نظام شمسی کی پیدائش کا عمل پہلی بار ریکارڈ کرلیا گیا

0 minutes, 1 second Read

ماہرینِ فلکیات نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک دور دراز ستارے کے گرد سیاروں کی تخلیق کے عمل کا براہِ راست مشاہدہ کیا ہے، جو نہ صرف فلکیاتی دنیا کے لیے اہم پیش رفت ہے بلکہ ہمارے اپنے نظامِ شمسی کی پیدائش کو سمجھنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔

یہ نیا نظامِ سیارگان ایک نوخیز ستارے HOPS-315 کے گرد تشکیل پا رہا ہے، جو ہمارے سورج جیسا ہے اور زمین سے تقریباً 1,300 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، اورائن نیبولا (Orion Nebula) میں۔

سائنسدانوں نے ہماری نظام شمسی سے گزرنے والی انٹرسٹیلر شے دریافت کرلی

سیاروں کی تخلیق کیسے ہوتی ہے؟

نوخیز ستاروں کے گرد گیس اور گرد و غبار کی ضخیم تہیں پائی جاتی ہیں جنہیں پروٹو پلینیٹری ڈِسکس کہا جاتا ہے۔ یہی وہ مقامات ہیں جہاں سیارے جنم لیتے ہیں۔

ان ڈِسکس کے اندر، ایک خاص قسم کا کرسٹل لائن منرل موجود ہوتا ہے جس میں سلیکون مونو آکسائیڈ پایا جاتا ہے۔ یہ منرلز ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر بڑے اجسام کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جنہیں پلانیٹیسی ملز کہا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ اجسام بڑے ہو کر مکمل سیارے بن جاتے ہیں۔

زمین اور مشتری کی ابتدا

ماہرین کا ماننا ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی میں زمین اور مشتری (Jupiter) کے مرکز کی ابتدا انہی گرم کرسٹل لائن منرلز سے ہوئی، جو وقت کے ساتھ قدیم شہابیوں میں قید ہو گئے تھے۔

نظام شمسی کے 7 سیارے ایک قطار میں آنے کیلئے تیار

نئی تحقیق کیا کہتی ہے؟

حالیہ تحقیق، جو معروف سائنسی جریدے ”نیچر“ میں شائع ہوئی ہے، اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ HOPS-315 کے گرد موجود گیس و گرد کے ڈسک میں وہی گرم منرلز اب ٹھوس حالت میں تبدیل ہونا شروع ہو چکے ہیں، یعنی وہاں سیاروں کی ابتدا ہو رہی ہے۔

یہ مشاہدہ نہ صرف فلکیاتی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل ہے بلکہ یہ ہمیں ہمارے نظامِ شمسی کی ابتدا اور زمین جیسے سیاروں کے بننے کے عمل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

Similar Posts