کینیڈا میں فیسٹیول کے دوران گاڑی ہجوم پر چڑھ دوڑی، کئی ہلاکتیں، متعدد زخمی

0 minutes, 0 seconds Read

کینیڈا کے شہر وینکوور میں ہفتہ کی رات ایک تہوار کے دوران ایک گاڑی نے ہجوم میں گھس کر کئی افراد کی جان لے لی اور متعدد کو زخمی کر دیا۔ وینکوور پولیس کے ایک بیان کے مطابق، ڈرائیور کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس نے مزید بتایا کہ 30 سالہ ڈرائیور وینکوور کا رہائشی تھا۔

پولیس ابھی تک ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کر سکی ہے۔ سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں سڑک پر کئی لاشیں پڑی ہوئی دکھائی دی ہیں۔

ایک سیاہ ایس یو وی جو کہ ہجوم میں گھس گئی تھی، ایک نیلے رنگ کے ٹرک کے ساتھ جائے وقوعہ کے قریب دیکھی گئی، جس کا بونٹ دبا ہوا تھا، ویڈیوز میں یہ منظر واضح طور پر دکھایا گیا ہے۔

کئی تصاویر میں لوگ زخمیوں کو سڑک پر پڑا ہوا دیکھ کر ان کی مدد کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، جبکہ کچھ افراد صدمے میں چیخ رہے ہیں اور اطراف میں خونریزی کے آثار موجود ہیں۔

اس واقعے کے بعد، وینکوور کے میئر کین سیم نے لابو لابو ڈے تہوار پر ہونے والے ”خوفناک واقعے“ پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا، جو فلپائنی ورثہ اور ثقافت کا جشن مناتا ہے۔

انہوں نے کہا، ’ہم جلد ہی مزید معلومات فراہم کرنے کی کوشش کریں گے، تاہم اس وقت وینکوور پولیس نے تصدیق کی ہے کہ کئی افراد کی ہلاکت ہوئی ہے اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ ہماری دعائیں اس مشکل وقت میں ان تمام متاثرین اور وینکوور کی فلپائنی کمیونٹی کے ساتھ ہیں۔‘

اگرچہ مقامی حکام اس واقعے کی اصل وجہ کی تصدیق نہیں کر سکے ہیں، لیکن یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں ایسی ہی وارداتوں کا ایک نمونہ سامنے آ رہا ہے، جہاں گاڑیوں کا استعمال ہجوم میں بے خبر لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

نئے سال کے موقع پر، امریکی شہری شمس الدین جبار نے نیو اورلینز کی ایک مصروف سٹریٹ میں اپنی پک اپ ٹرک گاڑی گھسی اور پھر باہر آ کر فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک اور 57 زخمی ہوئے۔

جبار کو آخرکار گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، اور اس کی گاڑی سے داعش کا جھنڈا برآمد ہوا۔ ایف بی آئی نے اسے گھریلو دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا اور کہا کہ جبار داعش سے متاثر تھا۔

برلن، لندن اور نیو یارک جیسے شہروں میں ایسے حملوں نے عوام میں خوف و ہراس پھیلایا ہے، جس کے بعد حکام نے عوامی تقریبات اور تہواروں پر سیکیورٹی بڑھا دی ہے۔

اگرچہ ان حملوں کی وجوہات دہشت گردی سے لے کر ذہنی مسائل تک مختلف رہی ہیں، مغربی حکام نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حملہ آوروں کی طرف سے استعمال ہونے والے ایک ہی طریقہ کار نے ایک بڑھتے ہوئے خطرے کو جنم دیا ہے۔

Similar Posts