وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2025-26 کا بجٹ 2 جون کو پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں 16 فیصد کمی کی گئی ہے اور اس کا حجم 921 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں لگ بھگ 200 جاری ترقیاتی منصوبوں کی بندش کا امکان ہے۔ قومی اقتصادی کونسل کی منظوری 26 یا 27 مئی کو متوقع ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ انکشاف وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے آئندہ سال کے ترقیاتی بجٹ کی جو ابتدائی حد (IBC) مقرر کی گئی ہے، وہ 921 ارب روپے ہے، جو منصوبہ بندی کمیشن کی جانب سے طلب کردہ 2.9 کھرب روپے کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
وفاقی وزیر نے مزید بتایا کہ یہ رقم رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ ترقیاتی بجٹ 1.1 کھرب روپے سے بھی 16 فیصد کم ہے، جسے پارلیمنٹ نے 1.4 کھرب روپے کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف کی ہدایت پر کم کیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق احسن اقبال نے کہا کہ وہ وزارت خزانہ کی جانب سے مقررہ IBC کو چیلنج کریں گے اور وزیرِاعظم سے اپیل کریں گے کہ غیر ملکی امداد یافتہ منصوبوں کے لیے کم از کم 1.6 کھرب روپے کی منظوری دی جائے تاکہ روپے میں فنڈز کی دستیابی ممکن ہو۔
پریس کانفرنس میں وزیر نے ”ماہانہ ترقیاتی جائزہ رپورٹ – مئی 2025“ بھی جاری کی، جو وزارت خزانہ کی اقتصادی رپورٹ کے طرز پر تیار کی گئی ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں سے تقریباً 900 ارب روپے کی رقم جاری کرنے کی اجازت دی جا چکی ہے، اور امید ظاہر کی کہ مئی اور جون میں مزید فنڈز جاری کیے جائیں گے۔ تاہم انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وزارت خزانہ کو مالیاتی وسائل کی کمی کا سامنا ہے، اور ترقیاتی بجٹ میں اضافے کے لیے ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں بہتری ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی 23 مئی کو اجلاس کرے گی تاکہ آئندہ مالی سال کا ترقیاتی پروگرام صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ساتھ مشاورت سے حتمی شکل دی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اقتصادی کونسل (NEC) 26 یا 27 مئی کو اجلاس میں ترقیاتی پروگرام اور معاشی اہداف کی منظوری دے گی، جبکہ وفاقی بجٹ 2 جون کو پیش کیا جائے گا۔
احسن اقبال نے بتایا کہ آئندہ ترقیاتی بجٹ کے لیے منصوبہ بندی کمیشن نے 2.9 کھرب روپے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن وزارت خزانہ نے صرف 921 ارب روپے منظور کیے، جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 178 ارب روپے کم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اتنے محدود بجٹ سے اہم منصوبوں کے لیے درکار رقوم مختص نہیں کی جا سکتیں، جس کے نتیجے میں نہ صرف منصوبے تاخیر کا شکار ہوں گے بلکہ ان کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ آئندہ ترقیاتی بجٹ میں صوبائی منصوبوں کی تعداد میں کمی کی جائے گی اور تقریباً 200 سست رفتار منصوبے بند کر دیے جائیں گے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی لاگت 480 ارب روپے سے بڑھ کر 1.5 کھرب روپے جبکہ داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کی لاگت 500 ارب روپے سے بڑھ کر 1.7 کھرب روپے ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ داسو منصوبے میں شدید انتظامی کوتاہیاں ہوئیں، کیونکہ اتنے بڑے منصوبے کے لیے نہ کوئی پراجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا اور نہ ہی چیف فنانشل آفیسر، بلکہ واپڈا کے اپنے افسران اس منصوبے کو چلا رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ منصوبے میں سڑکوں کی تعمیر کے معاہدے بھی ڈالر میں کیے گئے، جو کہ غیر معمولی بے ضابطگی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی خلاف ورزیوں کی مکمل ذمہ داری کا تعین ہونا چاہیے۔
اسی طرح نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے میں بھی سنگین بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کی جلدی میں کنسلٹنٹ کی تقرری سے پہلے ہی کنٹریکٹر کو متحرک کر دیا گیا، جو ایک بڑی کوتاہی ہے۔
احسن اقبال نے بتایا کہ ایک اجلاس کے دوران جب انہوں نے نیلم جہلم منصوبے کے چیف فنانشل آفیسر (CFO) سے تعلیمی قابلیت پوچھی تو انکشاف ہوا کہ ان کے پاس جغرافیہ میں ماسٹرز کی ڈگری ہے۔ انھوں نے کہا کہ نیلم جہلم منصوبے میں تکنیکی ناکامی سے متعلق انٹرنیشنل میرین کور کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ واپڈا کا چیئرمین سویلین کیوں نہیں ہو سکتا تو انہوں نے کہا کہ ان کی رائے میں واپڈا کا سربراہ سویلین ہونا چاہیے، اور وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرِ ہائیڈولوجی ہو۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیرِاعظم کو اس سلسلے میں سفارش کریں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ آئندہ ترقیاتی بجٹ کی ترجیحات حکومت کے ”اُڑان پاکستان“ پروگرام سے ہم آہنگ ہوں گی، جس کا مقصد روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور معیشت کو بہتر بنانا ہے۔ ان کے مطابق اس پروگرام کے تحت منظور شدہ منصوبوں سے تقریباً 1,20,000 افراد کو براہ راست اور بالواسطہ روزگار ملے گا۔
وزیراعظم کی وفاقی بجٹ کی تیاری سے متعلق مشاورت
آج اسلام آباد میں وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت وفاقی بجٹ کی تیاری سے متعلق اجلاس منعقد ہوا جس میں نجی شعبے کے ممتاز کاروباری شخصیات اورماہرین سے بجٹ پر مشاورت کی گئی۔
اجلاس کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے حکومت اورنجی شعبے کوملکرکام کرنا ہے ، آئندہ بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینا اولین ترجیح ہے، غریب اورمتوسط طبقے کی مالی مشکلات میں کمی کیلئےتمام وسائل بروئے کارلائے جائیں گے۔
اجلاس میں وزیراعظم نے وفاقی بجٹ کی تیاری میں برآمدات پرمبنی ہائیدارترقی پر توجہ مرکوزبنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ صنعتوں کے فروغ اور پیداوار میں اضافے کے لئے منصوبوں پر کام کیا جائے، نوجوانوں کوپیشہ ورانہ تربیت دے کرعصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہماری حکومت کی ترجیح ہے، وفاقی بجٹ تیار کرتے ہوئے نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے پر خصوصی توجہ مرکوزکی جائے۔
انھوں نے اجلاس میں یہ بھی کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت منصوبوں کا فروغ اگلے بجٹ میں حکومتی ترجیح ہوگی، پاورسیکٹرمیں حکومتی اصلاحات کے مثبت نتائج آ رہے ہیں، صنعتوں کیلئے بجلی کی قیمتوں میں کمی حکومت کی صنعت وپیداوارکے فروغ کی جانب ایک اہم اقدام ہے۔