آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت جاری کی گئی تازہ رپورٹ نے سرکاری اداروں کے مالی خسارے کی سنگین تصویر پیش کر دی ہے۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 15 سے زائد سرکاری اداروں کا مجموعی خسارہ 59 کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پینشن کی مد میں واجبات 17 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں، جب کہ سرکاری اداروں پر واجب الادا گردشی قرضے 49 کھرب روپے ہو چکے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا حصہ بجلی کے شعبے کا ہے جو 24 کھرب روپے پر مشتمل ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا مجموعی خسارہ 1953 ارب روپے،کیسکو کے نقصانات 770.6 ارب، پیسکو کے مجموعی نقصانات 684.9 ارب،کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کا 6 ماہ کا خسارہ 58.1 ارب روپے ہے۔
اسی طرح سیپکو کا 6 ماہ کا خسارہ 29.6 ارب روپے اور مجموعی خسارہ 472.99 ارب،پاکستان اسٹیل ملز کا 6 ماہ میں خسارہ 15.6 ارب روپے اور مجموعی خسارہ 255.82 ارب،پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کا 6 ماہ کا خسارہ 7.19 ارب روپے اور مجموعی خسارہ 43.57 ارب روپے ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال کے صرف پہلے 6 ماہ میں سرکاری اداروں کے خسارے میں مزید 3.45 کھرب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف مالی عدم توازن کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ریاستی ملکیت میں چلنے والے اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو اصلاحات، شفافیت، اور نجکاری جیسے سخت فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ ان اداروں کا بوجھ قومی خزانے سے کم کیا جا سکے۔