سے بالوں کے ننھے ننھے ذرات یا فولیکلز ”سو“ جاتے ہیں اور بال گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اب سائنسدان ایسے علاج پر کام کر رہے ہیں جو بالوں کے ان سُوئے ہوئے فولیکلز کو جگا سکے۔ اس میں ایسے طریقے شامل ہیں جو مددگار پیغام بھیجیں، نقصان دہ سگنلز کو روکیں، خراب جینز کو ٹھیک کریں یا اسٹیم سیلز کے ذریعے بالوں کی نشوونما کو بڑھائیں۔
کینسر کا خاتمہ قریب؟ سائنسدانوں نے انقلابی ویکسین تیار کرلی
جانوروں پر کیے گئے تجربات میں یہ علاج کامیاب رہے ہیں اور امید ہے کہ اگلے دو سالوں میں انسانوں پر بھی آزمایا جائے گا۔
ماہر ڈاکٹر دیبراج شومے کہتے ہیں کہ بالوں کے فولیکلز مر جاتے نہیں، بلکہ صرف سُو جاتے ہیں۔ اب ہم جانتے ہیں کہ انہیں دوبارہ کیسے فعال کیا جائے۔
آج کل کے زیادہ تر علاج صرف بالوں کے گرنے کو روکنے یا بال چھپانے کا کام کرتے ہیں، لیکن یہ نئی تحقیق اصل مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دے رہی ہے تاکہ لوگ اپنے بال قدرتی طریقے سے دوبارہ اگا سکیں۔
ڈاکٹر دیپتی بیلانی کہتی ہیں کہ ہم اب صرف بالوں کے گرنے کو روکنے کی کوشش نہیں کر رہے، بلکہ بال اگانے کا عمل پھر سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔
آنے والے وقت میں یہ علاج ہر فرد کے لیے اس کے جینیاتی اور جسمانی حالات کے مطابق بنائے جائیں گے تاکہ زیادہ مؤثر نتائج مل سکیں۔ نئی دوائیں خاص سگنلز کو چالو کریں گی جو بال اگانے میں مدد دیتی ہیں، جس سے علاج زیادہ محفوظ اور بہتر ہوگا۔
اس کے علاوہ، جینیاتی مسئلے حل کرنے والے جدید طریقے جیسے CRISPR بھی بال گرنے کی وجوہات ختم کرنے میں مدد کریں گے اور مشکل کیسز میں اسٹیم سیلز اور دیگر طریقے استعمال کر کے بالوں کے ننھے فولیکلز کو دوبارہ پیدا کیا جا سکے گا۔
یہ تحقیق بالوں کے قدرتی علاج کی راہ میں ایک بہت بڑا قدم ہے اور مستقبل میں لاکھوں لوگوں کی زندگی بہتر بنائے گی۔