پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں نیشنل بینک سے متعلق آڈٹ رپورٹس اور مالی بے ضابطگیوں کے حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں، جس پر اراکین کمیٹی اور چیئرمین جنید اکبر نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ ایف آئی اے کی انکوائری کا سامنا کرنے والے ہیسکول پٹرولیم کے ملازمین کو نیشنل بینک کی جانب سے ایک ارب روپے کی رقم ادا کی گئی۔ اس پر چیئرمین پی اے سی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صدر نیشنل بینک سے استفسار کیا کہ ’آپ ان معاملات کی کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟‘
ممبر کمیٹی خواجہ شیراز نے سوال اٹھایا کہ ’یہ بورڈ کس قسم کے فیصلے کرتا ہے؟‘ جب کہ چیئرمین نے مزید کہا کہ ’یہی بورڈ غلط فیصلوں کے بعد خود کو آٹھ لاکھ روپے بھی دیتا ہے۔‘
صدر نیشنل بینک نے یقین دہانی کرائی کہ معاملے کی تحقیقات مکمل کرکے پی اے سی کو رپورٹ پیش کی جائے گی۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاری، پیٹرولیم لیوی مزید 10 روپے تک بڑھانے پر غور
190 ارب کا قرضہ معاف، شوگر ملوں کے ڈیفالٹ کا انکشاف
اجلاس میں بتایا گیا کہ نیشنل بینک نے غیر مناسب ضمانتوں کے تحت 190.710 ارب روپے کے ڈیفالٹ شدہ قرضے معاف کیے۔ آڈٹ حکام کے مطابق، بینک انتظامیہ قرضوں کی وصولی میں ناکام رہی، جب کہ قانون کے تحت عدالت کی مداخلت کے بغیر گروی رکھی جائیدادیں فروخت کی جا سکتی تھیں۔
سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ 2022 میں یہ قرضے نان پرفارمنگ قرار دیے گئے تھے اور اب عدالتوں میں 10,400 مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں۔
چیئرمین پی اے سی نے سخت سوال کرتے ہوئے کہا، ’کسان چند لاکھ روپے نہ دے تو اس کی زمین ضبط ہو جاتی ہے، پھر ان شوگر مل مالکان کو ریلیف کیوں دیا گیا؟‘
ہیسکول اسکینڈل: 23 ارب کا نقصان
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیشنل بینک نے ہیسکول پٹرولیم لمیٹڈ کو معاشی تجزیے کے بغیر قرض دیا، جس کے نتیجے میں تئیس ارب روپے کا نقصان ہوا۔ سینیٹر افنان اللہ نے سوال کیا کہ ’بتائیں یہ 23 ارب روپے کہاں گئے؟‘۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق، اس کیس میں 32 ملزمان کے نام ایف آئی آر میں شامل ہیں جن میں بینکرز بھی شامل ہیں۔ دو ارب روپے واپس وصول ہو چکے ہیں، تاہم بیشتر اصل مجرم بچ نکلے اور نیشنل بینک کے ملازمین پر ہی کارروائی کی گئی۔
شوگر ملز کو اربوں کے قرض، کوئی واپسی نہیں
اجلاس میں مزید انکشاف ہوا کہ انصاری، بولانی اور کھوسکی شوگر ملز سمیت مختلف شوگر ملز نے نیشنل بینک سے لیے گئے اربوں روپے کے قرض واپس نہیں کیے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ 15 ارب روپے نقصان میں ظاہر کیے گئے، جب کہ مجموعی ڈیفالٹ شدہ رقم 23.34 ارب روپے بنتی ہے۔
صدر نیشنل بینک نے بتایا کہ ان شوگر ملز کو 25 قرضے جاری کیے گئے تھے، جن میں سے کچھ ایڈجسٹ اور چند کی ری اسٹرکچرنگ کی جا رہی ہے، جب کہ 17 کیسز میں ریکوری کی کوششیں جاری ہیں۔
دیگر بے ضابطگیاں: ریٹائرڈ سیکرٹری بورڈ کی غیر قانونی توسیع
آڈٹ حکام نے بتایا کہ نیشنل بینک بورڈ نے ریٹائرڈ ہونے کے باوجود سیکرٹری بورڈ کی غیر قانونی توسیع کی، جس سے 34 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ پی اے سی نے ذمہ داروں کے تعین اور کارروائی کی ہدایت دی۔
چینی کی درآمد کیلئے ٹیکسز کو 18 فیصد سے کم کرکے 0.2 فیصد کرنے کا انکشاف
خراب کارکردگی سے 7 ارب کا نقصان
بینک کے چار گروپس کی خراب کارکردگی سے 7 ارب روپے کا نقصان بھی رپورٹ ہوا، جسے صدر نیشنل بینک نے ”اندرونی معاملہ“ قرار دیا۔ تاہم پی اے سی نے نیشنل بینک کا مؤقف تسلیم کرتے ہوئے اس پیرا کو نمٹا دیا۔
اجلاس میں بینک کی بیرون ملک 18 برانچز، روزویلٹ ہوٹل کے قرضوں کی واپسی، اور محکمانہ اسٹرکچر کی بحالی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس کے آخر میں متعدد معاملات عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باعث موخر کر دیے گئے۔