سینیٹ کا اجلاس پریذائیڈنگ افسر عرفان صدیقی کی زیرِ صدارت ہوا، جہاں پی ٹی آئی اور اپوزیشن سینیٹرز نے اراکین کی غیر موجودگی اور حکومتی رویے پر شدید تنقید کی۔ اجلاس کے دوران متعدد بلز پیش کیے گئے اور قائمہ کمیٹیوں کو بھجوائے گئے، تاہم اپوزیشن نے سوالات و جوابات کے سیشن کی معطلی پر اعتراض اٹھایا۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر ڈاکٹر ہمایوں مہمند نے ایوان میں اراکین کی کم تعداد پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ایوان خالی پڑا ہے، پھر بھی کارروائی جاری ہے۔ اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے ایوان کو کاغذی کارروائی تک محدود رکھنے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہاؤس صرف کارروائی پوری کرنے کے لیے نہیں ہے۔
شبلی فراز نے مزید کہا کہ حکومت بلز ایوان میں لا تو رہی ہے مگر ان پر بحث یا سوال و جواب کا وقت نہیں دیا جاتا، اور اکثر بلز ایسے وزرا پیش کر رہے ہیں جنہیں ان بلز کا علم ہی نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلز کا ایجنڈا مؤخر کر کے وزرا کی موجودگی میں دوبارہ پیش کیا جائے۔
سلیم مانڈوی والا نے بھی سوالات و جوابات کے سیشن کی معطلی پر اپوزیشن کے موقف کی تائید کی۔ پریذائیڈنگ افسر عرفان صدیقی نے اعتراف کیا کہ موجودہ صورت حال سابقہ دور کی طرح ہی ہے اور تمام سوالات کا بوجھ ایک ہی وزیر پر ڈالنا درست نہیں۔
اجلاس میں پاکستان پینل کوڈ ترمیمی بل، فوجداری قوانین ترمیمی بل، مسلم فیملی لاز بل، دماغی صحت بل اور پرائیویٹ میڈیکل کالجز ریگولیشن رپورٹ سمیت کئی بلز پیش کیے گئے، جبکہ بعض کو متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کیا گیا۔ شبلی فراز اور بیرسٹر علی ظفر نے ان بلز کی پیشکش پر تحفظات کا اظہار کیا۔
اجلاس میں پانی کی قلت کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا۔ سینیٹر فوزیہ ارشد نے سی ڈی اے کی ناکامی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ چالیس فیصد پانی اسلام آباد پہنچنے سے پہلے چوری ہوجاتا ہے۔ پریذائیڈنگ افسر نے معاملہ داخلہ کمیٹی کو بھیج دیا۔
سندھ طاس معاہدے کی بھارتی معطلی پر بھی سینیٹ میں شدید ردعمل سامنے آیا۔ شبلی فراز نے بھارت کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارت دہشت گردی سمیت ہر حربہ استعمال کرے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم بھارت کو سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ تبدیلی کی اجازت نہیں دیں گے۔
اجلاس کے اختتام پر ایوان بالا کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔