روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات کی پیش کش کی ہے اور کہا ہے کہ یہ مذاکرات 15 مئی کو ترکیہ کے شہر استنبول میں ہونے چاہئیں اور جن کا مقصد ایک پائیدار امن کا قیام اور جنگ کی بنیادی وجوہات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
صدر پیوٹن نے کہا کہ روس نے یوکرین کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ ان کے مطابق 2022 میں جنگ کے آغاز کے فوراً بعد مذاکرات شروع کیے گئے تھے، لیکن انہیں یوکرین نے یکطرفہ طور پر ختم کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ’روس نے مذاکرات ختم نہیں کیے تھے، یہ کییف تھا جس نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔ اب بھی ہم بغیر کسی پیشگی شرط کے براہ راست بات چیت کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔‘
خطرناک انٹیلی جنس اطلاعات ملنے پر امریکہ نے مداخلت کی، سی این این
انہوں نے یوکرینی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’ہم کییف حکام کو پیش کش کرتے ہیں کہ وہ جمعرات کو استنبول میں براہ راست مذاکرات بحال کریں۔ ہماری تجویز میز پر ہے، فیصلہ اب یوکرینی قیادت اور ان کے سرپرستوں پر منحصر ہے، جو بظاہر اپنے عوام کے مفادات کے بجائے ذاتی سیاسی عزائم کے تابع ہو چکے ہیں۔‘
دوسری جانب یورپ کے بڑے ممالک اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز یوکرین میں بغیر کسی شرط کے 30 روزہ جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے صدر پیوٹن کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے اس پیش کش کو چند دنوں میں قبول نہ کیا تو ان پر ”سنگین“ نئی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو خود کو ”امن کا علمبردار“ قرار دیتے ہیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کا کریڈٹ خود کو دے چکے ہیں، کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ یوکرین کی ”خونریزی“ کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جسے ان کی حکومت امریکہ اور روس کے درمیان ایک نیابتی جنگ کے طور پر دیکھتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کیسے ہوا؟ امریکی صحافی نے تفصیلات بتا دیں
صدر پیوٹن کے مطابق یہ جنگ ماسکو اور مغرب کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد مغرب نے نیٹو کو روسی حدود تک وسعت دے کر ماسکو کو بارہا ذلیل کیا اور یوکرین سمیت روس کے زیر اثر خطے کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔