صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کے مشورے تو ہم سب سنتے ہیں، مگر یوٹیوبر لُکاس بال، جنہیں ان کے فالوورز ’پگمی‘ کے نام سے جانتے ہیں، نے ان مشوروں کو ایک نئی انتہا پر لے جا کر سب کو حیران کر دیا۔ انہوں نے پورے ایک ہفتے تک مسلسل کھڑے رہنے کا تجربہ کرنے کی ٹھانی، یعنی بغیر بیٹھے ہوئے، روزانہ سولہ گھنٹے سیدھے کھڑے رہنا!
یہ چیلنج صحت کے ماہرین کی اُن ہدایات سے متاثر ہو کر لیا گیا جن کے مطابق دن میں کم از کم دو سے چار گھنٹے کھڑے رہنا بیٹھے رہنے کے نقصانات سے بچنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے لُکاس نے ایک بانس کی بنی ہوئی اسٹینڈنگ ڈیسک بھی خریدی تاکہ گھر سے کام کرتے وقت آسانی رہے۔
شروع کے دنوں میں لُکاس نے اپنی پرفارمنس میں خاطر خواہ اضافہ محسوس کیا۔ ان کا کہنا تھا، ’میں وقفے یا بریکس نہیں لیتا تھا، اور اس سے توجہ بھی بھٹکنے نہیں پاتی تھی۔‘
مگر تیسرے دن تک اُن کے جسم پر تھکن کے اثرات ظاہر ہونے لگے اور لُکاس کو ٹانگوں اور پیروں میں درد، پُشت کی خمیدہ حالت، اور ضرورت سے زیادہ بھوک جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے اعتراف کیا کہ ’شاید میں زیادہ کیلوریز جلا رہا تھا، اس لیے ہر وقت بھوک لگتی رہی۔‘

پانچویں دن تک صورتحال کافی خراب ہو چکی تھی اور اسے نیند میں خلل، کولہوں اور گھٹنوں میں درد، اور پوسچر کی بگڑتی ہوئی حالت نے مجبور کر دیا کہ وہ یہ چیلنج قبل از وقت ختم کر دیں۔ اس صورتِ حال پر لُکاس نے مشاہدہ بتایا کہ ’اوپری پُشت میں خم آنا شروع ہو گیا تھا، البتہ نیچے کی طرف ہلکی بہتری محسوس ہوئی۔‘
لیکن اس سخت تجربے کے باوجود لُکاس نے کچھ مثبت پہلو بھی دیکھے، اس نے نظامِ انہضام میں بہتری، اور کام کی صلاحیت میں تقریباً 30 فیصد اضافہ محسوس کیا۔ تاہم، اس نے ایک پاؤنڈ وزن بھی بڑھایا۔ جس کا غالباً سبب مسلسل کھاتے رہنا تھا۔
اپنے تجربے کا جائزہ لیتے ہوئے لُکاس نے کہا کہ وہ اب بھی روزانہ کچھ وقت کھڑے ہو کر کام کریں گے، مگر توازن کے ساتھ۔
’جب تھکن محسوس ہوگی، تب اسٹینڈنگ ڈیسک نکال لیں گے،‘ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، اور پانچ دن بعد پہلی بار بیٹھ گئے۔