اسلام آباد میں آل پاکستان حج جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدر فہیم بٹ اور دیگر عہدیداران نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حج 2025 کے انتظامات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 67 ہزار عازمین حج اس فریضے کی سعادت سے محروم ہو گئے، جو انتہائی افسوسناک اور شرمناک سانحہ ہے۔ انہوں نے اس کا براہ راست ذمہ دار وزارت مذہبی امور کے ناتجربہ کار افسران کو ٹھہرایا۔
فہیم بٹ نے کہا کہ نجی حج سکیم کے تحت درخواستیں دینے والے 67 ہزار افراد کی رقوم 14 فروری تک وزارت کو جمع کرا دی گئی تھیں، مگر وزارت مذہبی امور کے افسران یہ رقوم بروقت سعودی حکومت کے اکاؤنٹس میں منتقل نہ کر سکے۔ اگر یہ ادائیگیاں بروقت کر دی جاتیں تو ہزاروں پاکستانیوں کو فریضہ حج سے محروم نہ ہونا پڑتا۔
انہوں نے صدر مملکت اور وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بڑے قومی سانحے کی مکمل تحقیقات کرائیں اور 67 ہزار محروم رہ جانے والے عازمین حج کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات اور صدر پاکستان کی ہدایات کے باوجود 57 نجی کمپنیوں کو حج کوٹہ نہیں دیا گیا۔
پریس کانفرنس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ نجی سکیم کے تحت حج درخواستیں سرکاری سکیم کے ساتھ ہی جمع کرانے کی اجازت نہیں دی گئی، اور حج آپریٹرز ایسوسی ایشن (ہوپ) نے غیر ضروری تاخیری حربے استعمال کیے، یہاں تک کہ حکم امتناعی بھی حاصل کیا۔ نتیجتاً وزارت مذہبی امور اور ہوپ کی ضد بازی کے سبب 67 ہزار عازمین حج سے محروم ہو گئے، اور صرف 23 ہزار افراد ہی نجی سکیم کے تحت حج پر جا سکیں گے۔
فہیم بٹ نے سابق وزرائے مذہبی امور چوہدری سالک اور سردار یوسف کی کوششوں کو سراہا لیکن کہا کہ وزارت کی بیوروکریسی نے ان وزرا کو مس گائیڈ کیا۔ انہوں نے سابق سیکرٹری مذہبی امور ذوالفقار حیدر کو اس تمام بحران کا بنیادی ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ سابقہ برسوں میں سعودی حکومت کی جانب سے عازمین حج کے لئے ڈیڈ لائن میں نرمی کی جاتی رہی ہے، لیکن اس بار ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈی جی حج مکہ کی طرف سے نجی ٹور آپریٹرز کی رقم غلط سعودی اکاؤنٹس میں منتقل ہونے کے باعث قیمتی وقت ضائع ہوا، جو اس نقصان کی ایک بڑی وجہ بنی۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر فہیم بٹ نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس المیے کی فوری تحقیقات کرے، ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے جامع پالیسی ترتیب دی جائے۔